سخت سزاؤں کا اطلاق اور عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  منگل 18 فروری 2020
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

بچوں سے جنسی زیادتی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لیے دنیا بھر میں کام ہورہا ہے۔

وطن عزیز کی بات کریں تو گزشتہ چند برسوں میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے بعد سے حکومت پاکستان نے اس پر کام کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ ماہ قومی اسمبلی سے ’زینب الرٹ بل‘ منظور کیا گیا جبکہ رواں ماہ بچوں سے زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دینے کی قراردادمنظور کی گئی۔ اس اہم پیشرفت کو دیکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 مسرت جمشید چیمہ

(ترجمان پنجاب حکومت و چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ، پنجاب اسمبلی)

معصوم بچی زینب سے زیادتی و قتل کے افسوسناک واقعہ کے وقت ہماری حکومت نہیں تھی مگر سب نے اس کی بھرپور مذمت کی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ہم نے حکومت سنبھالنے کے بعد زیادتی کے افسوسناک واقعات کے تدارک کے لیے کام کا آغاز کیا۔ قصور میں بچوں سے زیادتی کے حالیہ واقعا ت کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبہ بھر کی انتظامیہ کو ان واقعات کی روک تھام کیلئے ٹارگٹ دیا۔ قومی اسمبلی میں ’زینب الرٹ بل‘ منظور کیا گیا جو ایک مکمل لائحہ عمل ہے۔ اس کے تحت حکومت زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری اتھارٹی قائم کر رہی ہے، جس کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے جبکہ ایک ڈی جی بھی تعینات کیا جائے گا۔ اس میں متاثرین کو تیزی سے انصاف ملے گا اور انہیں ہر قسم کی معاونت فراہم کی جائے گی۔

بچوں سے زیادتی کے تمام کیسز کی تفتیش وزیراعظم کی سربراہی میں ہوگی، اس حوالے سے ایک ’’ایپ‘‘ اور فری ہیلپ لائن بھی قائم کی جارہی ہے، جس پر ایسے کیسز کے حوالے سے شکایات درج کروائی جاسکیں گی اور وزیراعظم خود ان کی مانیٹرنگ کریں گے جبکہ والدین کو لمحہ بہ لمحہ تفتیش میں پیشرفت کے حوالے سے آگاہ بھی کیا جائے گا۔ لوگوں کو آگاہی دینے کے حوالے سے بھی معاملات زیر غور ہیں،پی ٹی اے اور پیمرا کے تعاون سے لوگوں آگاہی پیغامات بھیجے اور نشر کیے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو تحفظ کا احساس ہوگا بلکہ وہ اپنے اردگرد نظر رکھیں گے جس سے ایسے کیسز کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

ریاست کا کردار ماں جیسا ہے، بچوں سے زیادتی و غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں ریاست مدعی ہوگی تاکہ فریقین عدالت سے باہر آپس میں معاملات طے نہ کرسکیں۔ زینب الرٹ بل کے بعد سے زیادتی کے مجرم کو سزائے موت اور عمر کی قید کی سزا ہوگی اور اب وہ چند برس بعد واپس نہیں آسکے گا۔ زیادتی کے مجرم کو سزائے موت کی قرار داد اسمبلی سے منظور ہوچکی ہے، اس کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ ایسے کیسز میں ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی ہے، سخت قانون سازی کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کے نظام اور پریوینشن پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور ان کی ہدایت کے مطابق تندہی سے کام جاری ہے۔

اسلام خوبصورت اور جامع مذہب ہے۔سعودی عرب میں نماز کے اوقات میں ’گولڈ مارکیٹ‘ کے دوکاندار بغیر تالے لگائے چلے جاتے ہیں اور کوئی وہاں چوری نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سزا و جزا کا وہی نظام رائج ہے جو 1400 برس پہلے ہمیں بتایا گیا۔ بدقسمتی سے جو ممالک اسلامی تعلیمات سے دور ہوئے وہاں مسائل پیدا ہوئے، ہمیں اپنے اصل کی جانب لوٹنا ہوگا۔ پریوینشن کی پہلی شرط سخت اور عبرتناک سزائیں ہیں، ہم غریب ملک ہیں، ہر بچے کو مانیٹر نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اگر چند افراد کو سخت اور عبرتناک سزائیں دے دی جائیں تو بچوں سے زیادتی کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔

پنجاب میں ڈسٹرکٹ و ڈویژن ہیڈ کواررٹرز کو سیف سٹی اتھارٹی کے ساتھ لنک کر دیا گیا ہے، زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری اتھارٹی کو بھی اس سے لنک کر رہے ہیں تاکہ معاملات میں بہتری لائی جاسکے۔ محکموں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، اس حوالے سے کووارڈی نیشن سیل بھی قائم کرنے جارہے ہیں تاکہ انفارمیشن شیئرنگ کو لازمی و موثر بنایا جاسکے۔ گزشتہ دنوں ایک کیس کے فرانزک کی لاگت فرانزک کے پورے سال کے بجٹ کے برابر تھی، اگر یہ رقم پریوینشن پر خرچ کی جائے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پری وینشن کے حوالے سے جامع حکمت عملی بنائی جارہی ہے، تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل بھی کیے جارہے ہیں، ہر سطح کے طلباء کو ان کی عمر کے حساب سے تربیت دی جائے گی اور اس کے ساتھ عوامی آگہی کیلئے وسیع پیمانے پر مہم بھی چلائی جائے گی۔

علامہ زبیر احمد ظہیر

(امیرمرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)

زیادتی کے مجرم کو پھانسی کی قرارداد منظور کرنے پر وفاقی وزیر علی محمدخان اور جن اراکین اسمبلی نے اس قرارداد کی حمایت کی، سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان عوامی نمائندوں کے دل مظلوم بچوں اور ننھی کلیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے دکھ اور تکلیف کا احساس کیا اور بچوں کے تحفظ کے لیے بہترین قدم اٹھایا ہے۔

اگر پارلیمنٹ اسی طرح کام کرتی رہی تو عوام کی درست ترجمانی ہوگی۔ ایک سروے کے مطابق 94 فیصد پاکستانیوں نے اس قراردار کی حمایت کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں وہ قوم کے نمائندے اور ترجمان نہیں ہیں بلکہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ دین اسلام اس وقت تک سزا نافذ نہیں کرتا جب تک اس جرم کے اسباب، محرکات یا مواقع ختم نہ کر دیے جائیں لہٰذا اسلام کے خلاف ظالمانہ سزاؤں کا مغربی پراپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔ ایک انجینئر اپنی بنائی ہوئی مشینری کے تمام رازوں ، خرابیوں اور کمزوریوں سے واقف ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خرابیوں کا حل کیا ہے۔ یہ سزائیں اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں جو کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں بنایا اور حضرت محمدﷺ پر قرآن پاک نازل کیا۔ یہ سزا قرآن پاک میں رکھی گئی ہے۔ یہ عدل و انصاف کا تقاضہ ہے: ایک شخص جو کسی کی جان لیتا ہے، کیا اس کی جان اس سے زیادہ قیمتی ہے؟ قرآن پاک میں ہے جان کے بدلے جان، مرد کے بدلے مرد، عورت کے بدلے عورت، غلام کے بدلے غلام، آزاد کے بدلے آزاد اور آخر میں فرمایا کہ ہم نے قصاص میں تمہارے لیے زندگی رکھی ہے۔

اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں کی ترجمانی کرنے والے سزائے موت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں چند درندوں کے انسانی حقوق تو یاد آرہے ہیں مگر زیادتی کا شکار ہونے والے معصوم بچوں اور کشمیر، فلسطین، شام، عراق، یمن و دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے معصوم انسانوں کے حقوق نظر نہیں آرہے؟ ملک میں روزانہ سینکڑوں قتل ہوتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور میں ایک پپوکیس ہوا تھا۔ اس کے مجرموں کو کیمپ جیل کے سامنے سر عام پھانسی دی گئی۔ اس کے بعد پورا سال ملک میں کوئی قتل نہیں ہوا۔ افسوس ہے کہ مخالفت کرنے والوں کو چند لوگوں کے حقوق یاد ہیں مگر کروڑوں کے حقوق یاد نہیں ہیں۔ جو لوگ اسلامی سزاؤں کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ضروراس پہلو پر سوچنا چاہیے کہ وہ مجرموں کو تحفظ دے رہے ہیں۔

پینسلوینیا کی آبادی سعودی عرب کی آبادی کے برابر ہے۔ پینسلوینیا میں ایک برس میںجتنے جرائم ہوئے، سعودی عرب میں 50 برس میں نہیں ہوئے۔ ہمارے دانشور یہ بتانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یورپ، برطانیہ و دیگر ممالک اسلام کی مخالفت کی وجہ سے درندوں اور مجرموں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں مگر انہیں دنیا بھر میں ظلم کا شکار ہونے والے کروڑوں کے حقوق نظر نہیں آتے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں میں خودکشی کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں ڈپریشن کی وجہ سے قتل و غارت بھی ہوتی ہے مگر وہ سیدھے راستے پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں غلامانہ سوچ رکھنے والے افراد ان کی تقلید کر رہے ہیں اور ان کے برا ماننے کے ڈر سے کچھ نہیں کرتے۔ بقول اقبالؒ:

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

ہمیں اقوام متحدہ کی ناراضگی کا ڈر ہے، سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کے حق میں آج تک کیا کیا؟کشمیر، فلسطین و دیگر ممالک میں مسلمانوں کیلئے اقوام متحدہ نے کیا کیا؟ ہمیں خود اپنے ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور اس کے لیے اسلام کے مطابق سزائیں نافذ کرنا ہونگی۔ سرعام سزا عبرت کیلئے رکھی گئی ہے۔ اگر چند مجرموں کو سرعام سزا دے دی جائے تو کروڑوں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہوجائیں گی۔ اب تک ہزاروں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، افسوس ہے کہ سزائے موت کی مخالفت کرنے والوں کو ہزاروں بچوں کے بجائے چند درندوں سے ہمدردی ہے۔ مخالفت کرنے والے اسلام مخالف ایجنڈے پر ہیں۔ مولانا ظفر علی خانؒ نے انہی لوگوں کے لیے کہا کہ:

خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا

آنکھوں سے شرمِ سرور کون و مکاں گئی

ان کو یہ بھی خیال نہیں کہ یہ کلمہ گو ہیں، ان کے باپ دادا مسلمان تھے، اگلی نسلیں بھی مسلمان ہیں۔ انہیں اپنی اولاد کے مستقبل کا سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اسی معاشرے میں زندگی گزارنی ہے۔ یہ قرارداد خوش آئند ہے، اس پر قانون سازی ہونی چاہیے اور وزیراعظم کو اس سزا پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے، یہ تمام پاکستانی بچوں کے تحفظ کا معاملہ ہے، اگر انہوں نے یہ کام کردیا تو عوام آئندہ انتخابات میں بھی ان کا ساتھ دیں گے۔

عمرانہ پروین بلوچ

(سابق نائب صدرسپریم کورٹ بار ایسوی ایشن)

زیادتی کے مجرم کو سزائے موت کی قرارداد کا منظور ہونا درست ہے۔ اس میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں لہٰذا اگر دور کر دی جائیں تو سزا دینا ممکن ہے۔ عدالتوں پر بوجھ کی وجہ سے نظام انصاف سست ہے۔ عدالتوں کو ہر طرح کے کیس نمٹانا ہوتے ہیں لہٰذا کسی بھی کیس کا فیصلہ ہونے دیر لگتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ بچوں سے زیادتی کے کیسوں کے حوالے سے الگ قانون کے ساتھ ساتھ الگ عدالتیں بنائی جائیں تاکہ ’’ڈے ٹو ڈے‘‘ سماعت ممکن ہوسکے۔ زیادتی کے حوالے سے قانون میں CPC-311 کو شامل کر نا چاہیے تاکہ عدالت سے باہر تصفیہ نہ ہوسکے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ متاثرہ خاندان دباؤ میں، کسی کے کہنے پر یا پھر پیسے کے لالچ میں سمجھوتہ کر لیتا ہے تو پھر کیس ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ایک ملزم کو بلکہ درندہ صفت تمام افراد کو بھی حوصلہ ملتا ہے۔ زیادتی کے مجرم کو7 سال قید کی سزا ہوتی ہے جو ساڑھے 3 سال میں بھگت کر باہر آجاتا ہے اور جو جرائم پیشہ افراد ہیں وہ اس سزا کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ میرے نزدیک سزائے موت کی سزا دینا درست ہے، اس سے ملزمان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔دین اسلام میں زنا کے مرتکب کو سنگسار کیا جاتا ہے اور چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ یہ سزا دوسروں کے لیے باعث عبرت ہوتی ہے۔

پولیس کے نظام میں بھی خرابیاں ہیں، بے گناہ لوگوں کو ایسے کیسوں میں پھنسا دیا  جاتا ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے لہٰذا اس حوالے سے اصلاحات لائی جائیں۔ ہر بچہ ریاست کا بچہ ہے، حکومت ہر متاثرہ بچے کو  مفت قانونی معاونت فراہم کرے۔اس حوالے سے خصوصی عدالتیں اور لیگل ٹیم مقرر کی جائے جو صرف زیادتی کے کیسز پر ہی کام کرے۔ ریاست خود ایسے کیسز کی مدعی ہو تاکہ دونوں فریقین عدالت سے باہر صلح نہ کر سکیں۔قومی اسمبلی سے سزائے موت کی قرار داد منظور ہوچکی، اب اس پر قانون سازی کے حوالے سے کام کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی سزائیں بہترین ہیں، انہیں نافذ کرنے سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔

افتخار مبارک

(نمائندہ سول سوسائٹی )

جنسی تشدد صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے اور بدقسمتی سے دنیا بھر میں بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی بچے جنسی تشدد کی مختلف اقسام کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں بچوں سے زیادتی کے واقعات کے اعداد و شمار بڑا مسئلہ ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہیں۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے زیادتی کے کیسوں کی تعداد ہی کو ڈیٹا تصور کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں تعداد زیادہ ہے، اگر سرکاری سطح پر اس حوالے سے ڈیٹا مرتب کیا جائے تو بہتر اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ میں اس کو دوسری طرح سے دیکھتا ہوں۔ آج سے 10 برس قبل ذرائع ابلاغ کا دائرہ کار وسیع نہیں تھا۔ سرکاری چینل اور چند اخبارات عوام کیلئے انفارمیشن کا باعث تھے۔ اب بے شمار ٹی وی چینلز، قومی و علاقائی اخبارات ہیں، جن کی وجہ سے ان واقعات کی رپورٹنگ زیادہ ہورہی ہے۔ خصوصاً قصور میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کے بعدسے میڈیا نے ان پر زیادہ توجہ دی ہے۔ کووریج زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زیادتی کے واقعات میں اضافہ وہورہاہے۔ بچوں پر تشدد ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔

یہ ہماری سیاسی قیادت نے طے کرنا ہے کہ کیا اس معاملے کے حل کیلئے جذباتی اقدامات کرنے ہیں یا کثیر الجہتی اور طویل المدت اقدامات کرنے ہیں جن کا مقصد بچوں کو زیادتی کا شکار ہونے سے بچانا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو قرارداد منظور کی ہے وہ جذباتی ہے، ہمیں جذباتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے جن سے ہم صحیح معنوں میں پاکستان کے بچوں کو تحفظ دے سکیں۔ اس حوالے سے میری چند تجاویز ہیں جن پر کام کرنے سے زیادتی جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سکولوں کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی انتہائی ضروری ہے جو فوری طور پر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی ول چاہیے۔ اس حوالے سے ایجنڈہ بنایا جائے، تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہوں اور اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔

بچوں کو تعلیمی نصاب کے ذریعے ایمپاور کیا جائے کہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکیں۔ والدین اور اساتذہ کیلئے تربیتی کورس لانے کی ضرورت ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کو انصاف تک رسائی کیلئے ایکسپرٹ لیگل آؤٹ لیٹس بنائے جائیں۔بچوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے معاملات کو دیکھتے ہوئے چائلڈ فرینڈلی عدالتیں قائم کی جائیں اور انصاف کے نظام کو تیز بنایا جائے۔ایسا نہیں ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق سزائیں نہیں ہورہی۔ زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں بھی ہوئی ہیں مگر سزا کی خبریں میڈیا میں زیادہ رپورٹ نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ عدالتی نظام کی سست روی سے سزائیں کم اور تاخیر سے ہوتی ہیں۔

وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کی جدوجہد کو ترجیح قرار دیا تھا لہٰذا اب یہ ان کی ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جامع حکمت عملی تشکیل دیں اور پھر تندہی سے اس پر کام کیا جائے۔ ہمیں اپنے نظام کو ’متاثرین دوست‘ بنانا ہے جہاں زیادتی کا شکار بچوں کو بروقت انصاف ملے اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ہمیں بطور قوم اپنے رویے درست کرنا ہوں گے۔ جنسی تشدد کے بعد عدالت سے باہر راضی نامہ کرنے کو حرام قرار دیا جائے۔ آرٹیکل 376 اور 377 کی وجہ سے زیادتی کے قانون میںعدالت سے باہر راضی نامہ ممکن نہیں مگر کر لیا جاتا ہے۔ ہمیں نظام قانون میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ ایک بات سمجھنی چاہیے کہ سزا وقوعہ ہونے کے بعد ملے گی لیکن اگر پریوینشن پر کام کیا جائے تو محدود وسائل میں اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ پورے ملک میں بچوں کو جنسی تشدد و زیادتی سے بچانے کے حوالے سے کوئی پلان موجود نہیں۔ اس حوالے سے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔