محبوب خان

نوید جان  اتوار 29 مارچ 2020
بھارتی فلم نگری کے افسانوی شہرت کے مالک فلم ساز

بھارتی فلم نگری کے افسانوی شہرت کے مالک فلم ساز

برصغیر کی فلمی دنیا کی محبوب شخصیت، نمایاں اور افسانوی شہرت کے حامل فلم ساز وہدایت کار محبوب خان 9 ستمبر 1907ء کو گجرات کے ایک گاؤں بلیمورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمدرمضان تھا۔ ان کے آباؤ اجداد افغانستان سے آکر پہلے خیبرپختون خوا کے خوب صورت علاقے ہزارہ کے گاؤں شیروان میں آباد ہوئے اور بعد میں تلاش معاش کے سلسلے میں وہاں سے نقل مکانی کرکے گجرات جاکر آباد ہوگئے۔ محبوب خان کی کم عمری ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ انتہائی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکے جس کا انہیں بہت رنج تھا۔ لڑکپن ہی سے انہیں جلوہ گاہ اور فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ چناںچہ اداکار بننے کے شوق میں گھر سے بھاگ کر فلم نگری بمبئی کا رخ کیا۔

وہ اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے گھوڑوں کے ایک بیوپاری نورمحمد علی کے ساتھ بمبئی جاپہنچے، جہاں ان ہی کی ملازمت اختیار کرلی۔ نورمحمد علی فلم نگری کو گھوڑے مہیا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے ہاں ایک فلم ڈائریکٹر چندرشیکر ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے، محبوب خان نے ان سے اپنے جنون اور خواہش کا اظہار کیا، جسے دیکھ کر چندرشیکر ان کو اپنے ساتھ فلم نگری لے گئے۔

وہاں جاکر انہوں نے اردشیرایرانی کی امپیریل کمپنی میں 30روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کرلی اور دل لگا کر کام میں جُت گئے۔1927ء میں اس ادارے کی ایک خاموش فلم ’’علی بابا‘‘ میں ایک چور کا معمولی سا کردار نبھایا۔ اس کے بعد امپیئرل کمپنی کی چند خاموش فلموں ’’سنیماگرل، رام رحیم، شیریں خسرو اور انتقال‘‘ میں معمولی نوعیت کے کردار نبھاتے رہے، لیکن ان کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ وہ دور ماردھاڑ اور طلسماتی فلموں کا دور کہا جاتا تھا۔ محبوب خان نے بھی اپنی ابتدائی فلمیں اسی انداز میں بنائیں جن میں ججمنٹ آف اللہ، علی بابا اور ہمایوں شامل تھیں، لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی، وہ فلموں کو بامقصد ذریعے کے طور پر دیکھنے کے قائل تھے۔

اسی لیے انہوں نے فلم ’’ایک ہی راستہ‘‘ اور اس کے بعد چند ایس فلمیں بنائیں جن میں سماج کے سلگتے مسائل، غریبوں کے استحصال اور سماج میں عورت کے مقام کو اجاگر کیا،’’جاگیردار، بہن، روٹی، تقدیر اور عورت‘‘ ایسی ہی فلمیں تھیں۔ ممبئی فلم نگری میں سب سے پہلی رنگین فلم ’’آن‘‘ محبوب نے ہی بنائی۔ فلم ’’امر‘‘ میں دلیپ کمار، مدھوبالا اور نمی جیسے اداکار شامل ہوئے۔ نوشاد کی موسیقی میں بنی فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے، لیکن فلم کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی، کیوں کہ فلم میں دلیپ کمار کا کردار منفی دکھایا گیا تھا۔ محبوب خان نے اس دور میں ایسی ہمت دکھائی جب ناظرین ہیرو کا منفی کردار پسند نہیں کرتے تھے۔

محبوب خان کی ’’مدرانڈیا‘‘ کو شاہ کار فلم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فلم کئی معنوں میں بھارتی فلمی صنعت کی یادگار فلم ثابت ہوئی۔ مدرانڈیا وہ پہلی فلم تھی جو غیرملکی زبان کی فلموں کی حیثیت سے آسکرایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کے ذریعے پہلی مرتبہ سنیل دت کو متعارف کرایا گیا۔ فلم میں بھارت کے دیہات کی صحیح تصویر پیش کی گئی ہے۔ محبوب خان چوں کہ دیہات میں رہ چکے تھے اس لیے انہیں وہاں کے تہوار، رہن سہن، بول چال ہر بات سے واقفیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ یہ فلم شاہ کار قرار پائی۔ ’’مدرانڈیا‘‘کے بعد محبوب خان نے ’’سن آف انڈیا‘‘ بنائی جو زیادہ متاثرکن ثابت نہ ہوسکی۔

1930ء میں محبوب خان ساگر مووی ٹون میں چلے گئے۔ اس ادارے کی ایک خاموش فلم ’’دلاور‘‘ میں جلوبائی اور ماسٹروٹھل کے ساتھ کام کیا جس کے ہدایت کار جی آرٹور نے تھے۔ اس کے بعد ساگر کی متعدد خاموش فلموں ’’طوفان، گولی باز، اللہ کا پیارا، میٹھی چھری، میواڑکاموالی اور سائیکلون گرل‘‘ وغیرہ میں مختلف چھوٹے موٹے کردار نبھائے۔1931ء میں بولتی فلموں کا دور شروع ہوجانے کے بعد محبوب نے ساگر کی بولتی فلموں ’’رومانٹک پرنس‘‘ میں زبیدہ اور جال مرچنٹ کے ساتھ بطور معاون اداکار کام کیا۔ اس کے بعد محبوب نے ساگر کی متعدد فلموں ’’بلبلِ بغداد، مرزاصاحباں، پریمی پاگل، چندراشا، ناچ والی، گرے لکشمی اور ستی انجنی‘‘ میں کام کیا۔

محبوب کافی عرصے تک فلموں میں بطور اداکار کام کرتے رہے۔ تاہم وہ اپنی اداکاری سے مطمئن نہ تھے۔ وہ اداکاری سے زیادہ ہدایت کاری میں دل چسپی رکھتے تھے۔ انہیں کیمرے کے آگے ہدایت کاروں کے اشاروں پر ناچنا پسند نہیں تھا، بلکہ کیمرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اداکاروں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے تھے۔

وہ شب وروز اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوچ بچار کرتے رہے۔ آخرکار ایک دن انہوں نے اپنی کمپنی کے مالکان کسے ایک فلم ڈائریکٹ کرنے کی درخواست کردی۔ کمپنی مالکان اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہ تھے، پہلے انہوں نے صاف صاف انکار کردیا لیکن محبوب کے باربار اصرار پر انہوں نے اس شرط پر فلم بنانے کی اجازت دی کہ بمبئی کا کوئی بڑا سرمایہ دار اس بات کی ضمانت دے کہ فلم فلاپ ہونے کی صورت میں تمام ہرجانے کا وہ ذمہ دار ہوگا۔ پہلے تو محبوب اس صورت حال سے بڑے دل گرفتہ ہوئے تاہم انہوں نے اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ان ہی گھوڑوں کے بیوپاری سے بات کی۔ انہوں نے محبوب کے ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے کمپنی مالکان کو ہر قسم کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا۔ اس طرح محبوب اداکاری سے ہدایت کاری کی جانب آگئے۔

1935ء میں محبوب نے ساگر کے بینر تلے اپنی پہلی فلم ’’الہلال‘‘ عرف ججمنٹ آف اللہ بنائی۔ اس فلم کے موسیقار پران سنگھ نائیک تھے، اداکاروں میں ستارا، کمار، اندرا، یعقوب، قائم علی اور آزوری نمایاں تھے۔ یہ اپنے دور کی کام یاب فلم ثابت ہوئی جس نے محبوب کوایک کام یاب ہدایت کار ثابت کردیا۔ اس فلم کی کہانی محبوب کے دوست فرزند پشاور ضیاء سرحدی نے لکھی تھی جو ساگر کمپنی میں ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ بعدازاں ان دونوں کی دوستی مثالی رہی، فلم الہلال کی شان دار کام یابی کے بعد محبوب نے ساگر کی متعدد فلموں ’’دکن کوئین، من موہن، جاگیردار، وطن، ہم تم اور وہ، ایک ہی راستہ اور علی بابا‘‘ وغیرہ کی ہدایات دیں جس نے محبوب کی بطور ہدایت کار صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

1940ء میں محبوب نیشنل اسٹوڈیو سے وابستہ ہوگئے اور اس ادارے کی شہرۂ آفاق فلم ’’عورت ‘‘ کی ہدایات دیں، جس کے موسیقار اٹل بسواس تھے۔ اداکاروں میں سردار اختر، جیونی، سریندر، ارون، برج رانی، یعقوب، پریش اور کنہیال لال نمایاں تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئی، تقسیم ہند کے بعد محبوب نے ’’مدرانڈیا‘‘ کے نام سے اس فلم کو دوبارہ بنایا، جو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران محبوب سردار اختر کو دل دے بیٹھے اور ان سے شادی کرلی۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی شادی 1928ء میں فاطمہ بیگم نامی ایک گھریلو خاتون سے ہوئی تھی جن سے ان کے تین بیٹے ایوب خان، شوکت خان اور اقبال خان جب کہ تین بیٹیاں زبیدہ بیگم، ممتازبیگم اور نجمہ بیگم پیدا ہوئیں، سردار اختر کی کوئی اولاد نہیں تھی، فلم عورت کی بے مثال کام یابی کے بعد محبوب نے نیشنل اسٹوڈیو کے بینر تلے ’’بہن اور روٹی‘‘ نامی فلمیں بنائیں، جن کے موسیقار انل بسواس تھے۔

فلم بہن میں مرکزی کردار نلنی جیونت، پریش، حسن بانو اور شیخ مختار نے ادا کیے۔ فلم بہن کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ فلم روٹی میں اختری فیض آبادی، چندرموہن، ستارا، شیخ مختار اور اشرف خان نمایاں تھے۔ یہ فلم بنگال کے قحط کے موضوع پر بنائی گئی ایک سپرہٹ فلم تھی جس کی نمائش پر حکومت ہند نے پابندی لگادی تھی۔

1943ء میں محبوب خان نے اپنا ذاتی فلم ساز ادارہ ’’محبوب پروڈکشنز‘‘ کے نام سے قائم کیا اور ایک فلم ’’نجمہ‘‘ بنائی جس کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔ مرکزی کردار وینا، اشوک کمار، ستاراکمار اور یعقوب نے ادا کیے۔ اسی سال محبوب کی ایک اور شہرۂ آفاق فلم ’’تقدیر‘‘ ریلیز ہوئی جس کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔ محبوب خان نے اس فلم میں نرگس کو پہلی بار بطورہیروئن متعارف کرایا۔

فلم کے ہیروموتی لال تھے جب کہ دیگر اداکاروں میں چندرموہن، جلوبائی، چارلی اور قائم علی نمایاں تھے،1944ء میں محبوب خان کی ایک تاریخی فلم ’’ہمایوں‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر جب کہ اداکاروں میں نرگس، اشوک کمار، وینا، چندرموہن، شاہنواز اور ہمالیہ والا نمایاں تھے۔ اس فلم کی موسیقی مرتب کرنے کے لیے ماسٹرغلام حیدر کو خصوصی طور پر لاہور سے بمبئی بلوایا گیا۔ ماسٹر غلام حیدر نے اس فلم کی موسیقی کا معاوضہ ایک لاکھ روپے وصول کیا جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا جب کہ وہ لاہور کے فلمی ادارے پنچولی آرٹ اسٹوڈیو میں صرف دوہزار روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ محبوب خان اس فلم کی نمائش کے موقع پر پشاور بھی آئے تھے۔ وہ یہاں وائیٹ روز سنیما (موجودہ نازسنیما) کے مالک سردار ارجن سنگھ سندانہ کے پاس ٹھہرے تھے۔

1945ء میں محبوب خان کی ٹیم میں موسیقار نوشاد شامل ہوئے اور محبوب پروڈکشنز کی مایہ ناز فلم ’’انمول گھڑی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، اس فلم میں مرکزی کردار ملکہ ترنم نورجہاں اور سریندر نے ادا کیے، جب کہ نورجہاں اور سریندر کے گیتوں نے لوگوں کو دیوانہ بنادیا تھا۔

1946ء میں محبوب خان نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی پر ’’اعلان‘‘ کے نام سے فلم بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں منورسلطانہ، سریندر، ہمالیہ والا، شاہنواز، زیب النساء اور ڈبلیو ایم خان نمایاں تھے۔ یہ فلم1947ء میں ریلیز ہوئی اور ہندومسلم فسادات کے باوجود بے حد کام یاب رہی۔ تقسیم ہند کے بعد محبوب خان اپنے ہم زلف عبدالرشید کاردار کے ہمراہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پہلے کراچی اور پھر لاہور آئے لیکن یہاں پر فلم انڈسٹری کی زبوں حالی دیکھ کر مایوس ہوگئے اور دل گرفتہ ہوکر واپس بمبئی چلے گئے۔ البتہ انہوں نے لاہور کے ایبٹ روڈ پر اپنے اپنے ڈسٹری بیوشن آفس قائم کردیے۔ کاردار کے آفس میں ان کے بہنوئی اسماعیل نور اور محبوب کے آفس میں ان کے صاحبزادے نے انتظام سنبھال لیا۔ کراچی آفس میں محبوب کے بھائی محمد خان بیٹھا کرتے تھے۔

1948ء میں محبوب خان نے ایک نغماتی اور رومانوی فلم ’’انوکھی ادا‘‘ بنائی جس کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی۔ اداکاروں میں نسیم بانو، پریم ادیب، سریندر، زیب قریشی، مراد، ریحان اور ککو نمایاں تھے۔ اس کے بعد محبوب نے ’’انداز، آن اورامر‘‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ ان کی رنگین فلم ’’آن‘‘ نے آمدن کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی جو16ایم ایم پر بنائی گئی اور بعدازاں اسے 35ایم ایم پر منتقل کرایا گیا۔ ان فلموں کی موسیقی نوشاد نے دی، گیت شکیل بدایونی نے لکھے، پلے بیک گانے شمشاد بیگم، لتا منگیشکر، مکیش اور محمد رفیع نے گائے جو سب کے سب سپرہٹ ثابت ہوئے۔ یہ سدابہار گیت آج بھی اسی طرح مسحورکن اور کیف آور ہیں۔

جب فلم ’’آن‘‘ کا آغاز ہوا تو نوشاد نے محبوب خان کو سمجھایا کہ ’’ہمارے ملک میں کلر لیبارٹری نہیں، آپ کیسے رنگین فلم بنائیں گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں 16ایم ایم کوڈاکروم میں بناؤں گا اور اسے ٹیکنی کلر لندن سے 35 ایم ایم پر بلواپ کراؤں گا۔‘‘ نوشاد بڑے گھبرائے کہ اگر یہ تجربہ ناکام رہا توکیا ہوگا؟ انہوں نے محبوب کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ آپ کلر کے ساتھ ساتھ بلیک اینڈ وائٹ کا35 ایم ایم کا کیمرا بھی لگا لیجیے۔

وہ کہنے لگے اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو نوشاد نے کہا کہ اتنا بڑا جوکھم اٹھانا دانش مندی نہیں، اگر کلر میں ناکامی ہوئی تو کم ازکم ہمارے پاس بلیک اینڈوائٹ کا نیگٹو تو ہوگا۔ اس طرح محبوب کے کیمرا مین فریدون ایرانی نے نوشاد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے فلم آن کو کلر کے ساتھ ساتھ بلیک اینڈوائٹ میں بھی فلمانا شروع کردیا۔

اس دوران محبوب خان نے باندرہ میں زمین خریدی، جہاں فلم ’’آن‘‘ کے ایرینا کا سیٹ لگایا گیا۔ یہ کسی فلم کا پہلا سیٹ تھا جو اس زمین پر لگا۔ اس فلم کے لیے نوشاد نے سو سازندوں کا آرکسٹرا پہلی بار استعمال کیا۔ دراصل فلم کی بیک گراؤنڈ موسیقی تیار کرلی گئی تھی، اس کا ٹریک لندن جانے والا تھا جس کی مکسنگ لندن میں ہونی تھی۔ فلم ’’آن‘‘ تامل زبان میں بھی بنائی گئی۔ اردو کے ساتھ تامل ورژن کی شوٹنگ بھی ہوتی رہی۔ تامل کے گیت اور مکالمے ایک تامل رائٹر نے لکھے جب کہ اردو کے گیت شکیل بدایونی کے زورقلم کا نتیجہ تھے۔ البتہ تامل ورژن کے گیت نوشاد نے شمشاد بیگم، رفیع اور لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کرائے۔

جب محبوب خان ’’آن‘‘ کا16ایم ایم کلرنیگٹیو لے کر لندن پہنچے تو ٹیکنی کلر اسٹاف نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے 35 ایم ایم پر بلواپ نہیں کریں گے مگر کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر جو محبوب کے دوست تھے، انہوں نے اپنے اسٹاف کو یہ کہہ کر کام کرنے پر راضی کرلیا کہ ہم صرف ایک بار ایسا کریں گے۔ اس طرح فلم ’’آن‘‘ دنیا کی واحد فلم تھی جسے ٹیکنی کلر 16 ایم ایم سے35 ایم ایم پر بلواپ کیا گیا۔ اب سوال یہ اٹھا کہ فلم کا ساؤنڈ تو 35 ایم ایم کا تھا جب کہ فلم کا نیگٹیو 16ایم ایم کا؟ اس زمانے میں جدید مشینری بھی نہ تھی، اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر مووی ایلیا بنایا گیا جس کی رو سے یہ مشکل آسان ہوئی۔ محبوب خان ایک ایڈیٹر ہندوستان سے ساتھ لے گئے تھے، ایک ایڈیٹر لندن سے لیا گیا، دو اس کے معاون تھے، ایک ایڈیٹنگ روم کرائے پر لے کر کام شروع کیا گیا۔ نوشاد اور محبوب صبح کو ہوٹل سے اسٹوڈیو جاتے اور ایڈیٹنگ روم میں رات گئے تک کام کرتے رہتے۔ ایک طرح سے یہ فلم لندن میں دوبارہ بن رہی تھی۔

یہ سپرہٹ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی۔ ابتدا میں اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ نرگس کو ہیروئن لیا گیا، کچھ شوٹنگز بھی ہوئی تھیں مگر بعد میں ان میں اختلافات پیدا ہونے پر نرگس کو فلم سے علیحدہ کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک یہودی لڑکی نادرہ کو ہیروئن لیا گیا۔ جب بھارت کے دلن ڈیم پر نادرہ پر ایک گیت فلمایا جارہا تھا، تو نادرہ اچانک ڈیم میں گرگئیں، پانی کی تیز لہریں ان کو بہالے جارہی تھیں کہ گاؤں والوں نے جان کی بازی لگاکر نادرہ کو پانی سے بحفاظت نکال لیا۔ کافی دیر تک نادرہ اس صدمے سے نڈھال رہیں لیکن بعد میں انہوں نے شوٹنگ مکمل کرائی۔ اس فلم آن نے محبوب کو مالامال کردیا۔1954ء میں محبوب نے باندرہ میں باقاعدہ طور پر اپنے نام پر محبوب اسٹوڈیو تعمیر کروایا۔

’’آن‘‘ کی شان دار کام یابی کے بعد محبوب خان نے بطور فلم ساز دو فلمیں ’’آوازاور پیسہ ہی پیسہ‘‘ بنائیں۔ فلم آواز کے ہدایت کار فرزندِ پشاور ضیاء سرحدی اور موسیقار سلیل چوہدری تھے۔ مرکزی کردار نلنی جیونت اور راجندرکمار نے ادا کیے، جب کہ فلم ’’پیسہ ہی پیسہ ‘‘ کے ہدایت کار ہریش اور موسیقار انل بسواس تھے۔ مرکزی کردار مالاسہنا اور کشورکمار نے ادا کیے۔ یہ فلمیں 1956ء میں ریلیز ہوئیں لیکن فلاپ رہیں۔ اس کے بعد محبوب خان نے اپنی شہرۂ آفاق رنگین فلم ’’مدرانڈیا‘‘ بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں نرگس، راج کمار، کُم کُم، سنیل دت، راجندرکمار، کنہیالال اور ماسٹر ساجد نمایاں تھے۔ اس فلم نے کام یابی کے جھنڈے گاڑدیے۔ یہ ہندوستان کی پہلی فلم تھی جو آسکرایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اس فلم کو بیرون ملک سے بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل کرنے پر بھارتی حکومت کی جانب سے سرٹیفیکیٹ آف میرٹ کا اعزاز بھی دیا گیا۔ فلم کے تمام گیت سپرہٹ ثابت ہوئے مثلاً:

دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا

جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا

اس فلم کی شو ٹنگ کے دوران سنیل دت اور نرگس ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ ہوا یوں کہ ایک سین میں گھاس پھوس سے بنی جھونپڑیوں میں آگ لگی جس نے نرگس کو بھی لپیٹ میں لے لیا، جس پر سنیل دت آگ کے شعلوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس میں کود پڑے اور بڑی مشکل سے نرگس کو آگ کے شعلوں سے نکال لیا جس پر نرگس کے دل میں سنیل دت کے لیے محبت کے جذبے نے انگڑائی لی اور یوں دونوں بعد میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

1962ء میں محبوب خان نے اپنی زندگی کی آخری رنگیں فلم ’’سن آف انڈیا‘‘ بنائی جس کے موسیقار نوشاد تھے، اداکاروں میں کُم کُم، کمل جیت، سیمی گریوال، کمار، جنیت، مراد، مقری، کنہیالال، بختاور اور ماسٹر ساجد نمایاں تھے۔ فلم میں مرکزی کردار ان کے منہ بولے بیٹے ماسٹر ساجد نے ادا کیا۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکی جس کے بعد محبوب خان نے فلموں کی پروڈکشن ترک کردی اور اپنے اسٹوڈیو کے انتظامات میں مصروف ہوگئے۔

1963ء میں محبوب خان نے ایک فلم ’’میراوطن‘‘ کا آغاز کیا جو کشمیر کی نام ور محب وطن شاعرہ ’’حبہ خاتون‘‘ کی زندگی پر مبنی تھی۔ فلم کی کہانی علی سردار جعفری نے لکھی، گیت ساحرلدھیانوی نے لکھے، اداکاروں میں سائرہ بانو اور راجندرکمار کا انتخاب کیا گیا۔ تاہم محبوب خان کی اچانک موت کی بنا پر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ برصغیر کی فلم انڈسٹری کی محبوب ترین شخصیت محبوب خان کا انتقال 28 مئی1964ء کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد بمبئی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر57 برس تھی۔ ان کو بمبئی کے علاقے میرین لائن کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

محبوب خان کا بنیادی تعلق چوں کہ محنت کش طبقے سے تھا اس لیے انہوں نے اپنی فلموں کے ٹائٹل کے لیے مزدوروں کے نشان ’’ہتھوڑا اور درانتی‘‘ کو منتخب کیا تھا۔ محبوب خان زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ ایک مرتبہ ایک پارٹی نے ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ایک جگہ تین فلموں کے معاہدے پر دستخط کرالیے۔ معاملہ عدالت میں چلاگیا۔ جج کے سامنے محبوب خان نے برملا اعتراف کیا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں اور نہیں جانتے کہ معاہدے میں کیا لکھا ہے۔ یہ جواب سن کر جج نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس واقعے نے محبوب خان پر اتنا اثر کیا کہ انہوں نے اپنی فلموں کے ٹائٹل کے لیے اس شعر کا انتخاب کیا:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

یہ شعر ان کے پسندیدہ مونوگرام ’’ہتھوڑا اور درانتی‘‘ کے اسکرین پر نمودار ہونے کے ساتھ ہی پس منظر میں گونج اٹھتا تھا۔

محبوب خان 1959ء میں انڈین فلم پروڈیوسرزگلڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے فلم انڈسٹری کی تعمیروترقی کے لیے بہت کام کیا۔ وہ انڈین فلم انڈسٹری کی ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے اس وقت اپنی جانب سے ڈیفنس فنڈ میں دس لاکھ روپے عطیہ دیا۔ اس کے علاوہ وہ فلم ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے رکن بھی رہے۔ وہ دوسرے ماسکوانٹرنیشنل فلم فیسٹول کی جیوری کے ممبر بھی رہے۔ فلم فیڈریشن آف انڈیا کے صدر بھی رہے۔2007ء میں محبوب خان کے صدسالہ یوم پیدائش پر حکومت ہند نے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ محبوب خان کو حکومت ہند نے ’’ہدایت کاراعظم ‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔

محبوب خان نے جو اداکار متعارف کرائے یا جن کے کیریئر کو آگے بڑھایا ان میں سریندر، ارن کمارآہوجا، دلیپ کمار، راج کپور، سنیل دت، راجندرکمار، راج کمار، نرگس، نمی اور نادرہ شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔