تبدیلی تو مہنگائی کی نذر ہوگئی

عابد محمود عزام  جمعرات 30 جنوری 2020

کپتان پر تنقید تحریک انصاف کے پرجوش حامیوں پر گراں گزرتی ہے، مگرکبوترکی طرح آنکھیں بند کرنے سے حقیقت بدل نہیں جایا کرتی اور یہ حقیقت تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ عوام کو ان سے بہت زیادہ تو قعات تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ عوام کی بہت سی امیدیں ٹوٹی ہیں۔

کپتان نے عوام کو جو خواب دکھائے تھے، وہ خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔ حکومت کارکردگی دکھانے کے لیے اگرچہ پانچ سال کا وقت مانگ رہی ہے، لیکن کچھ کر دکھانے کے لیے ایک ڈیڑھ سال بھی کم نہیں۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سیاسی میدان میں خوب ہلچل مچائے رکھی۔ ماضی کے حکمرانوں پر سخت تنقید کے تیر برسائے اور عوام کو سہانے خواب بھی دکھائے۔

2018 میں الیکشن ہوا ۔ پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی سمیٹی اورعمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو پوری قوم کی پر امید نظریں ان پر مرکوز تھیں، کیونکہ لاکھوں لوگوں نے انھیں صرف اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ برسوں سے مشکلات کی چکی میں پستے عوام کو مشکلات سے نکالیں گے اور ملک کے لیے ضرورکچھ کریں گے۔ عوام روایتی سیاست اور روایتی سیاست دانوں سے تنگ آچکے تھے اور ان کے لیے قربانیاں دیتے دیتے تھک چکے تھے۔ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا توکروڑوں لوگوں نے ان کے تبدیلی کے نعرے کو پسند کیا اور ملک میں تبدیلی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔

کپتان نے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو ایسی جماعت کے طور پر پیش کیا ، جو برسر اقتدار آتے ہی چند روز میں ملک کے حالات تبدیل کر دے گی۔ بھرپور دعوؤں اور وعدوں سے عوام کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس بڑی قابل اور ماہر ٹیم موجود ہے، جو زبردست تیاری کر کے میدان میں اتری ہے۔کپتان نے اگرچہ یہ ثابت کرنے کی بہت کوشش کی کہ ان کے پاس قابل اور ماہر ٹیم ہے، لیکن ان کی ٹیم کی بری کارکردگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس حکومتی ٹیم بہت کمزور اور نااہل ہے۔ بغیر تیاری کے اقتدار میں آ جانا پی ٹی آئی کی بہت بڑی ناکامی تھی۔

ایک ایسی پارٹی جو اقتدار میں آنے کی خواہش مند تھی اور انھیں انتخابات میں اپنی کامیابی پر پورا یقین بھی تھا، پھر بھی انھوں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ ان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی وزراء اپنی وزارتوں اور متعلقہ محکموں میں کام کرنے سے زیادہ اپوزیشن کے خلاف بیان بازی کر کے کپتان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ اپنے کام سے مخلص نہیں، انھیں اپنی ذمے داری کا احساس نہیں ہے۔ وہ کپتان کے تبدیلی کے خواب کو چکنا چورکر رہے ہیں۔ عوام کو یقین تھا کہ کپتان اور ان کی ٹیم انھیں اس طرح تنہا نہیں چھوڑیں گے، جیسے دیگر سیاستدان چھوڑتے آئے ہیں، لیکن کپتان اور ان کی ٹیم نے عوام کا سارا یقین متزلزل کرکے رکھ دیا اورآج پوری قوم عمران خان سے نالاں نظر آ رہی ہے۔ عوام میں مایوسی و نا امیدی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

عمران خان کی حکومت نے کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں، مگر ناکامیوں کی منزلیں بھی برق رفتاری سے طے کر رہی ہے۔ ان کی حکومت کی کامیابیوں سے ناکامیوں کی فہرست طویل ہے، جن میں سے معاشی میدان میں ناکام ہونا بڑی ناکامی ہے۔ حکومت معاشی بحران سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، لیکن جتنے ہاتھ پاؤں مارتی ہے، اتنا ہی معاشی دلدل میں مزید دھنستی جا رہی ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر بدترین زوال کا شکار ہے۔ ڈالر آسمان پر پہنچ چکا ہے اور نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سونے کی فی تولہ قیمت بھی ایک لاکھ تک پہنچنے والی ہے۔کپتان کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، مہنگائی کا جن نہ صرف بوتل سے باہر نکل گیا ہے، بلکہ حکومتی کنٹرول سے بھی باہر ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مہنگائی کم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ آٹا، چینی، گھی، چاول،دودھ ،دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ بجلی،گیس،پٹرول اورادویات بنیادی انسانی ضروریات ہیں،جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی حق ہے، لیکن ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کی زندگی تلخ کر دی ہے۔

موجودہ حکومت عوام کو ماضی کے حکمرانوں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے وعدے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ پی ٹی آئی کے بانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ہمیشہ غریبوں کے حقوق کی بات کی اور ان سے بہت سے وعدے کیے تھے، لیکن نئے پاکستان میں عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو ریلیف دینے کے صرف وعدے کرتی ہے اور یہی کام پاکستان تحریک انصاف نے کیا ہے۔حکومت نے اس حوالے سے کسی طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے کہ عوام کو کسی صورت ریلیف مل سکے۔ عوام کو توقع تھی کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا لے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملے گا، لیکن عوام کی تمام امیدوں پر پانی پھرگیا ہے۔ مہنگائی کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بیروزگاروں کے لشکر بڑھتے جا رہے ہیں۔

ان کی جماعت کی زیادہ مقبولیت ملک کے متوسط طبقے میں ہے اور ان کے ووٹ سے اقتدار ملا ، مگر جن کی وجہ سے حکومت ملکی، وہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے ہی کوئی سہولت نہ دے سکی، بلکہ ان کی زندگی بے انتہا مشکل بنا دی گئی ہے۔ اب وہ لوگ بھی کپتان کو کسی طور کامیاب وزیر اعظم تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جو ورلڈ کپ اور شوکت خانم کی مثالیں دے کر عمران خان کو ایک کامیاب انسان ثابت کرتے نہیں تھکتے تھے۔ جن لوگوں نے الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کے لیے دن رات محنت کی تھی، وہ لوگ بھی آج عمران خان کی حکومت کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ لوگ عمران خان کو مسیحا سمجھتے تھے۔

ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں، لیکن عمران خان نے سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ملک کی اکثریت عام لوگوں پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر ووٹر بھی عام آدمی ہے اور عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کس کو پکڑ لیا گیا اور کسے چھوڑ دیا گیا۔

یہ بڑے لوگوں کی دلچسپی کے امور ہیں۔ عوام کو علم ہے کہ تمام جماعتوں کے بڑے لوگ اربوں کھربوں کی کرپشن کرکے بھی آزاد رہتے ہیں۔ عام آدمی کی پریشانی تو یہ ہے کہ اس کو روزگار ملے، اسے ضروریات زندگی میسر آتی رہیں۔ عام آدمی کو تو اس بات کی ٹینشن ہوتی ہے کہ اپنی کم آمدنی سے اپنا گھر کیسے چلانا ہے۔ عوام کا گھر چلنا چاہیے اور ان کا چولہا جلنا چاہیے۔ اگر حکومت عوام کا چولہا ٹھنڈا کر کے ملک کا خزانہ بھرنا چاہے گی تو اس سے عوام کا متنفر ہونا فطری امر ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ عوام کو مایوس نہ کیا جائے اور ان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ عمران خان اگر ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو مہنگائی ختم کرکے عوام کی مشکلات ختم کرنا ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔