منہ کی صحت کا عالمی دن (حصہ اول)

شکیل فاروقی  جمعرات 2 اپريل 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ہم سخن فہم نہ سہی غالب کے طرف دار ضرور ہیں۔ ہم ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ غالب غالب ہے۔ چنانچہ گزشتہ ماہ جب دنیا بھر میں منہ کی صحت کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو مرزا بے اختیار یاد آگئے کہ انھوں نے فرمایا تھا:

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

ہم نے عالم تصور میں مرزا کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور زبان سے جاری تو بتیس دانتوں کے زنداں میں قید ہے، اس لیے جب تک دانتوں کی شان میں کچھ نہ کہا جائے تب تک مدعا بیان کرنے کی صورت بھلا کیسے نکل سکتی ہے۔ ابھی یہ بات بہ مشکل تمام ہی ہوئی تھی کہ دانتوں کے حوالے سے یہ خوبصورت شعر نازل ہو گیا:

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیلستاں کا

مرزا نے ایک موقع پر اپنے اس شعر کی تشریح بھی کی ہے اور کہا ہے کہ قدیم افغانستان میں یہ رسم رہی ہے کہ جب وہاں کے لوگ اظہار عاجزی کرتے ہیں تو اپنے دانتوں میں تنکا دبا لیتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ اس رسم کی موجودہ صورتحال کیا ہے۔

فارسی زبان میں دانتوں کے لیے ’’دندان‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کی مناسبت سے دانتوں کے معالج کو ’’دندان ساز‘‘ کہا جاتا ہے۔ غالباً ’’دنداسہ‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی یہی رہی ہوگی جسے پرانے زمانے کی سادہ مزاج خواتین اپنے دانتوں کی صفائی اور خوشنمائی کے لیے بڑے ذوق و شوق سے استعمال کیا کرتی تھیں اور جس کی فرمائش پشاور جانے والے رشتے دار سے نہایت اصرار سے کی جاتی تھی۔ آج کے دور کی ترقی پسند خواتین کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دنداسہ کیا بلا ہے اور یہ کس چڑیا کا نام ہے۔

سنسکرت بھاشا میں دانت کو بروزنِ ’’انت‘‘ ، ’’دنت‘‘ کہا جاتا ہے۔ گمان یہ ہے کہ انگریزی زبان کے لفظ ڈینٹل (Dental) کی اختراع اسی لفظ سے ہوئی ہوگی۔ تاہم ہمارے اس گمان کو محض اٹکل ہی سمجھا جائے کیونکہ ہم کوئی ماہر لسانیات نہیں۔دین اسلام میں صفائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لیے اسے نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے لیے وضو لازمی اور دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک سنت ہے۔

اگر دانت نہ ہوتے تو ہم کئی خوبصورت محاوروں سے ناآشنا اور محروم رہ جاتے۔ مثلاً کڑکڑاتی ہوئی سردی کی شدت کے اظہار کے لیے ’’دانت بجنا‘‘ اور شدید ناخوشی کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ’’دانت پیسنا‘‘ کے محاورے کا استعمال۔ اس کے علاوہ گاڑھی دوستی کے اظہار کے لیے دانت کاٹی روٹی والا محاورہ۔ اسی طرح دانت رکھنا یا دانت ہونا والے محاورے کا استعمال کسی دوسرے کی زمین یا جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ ’’انگشت بہ دنداں ہونا‘‘ بھی دانتوں کی نسبت سے فارسی زبان کا بہت ہی خوبصورت محاورہ ہے جو انتہائی حیرت زدگی کی کیفیت کا مظہر ہے جس کا سلیس اردو ترجمہ ہے ’’دانتوں تلے انگلی دبانا‘‘۔ جانوروں، خصوصاً بقر عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ان کے دانت ہی دیکھے جاتے ہیں۔

حفظان صحت کے حوالے سے دانتوں کی بڑی اہمیت ہے مگر افسوس کہ عوام الناس کی غالب اکثریت ان کی جانب انتہائی غفلت اور عدم توجہی کا مظاہرہ کرتی ہے اور دانتوں کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اچانک درد سے نانی یاد آجاتی ہے۔ چنانچہ ماہر دنداں پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے کہ دانتوں کے علاج کے لیے اکثر مریض ڈاکٹر سے اس وقت رجوع کرتے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘ کی ذہنیت رکھنے والے دانتوں کے اکثر مریض کسی تجربہ کار ڈینٹل سرجن سے رجوع کرنے کے بجائے محض چند روپے بچانے کی لالچ میں پڑ کر سڑک چھاپ اتائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی شامت کو دعوت دیتے ہیں۔ صلح اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز ڈاکٹر محمود حسین ڈاکٹری کو ذریعہ آمدنی نہیں بلکہ کار مسیحائی اور مشن سمجھتے ہیں۔ ان کی ذات محتاج تعارف نہیں کہ بقول پروین شاکر:

میں اس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

موصوف ڈینٹل کی تعلیم کے ایک معروف ادارے میں سینئر پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے کے علاوہ اپنے حلقے کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ وطن عزیز میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ معلوم ہی نہیں کہ انھیں لاحق بہت سی بیماریوں کا بنیادی سبب دانتوں کی طرف سے لاپرواہی اور غفلت ہے۔ بات بالکل سیدھی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ اگر گھر کا داخلی دروازہ ہی گندا ہوگا تو پھر درون خانہ گندگی کا حال کیا ہوگا اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے دانتوں کی باقاعدگی سے صفائی کا خیال رکھیں تو بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ان کا ایک قیمتی مشورہ یہ بھی ہے کہ اتائی ڈاکٹروں سے ہرگز رجوع نہ کیا جائے اور صرف چند روپوں کی بچت کی خاطر اپنی صحت بلکہ اپنی جان کو داؤ پر لگانے سے اجتناب کیا جائے۔

کہاوت مشہور ہے کہ ’’نیم حکیم خطرہ جان‘ نیم ملا خطرہ ایمان‘‘ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہیپاٹائٹس جیسے مہلک مرض کی ایک بڑی وجہ اتائی دندان سازوں سے علاج کرانا ہے کیونکہ نہ تو وہ باقاعدہ مستند ڈینٹل سرجن ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے آلات جراحت مقررہ معیار کے مطابق Sterlized ہوتے ہیں۔ اس سے بھی برا حال مصنوعی دانت لگوانے کا ہے۔ اتائیوں نے یہاں بھی جگہ جگہ اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں۔

ان کا حال مردے کو غسل دینے والے غسال کا ہے کہ چاہے مردہ جنت میں جائے یا دوزخ میں جائے بس اسے تو اس کی اجرت مل جائے۔ حسن اتفاق سے ڈاکٹر محمود حسین کی اس شعبے میں بھی Specializaion ہے اور وہ یہ بات میر کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ گلہ کافی حد تک جائز ہے کہ ہمارے ملک میں دانتوں کی تعلیم کو اتنی اہمیت حاصل نہیں جتنی ڈاکٹری کی تعلیم کو حاصل ہے۔ تاہم یہ بات خوش آیند ہے کہ عوام میں Dental Hyginc کے شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ Dental Surgery کے شعبے کی اہمیت بھی کسی نہ کسی حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں سی پی ایس پی کے ادارے کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے:

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔