بیاد ابن انشاء

خرم علی راؤ  بدھ 29 جنوری 2020

’’ ہم مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘ یہ ابن انشا نے مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں فرمایا تھا اور یہ ایک دیو قامت ادیب اور مزاح نگارکے بارے میں دوسرے دیوقامت معاصرکا بڑا برمحل تبصرہ تھا جو آج تک دوران گفتگو دہرایا جاتا ہے، لیکن خود اردو مزاح نگاروں میں شیرمحمد خان المعروف بہ ابن انشا کا مقام بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ تو اظہر من الشمس ہی ہے نہ صرف مزاح نگار بلکہ بے مثال مترجم ، ادیب ، کالم نگار اور پھر شاعر بھی اور ایسا بھی نہیں کہ ان سارے شعبوں میں ان کا کام اور مقام کسی بھی لحاظ سے سطحی نوعیت کا ہو بلکہ جو کچھ بھی لکھا وہ منفرد، بے مثل و یادگار لکھا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی زبان کے تخلیقی ادب میں مزاح نگاری کو سب سے مشکل صنفِ تحریر سمجھا جاتا ہے کیونکہ مزاح اور پھکڑ پن کے دومیان کی باریک لکیر کا اکثر تحریر نویس لحاظ نہیں رکھ پاتے اور دونوں کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔

بلاشبہ ابن انشا اس لحاظ سے بہت بلند مقام پر نظر آتے ہیں کہ انھوں نے نہ صرف اس لکیرکو ملحوظ خاطر رکھا بلکہ ایک منفرد شناخت بنائی، ایک ایسا انداز تخلیق کیا کہ ان کی تحریر پر اگر نام نہ بھی ہو تو پڑھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ وہ ابن انشا کی تحریر پڑھ رہا ہے۔ انشا جی نے اپنی برجستہ و شگفتہ مزاح نگاری پر مبنی تحریروں سے چاہے وہ مضامین کی شکل میں ہوں یا کالمز کی شکل میں ایک ایسا گلستاں ترتیب دیا جس سے دنیا اردو ادب و صحافت ہمیشہ مہکتی رہے گی۔ اردو کا یہ بے مثل ادیب اور شاعر جس کی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہم جیسے طالب علموں نے بہت کچھ سیکھا اور جس نے بہت سے افراد کو ایسے متاثر کیا کہ وہ بھی لکھنے لکھانے کی جانب راغب ہوئے، آج سے بیالیس برس قبل کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں پہلے گیارہ جنوری 1978ء کو لندن میں دوران علاج راہی ملک عدم ہوئے۔

ابن انشاء کو تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، ایک ہمہ جہت شخصیت کے طور پر ابن انشاء کی پر تاثر تحریریں انفرادیت کی حامل ہیں۔ بہت لکھا اور جو کچھ بھی لکھا خوب لکھا۔ تو اردو کے اس منفرد لکھاری کی یاد میں ان کا آخری ریڈیائی کالم پیش خدمت ہے جو انھوں نے لندن میں دوران علاج وہاں کے ایک نشریاتی ادارے کی اردو سروس کے لیے تحریرکیا تھا اور دیکھیں کہ ایک بسترِ مرگ پر موجود ایک سچے مزاح نگار اور ادیب کا قلم کیسے اس حالت میں بھی اپنی جولانی دکھا رہا اور موتی بکھیر رہا ہے۔

’’مداری یا دوا فروش کہانی سنا کر یا بندر نچا کر آپ کو رجھاتا ہے اور عین بیچوں بیچ حرف مطلب زبان پر لاتا ہے کہ صاحبو…! خیر آج ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ پہلے یہاں کی بات سناتے ہیں پھر ادھر کو آتے ہیں۔ آج کل یہاں ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار آتا ہے۔ باکسنگ ہو رہی ہے۔ بڑا پہلوان چھوٹے پہلوان کو مار مار کر الو کر دیتا ہے۔ وہ بار بار ڈگمگاتا ہے، گرتا ہے۔ آخر اس ہارنے والے کی بی بی اس کو بلاتی ہے، اسے ایک دوا کا غرارہ کراتی ہے۔ اب جو کلی کرنے کے بعد رنگ میں جاتا ہے تو خود میں رستم کی سی طاقت پاتا ہے۔ ایک مکے میں حریف کو ڈھیرکر دیتا ہے۔

سب حیران ہیں کہ یہ دو دم میں کیا ماجرا ہو گیا کہ … گرنے والا کھڑا ہو گیا۔ اب دوا کی شیشی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ ساری کرامت لسٹرین کی ہے۔ ابھی کلی ہی کی ہے جس کی یہ تاثیر ہے۔ کہیں غٹ غٹ پی جاتا تو جانے کیا فیل مچاتا، ہنو مان کی طرح پہاڑ سر پہ اٹھا لاتا۔ یہ نسخہ تو ولایت کا ہے لیکن ہمارے ہاں کے باکمال بھی کسی طور ان سے ہیٹے نہیں… یہ انشا جی کے آخری ریڈیائی کالم سے چند سطریں پیش کی ہیں۔ اپنے ایک اور لاجواب مزاح پارے میں جس کا عنوان ہے ’’فیضؔ اور میں‘‘ ابن انشا کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں کہ فیضؔ صاحب کے متعلق کچھ لکھتے ہوئے مجھے تامل ہوتا ہے۔ دنیا حاسدان بد سے خالی نہیں۔

اگر کسی نے کہہ دیا کہ ہم نے تو اس شخص کو کبھی فیضؔ صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں دیکھا توکون ان کا قلم پکڑ سکتا ہے۔ احباب پر زور اصرار نہ کرتے تو یہ بندہ بھی اپنے گوشہ گمنامی میں مست رہتا۔ پھر بعض باتیں ایسی بھی ہیں کہ لکھتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ آیا یہ لکھنے کی ہیں بھی یا نہیں۔ مثلاً یہی کہ فیضؔ صاحب جس زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، کوئی اداریہ اس وقت تک پریس میں نہ دیتے تھے جب تک مجھے دکھا نہ لیتے۔ کئی بار عرض کیا کہ ماشاء اللہ آپ خود اچھی انگریزی لکھ لیتے ہیں لیکن وہ نہ مانتے اور اگر میں کوئی لفظ یا فقرہ بدل دیتا تو ایسے ممنون ہوتے کہ خود مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔

ایک اور شاہکار تحریر سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں اور داد دیں لکھنے والے کے کمالِ فن کو کہ جو لکھا وہ تاحال صادق آ رہا ہے۔ انشا جی لکھتے ہیں کہ:

ملاوٹ کی صنعت

رشوت کی صنعت

کوٹھی کی صنعت

پگڑی کی صنعت

حلوے کی صنعت

مانڈے کی صنعت

بیانوں اور نعروں کی صنعت

تعویذ، گنڈوں کی صنعت

یہ ہمارے ہاں کا صنعتی دور ہے۔

یہ مزاح کے زندہ و تابندہ دورِ انشاء کی چند جھلکیاں ان ہی کی تحاریر سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ نثرکی طرح انشا جی کی شاعری بھی مقبولیت اور شہرت کی انتہاؤں کی حامل ہے بلکہ آپ کی مشہور غزل ’’ انشاجی اٹھو، اب کوچ کرو‘‘ جسے استاد امانت علی خان کی طلسماتی گائیکی نے مزید دوآشتہ بنا دیا ہے، کے بارے میں ایک بڑی ادبی شخصیت نے انشا جی کی وفات پر اپنے تعزیتی بیان میں کہا تھا کہ یہ کلام اتنا زیادہ چلا اور اتنا زیادہ سنا گیا کہ اپنی تکرار سے جیسے یہ ایک طلسم یا سحرکا روپ دھار گیا اور انشاجی کو اس جہانِ فانی سے کوچ ہی کرنا پڑا۔

تو دیکھا آپ بے کیا جولانیء طبع ہے کیا قلم کی روانی ہے اورکیا برجستہ مزاح ہے اورکیا اعلیٰ شاعری ہے اور آج بھی مزاح نگار اپنی تحاریر میں ابن انشا کے فن سے جا بجا متاثر ہوتے اور اکتساب کرتے نظر آتے ہیں جوکہ ابن انشا کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔ بلاشبہ انشا جی آپ ہماری نظروں سے تو اوجھل ہو گئے اور انشا اللہ ابد آلآباد کی بہشتوں کے چاند نگروں میں کہیں موجود ہوں گے لیکن ہمارے دلوں میں بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آپ کی تحریریں بھی آپ کی یادوں کی طرح ہمیشہ نہ صرف زندہ و تابندہ رہیں گی بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے دھندلانے کے اور چمکتی، نکھرتی اور مزید تازگی و شگفتگی حاصل کرتی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔