انصاف کا قتل (پہلا حصہ)

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 4 اپريل 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ذوالفقارعلی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شاہنواز بھٹوکا شمار سندھ کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا ، وہ جوناگڑھ کے پریمیئر رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے ایک اسکول میں حاصل کی۔ ان کی والدہ کا تعلق غریب خاندان سے تھا۔ ابھی زیر تعلیم تھے کہ اپنی دورکی کزن شیریں امیر بیگم سے شادی ہوگئی۔

بھٹو 1946 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔ انھوں نے لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف ساوران کیلی فورنیا میں پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل لاء اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1950 میں برگلے کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے گریجویشن کیا۔ 1952 میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے گرانٹ کالج میں پولیٹیکل سائنس میں آنرزکی ڈگری حاصل کی اور قانون کے مضمون میں ایم اے کیا۔

انھوں نے 1953میں لنکن ان سے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ عرصہ University of Southampton میں لیکچرار کے فرائض انجام دیے۔ اپنے والد شاہنواز بھٹوکی علالت کی بناء پر انھیں پاکستان آنا پڑا۔ انھوں نے سندھ مسلم لاء کالج میں لیکچرارکی حیثیت سے کام کیا اور وکالت شروع کی۔ انھوں نے اس دوران نصرت بھٹوسے دوسری شادی کی۔ ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے اپنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بارہویں اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد میں انھیں شامل کیا۔ اگلے سال انھیں سمندری قانون کے بارے میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے والے وفد کا رکن بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے 1958 میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو، تجارت وصنعت کے وزیر بنائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اطلاعات اور توانائی کی وزارتوں کے وزیر رہے۔

صدر ایوب خان کے وزیرخارجہ محمد علی بوگرہ 1963 میں انتقال کرگئے تو ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنا دیے گئے۔ انھوں نے خارجہ پالیسی کی ہیت کو تبدیل کردیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پہلے امریکا نواز تھی، اب پاکستان نے غیر جانبدارانہ پالیسی کو اپنایا تو خارجہ پالیسی میں چین کی اہمیت بڑھ گئی اور بھٹو نے تیسری دنیا کے ممالک کے اتحادکی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔

انھوں نے مسئلہ کشمیرکو اجاگرکرنا شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپریشن جبرالٹرکی منصوبہ بندی میں ان کا اہم کردار تھا۔ 1965 کی جنگ میں سلامتی کونسل میں ذوالفقارعلی بھٹو کی تقریر نے انھیں مقبولیت کے راستہ پر ڈال دیا۔ جب روس کے وزیر اعظم کوسجین کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند ہوا تو بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں بار بار دعویٰ کیا کہ معاہدہ تاشقند میں کوئی خفیہ شق موجود ہے مگر کبھی اس شق کا انکشاف نہیں کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے نومبر 1967 کو پیپلز پارٹی قائم کی۔ پیپلز پارٹی کا پہلا اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ واقع لاہور میں ہوا۔ معراج محمد خان، شیخ رشید، رسول بخش تالپور اور اسلم گورداس پوری وغیرہ ان کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ پیپلز پارٹی نے ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگایا۔ پیپلز پارٹی نے 1970کے انتخابات میں پہلی دفعہ پنجاب کے متوسط طبقہ کے سوشلسٹ خیالات رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کو ٹکٹ دیے، پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہوئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کے جنرل یحییٰ خان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی۔ مارچ 1971 میں جب مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع ہوا تو بھٹو نے ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے پر ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔‘‘

16 دسمبر 1971کو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کی معزولی کے بعد صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ انھوں نے منتخب سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، یوں 1973 کا متفقہ آئین بنا اور پاکستان ایک جمہوری وفاقی ریاست بن گیا۔ بھٹو نے تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کیں۔ ان اصلاحات کے دور رس نتائج برآمد ہوئے مگر بھٹو صاحب آمرانہ روایات بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی جماعت میں اختلافات کرنے والوں اورحزب اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ مناسب سلوک نہ کیا۔

پیپلز پارٹی کے ایک بانی رکن احمد رضا قصوری بھی اس سلوک کا شکار ہوئے۔ احمد رضا قصوری اپنے والد محمد احمد خان قصوری کے ساتھ 11 نومبر 1974کو لاہور میں کار میں سفر کررہے تھے کہ شاہ جمال شادمان روڈ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ اس فائرنگ کے نتیجہ میں محمد احمد قصوری جاں بحق ہوگئے۔ احمد رضا قصوری نے ایف آئی آر میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام درج کرایا۔ پنجاب کی حکومت نے اس قتل کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیق الرحمن پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا۔ جسٹس شفیق الرحمن نے اپنی رپورٹ میں محمد احمد قصوری پر حملہ کے ممکنہ چار امکانات کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس حملہ کی ایک ممکنہ وجہ قصورکی مقامی سیاست ہوسکتی ہے یا پھر قادیانی جماعت ذمے دار ہوسکتی ہے یا حکومت میں شامل یا حکومت کا مخالف Trigger person ہوسکتاہے۔

معزز جج نے اپنی رپورٹ میں کہیں ذوالفقار علی بھٹوکا نام نہیں لیا تھا۔ جسٹس شفیق نیپولیس کی تحقیقات پر اطمینان کا اظہارکیا تھا۔ 1977 میں بیگم نصرت بھٹو احمد رضا قصوری کے گھرگئیں اور احمد رضا قصوری نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت نے ججوں کے تقرر اور ترقی کے قانون میں تبدیلی کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج مولوی مشتاق کی سینیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس اسلم ریاض حسن کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا۔ اس طرح سپریم کورٹ میں جسٹس انوار الحق کی جگہ جسٹس یعقوب چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ مخالف جماعتیں پاکستان قومی اتحاد میں متحد ہوگئیں۔ مارچ 1977 میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی مگر پی این اے نے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ بعد میں ملنے والے حقائق سے ظاہر ہوا کہ بعض خفیہ قوتوں نے اس تحریک کو منظم کرنے میں کردار ادا کیا۔

وزیر اعظم بھٹو نے الزام لگایا کہ امریکا پی این اے کی تحریک کی مدد کررہا ہے۔ وزیر اعظم بھٹو اور پی این اے کے رہنماؤں کے درمیان تنازعہ کے حل کے لیے مذاکرات ہوئے۔ 4 جولائی 1977 کی رات کو حکومت اور پی این اے میں معاہدہ ہوا۔ 5 جولائی کو ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

نئی حکومت نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مولوی مشتاق کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس اور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقررکیا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب کو ہٹا کر جسٹس انوار الحق کو اس عہدے پر مقرر کیا۔ افضل حیدر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جسٹس مشتاق نے جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ قبول نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں کسی مقدمے کی سماعت نہیں کی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے آئین توڑنے اور مارشل لاء لگانے کے خلاف بیگم نصرت بھٹوکی عرضداشت کو نظریہ ضرورت کے نام پر مسترد کر دیا تھا۔          (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔