کورونا سے سہمی دنیا۔۔۔ کچھ تصویروں کے آئینے میں

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 19 اپريل 2020
کورونا وائرس کے نزول سے پہلے شاید کسی شخص نے کبھی این 95 ماسک کے بارے میں کچھ سُنا ہو۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کے نزول سے پہلے شاید کسی شخص نے کبھی این 95 ماسک کے بارے میں کچھ سُنا ہو۔ فوٹو: فائل

وائرس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’زہر‘‘ہے۔ اِس اعتبار سے سائنسی اصطلاح میں وائرس ایک ایسا زہریلا جان دار ہوتا ہے جو اکیلا زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ اسے خود کو زندہ رکھنے کے لیے کسی دوسرے جان دار خلیے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ زندہ خلیوں کے اندر پہنچ کر وائرس خوب پھلتا پھولتا ہے۔

بہت کم ہوتا ہے کہ وائرس ایک مخلوق سے کبھی دوسری مخلوق میں منتقل ہوا ہو۔ یہ عموماً قریبی رابطوں، آلودہ کھانے یا پانی کے ذریعے یا پھر ہوا میں معلق بوندوں کے ذریعے پھیلتا جاتا ہے۔ وائرس انسانی تاریخ میں بے شمار بار بدترین بیماریوں مثلاً ایبولا، چیچک، پولیو اور ایڈز کا سبب بن چکا ہے۔ وائرس کے خاندان کا تعین اس کی شکل، جینوم کی تشکیل اور پھیلنے کے انداز سے کیا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر وائرس کی تعداد کا تخمینہ اربوں میں لگایا جاتا ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف الیکٹران مائیکرواسکوپ سے نظر آسکتا ہے۔

ایک وائرس ہونے کی وجہ سے کورونا میں بھی یہ ہی تمام خصوصیات بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں۔ یعنی انسانی آنکھ سے نہ دکھائی دینے والے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جگہ جگہ اپنی ہلاکت خیزی سے ایسی اندوہ ناک اور خوف ناک خون آشام رنگ بکھیرے ہیں کہ تین ماہ پہلے تک اپنی خوب صورتی سے پوری کائنات کا دل موہ لینے والی دنیا کا سارا رنگ روپ ہی بگڑ کر رہ گیا ہے۔ ڈری، سہمی، مغموم، خاموش اور سنجیدہ دنیا کی تازہ ترین تصاویر میں بہ آسانی کورونا وائرس کا اصل بہروپ دیکھا جاسکتا ہے۔

چند ماہ میں کورونا وائرس نے ہماری ہنستی، مسکراتی دنیا کی کیا حالت بنادی ہے ، یہ جاننے کے لیے دنیا بھر سے ایک تصویری جائزہ پیشِ خدمت ہے ۔ یہ تصویریں جہاں ہماری دنیا کی بے بسی اور بے ثباتی کی چغلی کھارہی ہیں، وہیں اِن میں کورونا وائرس کی اصل حقیقت کو بھی صاف صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

1 ۔لاس ویگاس کی سڑکوں پر بے گھر افراد کی بھرمار:

امریکی شہر لاس ویگاس کو ’’گناہ کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لاس ویگاس (جسے مختصراً ویگاس بھی کہا جاتا ہے) امریکی ریاست نیواڈا کا سب سے بڑا شہر ہے، جو تعطیلات کے ایام گزارنے، خریداری، تفریح اور قماربازی کے لیے بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے۔ 20 ویں صدی میں آباد ہونے والا یہ امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ 1940 میں اِس شہر نے منشیات اور جوئے کے پیسوں سے بہت ترقی کی اور اِس شہر میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر نے شہر کی رونق کو چار چاند لگادیے۔

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کی آمد سے پہلے اگر آپ دنیا کے عالی شان شہروں کی فہرست بناتے تو یہ شہر اس میں پہلے نمبر پر آتا۔ آپ دنیا کے بہترین تفریحی مقامات کی فہرست بناتے تو یہ شہر اُس میں بھی اول نمبر پر موجود ہوتا اور اگر آپ دنیا کے رنگین ترین شہروں کا مقابلہ کرتے تو یہ شہر بہ آسانی وہ مقابلہ جیت جاتا، مگر کورونا وائرس نے لاس ویگاس کی سڑکوں کو پہلی بار بے گھر لوگوں سے آباد کردیا ہے۔ لاس ویگاس کی سڑکوں پر جہاں کبھی مہنگی اور قیمتی گاڑیاں پارک ہوتی تھیں وہاں آج کل ہزاروں بے گھر لوگ سماجی دوری کے اُصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سرِشام ہی سونے کی تیاریاں کررہے ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی اِس تصویر کو لاس ویگاس کے سب سے تاریک ترین لمحہ سے تعبیر کیا جارہا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر لوگ لاس ویگاس کی اِس حالتِ زار پر اپنی شدید افسردگی کا اظہار کر تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ لاس ویگاس کی ایسی خوف ناک تصویر بھی دیکھنے کو ملے گی۔ کورونا وائرس نے لاس ویگاس کو مکمل طور پر ویران کردیا ہے اور اِس شہر میں قائم ہوٹلز اور جوئے خانے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔

لاس ویگاس کی انتظامیہ کے مطابق ’’گذشتہ چند دنوں میں شہر میں بے گھر لوگوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ، جس کی وجہ سے شیلٹر ہومز کی شدید کمی ہوگئی ہے۔ لہٰذا شہر کی انتظامیہ نے پارکنگ ایریا میں سماجی دوری کے اُصول کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پینٹ سے نشانات لگادیے جہاں بے گھر افراد رات کو سو سکتے ہیں۔‘‘

2 ۔طبی عملے کے چہروں پر خدمت کے لازوال نشانات:

کورونا وائرس کے نزول سے پہلے شاید کسی شخص نے کبھی این 95 ماسک کے بارے میں کچھ سُنا ہو، لیکن اَب تو ہر شخص کی زبان پر این 95 ماسک کا نام ہے، کیوںکہ میڈیا میں صبح و شام چلنے والی خبروں کے بعد سب ہی جان گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے خلاف سب سے زیادہ مؤثر حفاظتی حصار این 95 ماسک ہیں۔ این 95 سے مراد ایک ایسا خصوصی ماسک ہے، جو 95 فی صد تک ہوا میں موجود دھول اور ذرات کو انسانی ناک میں داخل ہونے سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ کورونا وائرس کے لیے بھی این 95 ماسک کے درمیان میں سے نکل جانا کم وبیش ناممکن ہے۔ اِسی لیے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلاف صفِ اوّل میں لڑنے والے طبی عملے کو کورونا سے حفاظت کے لیے یہی ماسک فراہم کیے جارہے ہیں۔

مگر مصیبت یہ ہے کہ این 95 ماسک کو زیادہ دیر تک پہننا سخت جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے، جب کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کرنے والے طبی عملے کو این 95 کئی کئی دن تک مسلسل بھی پہننے پڑسکتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن ڈاکٹر ز اور نرسوں کے چہرے این 95 کی سختی کے باعث گلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی ایک تصویر میں این 95 ماسک کی وجہ سے طبی عملہ کے نرم و نازک چہرہ پر پڑنے والے بھیانک اور اذیت ناک نشانات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ تصویر زبانِ حال سے بتا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے طبی عملے کو دنیا بھر میں کتنی مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ این 95 ماسک کی وجہ سے بعض ڈاکٹر اور نرسز کے چہرے اتنے زیادہ گل، سٹر گئے ہیں کہ شاید ہی وہ چہرے کبھی دوبارہ اپنی اصل حالت میں واپس آسکیں۔ بلاشبہہ طبی عملے کے چہروں پر ثبت ہونے والے یہ نشانات جذبہ خدمت کی وہ زریں ترین علامتیں ہیں جو انہیں اپنے اردگرد موجود دیگر تمام انسانوں سے ممتاز بناتی ہیں۔

3 ۔ٹوائلٹس پیپر کے خالی اسٹورز:

یہ تصویر امریکا کے ایک معروف اسٹور چین کی ہے، جس میں ٹوائلٹ پیپرز کے ریک مکمل طور پر خالی نظر آرہے ہیں۔ ویسے تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیاء کی خریداری کر رہے ہیںِ، لیکن امریکا میں سب سے زیادہ قلت اِس وقت ٹوائلٹس پیپرز کی ہے۔ امریکا کی سپرمارکیٹس میں ٹوائلٹ پیپر رول کے حصول کے لیے باقاعدہ آپس میں لڑائی جھگڑے کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کی ایک پوری تاریخ ہے۔ امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی دوسری بڑی وجہ ہے جس کے باعث وہ خود کو ٹوائلٹ پیپر کے بغیر ادھورا سمجھتے ہیں اور امریکا میں کئی لوگوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی دوسرا متبادل طریقہ ہو سکتا ہے۔

امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے، کیوںکہ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جب کہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر حاصل کر نے کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں کرونا وائرس کے باعث جہاں ایک طرف دنیا ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر امریکیوں کو لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین طب نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال کوروناوائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف امریکا کی شمال مغربی ریاست اور یگون میں پولیس نے کورونا وائرس سے پریشان شہریوں کے لیے باقاعدہ ایک اطلاعی اشتہار شائع کیا ہے کہ ’’جب ٹوائلٹ پیپر ختم ہوجائیں تو وہ برائے مہربانی ایمرجنسی ہیلپ لائن “911” پر فون نہ کریں، کیوںکہ ہم لوگوں کو گھروں پر ٹوائلٹ پیپرز کے رول فراہم نہیں کرسکتے، جب کہ یہ بات آپ سب لوگ اچھی طرح سے ذہین نشین کرلیں کہ ٹوائلٹ پیپرز کے بغیر بھی بہ آسانی زندہ رہا جاسکتا ہے۔‘‘

4 ۔ریفریجریٹر ٹرک بنے مردہ خانے:

یہ تصویر امریکا کے شہر نیویارک میں بروکلین کے وائکوف اسپتال کے باہر اُس وقت کھینچی گئی جب کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے 9 افراد کی لاشیں ریفریجریٹر ٹرک میں رکھی جارہی تھیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ نیویارک کے کئی دیگر اسپتالوں کے باہر بھی ریفریجریٹر ٹرک قطار در قطار کھڑے ہیں جن میں کووڈ 19 بیماری سے جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشیں رکھنے کا بندوبست کیا جارہا ہے، کیوںکہ روزانہ کورونا وائرس کے سے متاثر افراد اتنی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں کہ لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے بنائے گئے سرکاری اور نجی سرد خانے کم پڑ گئے ہیں۔

اِس لیے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ریفریجریٹر ٹرک جنہیں اکثر آئس کریم یا کھانوں کی ڈلیوری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اَب اِن ٹرکوں کو عارضی مردہ خانوں میں تبدیل کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے گذشتہ چند ہفتوں میں ریفریجریٹر ٹرک فراہم کرنے والوں کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہوا اور ریفریجریٹر ٹرکوں کے حصول کے لیے اُن کمپنیوں کے دفاتر کے باہر باقاعدہ لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ریفریجریٹر ٹرک فراہم کرنے والی ایک کمپنی کرو فیونرل ہومز کوئنز کے مالک کین بروسٹر کے مطابق ’’نجی مردہ گھروں کی اکثریت کے پاس اتنی تعداد میں فریج نہیں ہیں جن میں لاشیں رکھی جا سکیں، اگر جگہ نہیں ہوگی تو مجبوراً لاشیں ٹرکوں میں رکھنا پڑیں گی۔

یہ ہی وجہ ہے ہم نے اپنی دیگر سروسز کو بند کرکے اپنے ریفریجریٹر ٹرک لاشوں کو محفوظ بنانے کے لیے بُک کرنا شروع کردیے ہیں۔‘‘ امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں وائٹ ہاؤس نے اندازہ لگایا ہے کہ اگست کے شروع تک ملک میں ایک لاکھ کے قریب افراد لقمۂ اجل بن جائیں گے۔ اس پس منظر میں ماہرین سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں امریکا کے پاس ریفریجریٹر ٹرکوں کو عارضی مردہ خانوں کے طور پر استعمال کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بیلجیئم کے سرکاری حکام نے بھی اپنے ملک میں کوروناوائرس کے سبب بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر مردہ خانوں کے متبادل کے طور پر ریفریجریٹڈ ٹرکوں کا انتظام کرنا شروع کردیا ہے۔ اِن ٹرکوں میں بیک وقت 36 لاشوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بیلجیئم میں اب تک کورونا وائرس کے سبب 2523 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

5 ۔روسی کارگو جہاز امریکی سرزمین پر:

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کے بعد عالمی سیاسی منظرنامے میں جو سب سے بڑی اور حیران کُن تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وہ اِس تصویر میں واضح طور پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے جس میں روس کا ایک کارگو جہاز ہزاروں ٹن امدادی سامان لے کر امریکا کی سرزمین پر اُتر رہا ہے۔ اِس روسی کارگو جہاز میں کورونا وائرس سے نبردآزما ہونے کے لیے روس نے امریکا کی طرف طبی آلات اور ضروری اشیاء کی ایک بڑی کھیپ روانہ کی ہے، جس میں سرجیکل ماسک اور کورونا ٹیسٹنگ کٹس شامل ہیں۔ کوروناوائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث امریکا میں طبی آلات کی شدید قلت ہوچکی ہے اور سپرپاور امریکا نے امداد کے لیے دنیا بھر کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔

اِن مخدوش ملکی حالات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی ہم منصب ولادی میرپیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا، جس میں وبائی مرض کورونا وائرس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوئی جب کہ روسی صدر نے کورونا وائرس سے امریکا میں ہونے والی اموات پر اپنے گہرے دُکھ اور رنج کا بھی اظہار کیا۔ اِس اعلیٰ سطحی رابطے کے دو روز بعد ہی روسی امداد امریکا کے لیے روانہ کردی گئی تھی، جسے وصول کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا اور روس ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک اَب تک ایک دوسرے کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے کئی جنگیں بھی لڑچکے ہیں۔

اِس وقت بھی عراق، افغانستان اور شام میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار میں مصروف ہیں۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ ایک ماہ پہلے تک کورونا وائرس کے متعلق روس کا سرکاری موقف یہ تھا کہ اِس وائرس کو امریکی تحقیقاتی ادارے سی ٹی ٹی نے اپنی لیب میں تیار کرنے کے بعد چین کے شہر ووہان میں پلانٹ کیا تھا۔ روس اور امریکا دہائیوں پرانی دشمنی اور پرخاش کے تناظر میں اِس تصویر کو عالمی منظرنامے میں ’’پکچر آف دا سنچری ‘‘ بھی کہا جارہا ہے۔

6 ۔کورونا سے جاں بحق افراد کی بے حرمتی:

کورونا وائرس کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے خوف کی عکاسی اِس تصویر سے  بخوبی ہوتی ہے جو اِس وقت دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی ہے۔ اِس تصویر میں ایک بند دُکان کے باہر دو خواتین کھڑی ہوئی ہیں جب کہ اُن کے عقب میں سڑک پر کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ایک شخص کی لاش پڑی ہے۔ یہ تصویر جنوبی امریکا کی ریاست ایکواڈور کی ہے، جہاں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو دفنانے کے بجائے سڑک پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایکواڈور میں اَب تک تقریباً 272 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ان لاشوں کو گھروں سے باہر ہی چھوڑ دیا گیا، جب کہ مرنے والے افراد کے لواحقین اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ سرکاری حکام ان لاشوں کو اٹھائیں گے، تاہم اسی انتظار میں لاشوں کو پڑے پڑے 3 روز سے زائد گزر گئے، لیکن جب کسی نے بھی لاشوں کو نہیں اُٹھا یا تو ایک شخص نے یہ تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کردی۔ چند گھنٹوں کے بعد یہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوگئی، جس کے بعد ایکواڈور کے نائب صدر اوٹو سونین ہولزنر نے اپنی عوام کو طبی سہولیات نہ دینے پر معافی مانگ لی ہے۔

لاطینی امریکا کے اس ملک کے سب سے بڑے شہر کو کورونا وائرس وبا کے بعد عوامی صحت کے شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایکواڈور میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے 70 فی صد مریضوں کا تعلق اس خطے کے دارالحکومت گویاکویل سے ہے۔ یہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں کورونا وائرس کے آبادی کے تناسب سے مریض بہت زیادہ ہیں۔ یہ بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ صدر لینن مورینو نے لاشیں اٹھانے اور دفنانے کے لیے اَب باقاعدہ خصوصی فورس تشکیل دے دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔