پنجاب حکومت کے عوام دوست اقدامات بہتری کی جانب گامزن

رضوان آصف  بدھ 22 اپريل 2020

 لاہور:  وزیر اعظم پاکستان کے وسیم اکرم پلس اس وقت بھرپور فارم میں دکھائی دے رہے ہیں۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار جس موثر اور فعال انداز میں کورونا وائرس کے سدباب اور صوبے کے عوام کے غذائی تحفظ جبکہ کسانوں کے معاشی تحفظ کیلئے جو اقدامات کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے اور اس کے لیے چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان خان شب و روز محنت کررہے ہیں گزشتہ 19 ماہ کے دوران سردار عثمان کی کارکردگی۔

قوت فیصلہ، اسلام آباد کی بالادستی اور صوبائی کابینہ میں غیر فعال وزراء کی موجودگی نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کو عوام، اپوزیشن اور میڈیا میں غیر تسلی بخش بنا رکھا تھا، لیکن کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن سردار عثمان بزدار نے کورونا وائرس کے خلاف جس طرح سے میدان سنبھالا ہے اس پر انہیں سراہا جانا چاہئے تاہم ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔

پنجاب حکومت کو اس وقت ایک جانب کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب لاک ڈاون اور بالخصوص رمضان المبارک کے دوران ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کو روکنا بھی اشد ضروری ہے ۔اگر STAPLE FOOD کی بات کی جائے تو آٹا سب سے اہم ہے جس کی لئے وافر گندم کی موجودگی ناگزیر ہے۔گزشتہ 19 ماہ میں گندم آٹا چینی کے حوالے سے پنجاب حکومت مشکلات اور تنقید کا شکار رہی ہے لیکن اب وزیرا عظم عمران خان نے وزیر اعلی عثمان بزدار کے ساتھ مشاورت کے بعد سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کو وزارت خوراک کا قلمدان سونپا ہے۔علیم خان اس وقت اپنے محکمہ کے ہمراہ ملکر ایسی حکمت عملی پر گامزن ہیں کہ ایک جانب وہ خریداری اہداف کی تکمیل چاہتے ہیں اور ساتھ ہی وہ مارکیٹ میں آٹے کی وافر دستیابی کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔

یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ علیم خان کی صورت میں سیاسی وانتظامی لحاظ سے نہایت مضبوط اور تجربہ کار وزیر ملنے کے بعد ان کے سیکرٹری فوڈ وقاص علی محمود، ڈائریکٹر واجد علی شاہ اور ڈویژنل ڈپٹی ڈائریکٹرز محمد حسین کھوکھر، شبیر علوی، محمد اکرام، شاہ بہرام، حافظ سلمان تنویر، اللہ دتہ ثاقب، سیف اللہ شمیم جوئیہ،محمد ارشد اور ڈاکٹر ضیاء سمیت ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز میں کام کرنے کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں تعینات فوڈ سٹاف خریداری اہداف کی تکمیل کیلئے غیر معمولی محنت کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ مارکیٹ میں آٹے کی وافر دستیابی کیلئے سینئر وزیر خوراک نے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی فلورملز کیلئے یومیہ سرکاری کوٹہ میں اضافہ کر دیا ہے۔ پنجاب میں ماسوائے محکمہ خوراک ،پاسکو اور فلورملز کے باقی سب افراد کے گندم خریدنے پر پابندی عائد ہے جو کہ بالکل جائز اور بروقت ہے تاہم اس وقت جو رکاوٹ صورتحال کو خراب کر رہی ہے وہ فلورملز کو گندم کی ترسیل میں رکاوٹ ہے۔

جنوبی پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز گندم اہداف کی تکمیل کے اہداف کے حصول میں حکومتی اور نفسیاتی دباو کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ محکمہ خوراک کی جانب سے فلورملز کو جاری کردہ پرمٹوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔جتنا اہم خریداری اہداف حاصل کرنا ہے اتنا ہی اہم مارکیٹ میں آٹے کی دستیابی کو مستحکم رکھنے کیلئے فلورملز کو نجی گندم کی بلا تعطل ترسیل جاری رکھنا ہے۔

محکمہ خوراک نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے جو ویٹ مانیٹرنگ سسٹم تیار کیا ہے وہ بہت عمدہ ہے۔ چند ایک جزوی خامیوں کو دور کر کے اسے پرفیکٹ بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد حکومت فلورملز کی جانب سے خریدی، ترسیل کردہ اور استعمال کردہ گندم پر مکمل نگاہ رکھ سکتی ہے اور اس سسٹم کو دھوکہ دینا آسان نہیں ۔

وزیر اعلی، سینئر وزیر اور چیف سیکرٹری کو چاہئے کہ پنجاب کے بارڈر کو نہایت سختی سے بند کریں اور پنجاب کے اندر گندم کی نقل وحمل کو مکمل آزاد کردیں اوراس امر کو یقینی بنا دیا جائے کہ محکمہ خوراک کے جاری کردہ پرمٹ کے سوا کوئی گندم منتقل نہ ہو جبکہ ڈپٹی کمشنرز محکمہ کے جاری کردہ پرمٹوں کو نیک نیتی سے قبول کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف آٹے کی دستیابی مستحکم رہے گی بلکہ حکومت کے خریداری اہداف بھی ہر صورت مکمل ہو جائیں گے۔

پنجاب میں سبزیوں اور پھلوں کی دستیابی اور قیمتوں میں اب کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے کیونکہ رمضان کی آمد میں چار دن باقی رہ گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے سبب ایران اور افغانستان کی سرحدیں بند ہونے سے رمضان المبارک کے دوران پنجاب میں کجھور،لیموں،انار،انگور اور سیب کی شدید قلت ہو گی،یہ تمام اشیاء افطاری کے سامان کا لازمی جزو ہونے کے سبب ان کی قیمتوں میں100 فیصد سے زائد اضافہ کا اندیشہ ہے۔ ایران سے کجھور، سیب،انگور اور لیموں جبکہ افغانستان سے انار آتا ہے،پہلے سے موجود ایرانی کجھور کے محدود سٹاکس کی قیمت گزشتہ چند روز میں 6ہزار روپے فی من بڑھ گئی ہے۔ مقامی تاجروں کے پاس موجود ایرانی کجھور کا جمع شدہ سٹاک ختم ہو رہا ہے جس وجہ سے قیمت بڑھ رہی ہے۔

پنجاب میں محدود مقدار میں پیدا ہونے والا لیموںجسے عرف عام میں چائنا لیموں کہا جاتا ہے اس کے سٹاکس 90 فیصد ختم ہو چکے ہیں جبکہ سندھ کے دیسی لیموں کی فصل جون میں آئے گی۔ اس صورتحال میں خدشہ ہے کہ روزوں کے دوران لیموں کی دستیابی نہایت کم اور قیمت بہت زیادہ ہو جائے گی ۔مقامی سیب کی فصل چار ماہ قبل ختم ہو گئی تھی اور اس وقت کولڈ سٹورز میں ذخیرہ کیا جانے والا سیب فروخت ہو رہا ہے لیکن یہ بھی نہایت محدود ذخائر ہیں،انگور اور انار کی دستیابی بھی بہت کم ہو چکی ہے۔صوبائی وزیر زراعت ملک نعمان لنگڑیال اور سیکرٹری زراعت واصف خورشید نے یہ تمام صورتحال وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری پنجاب کو بیان کردی ہے جبکہ وفاق کو بھی آگاہ کیا جا چکا ہے۔

رمضان میں آلو، پیاز اور ٹماٹر کا استعمال بھی بہت بڑھ جاتا ہے اور تاجر قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔کورونا وائرس کے سبب اس مرتبہ پنجاب حکومت نے رمضان بازار نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے،چینی اور آٹے کی سستے داموں فروخت کیلئے مخصوص مقامات پر سیل پوائنٹس قائم کیئے جائیں گے ۔ موجودہ صورتحال میں یہ دانشمندانہ فیصلہ ہے، رمضان بازاروں میں خریداروں کی بھیڑ کو قابو میں رکھنا کسی طور بھی حکومت کے بس میں نہیں ہوتا۔ شہری غصے میںآکر سرکاری اہلکاروں سے بد تہذیبی کرتے ہیں۔ حکومت نے رمضان سبسڈی کو مختلف امدادی پروگراموں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کئی ہفتوں سے پرائس کنٹرول کو یقینی بنانے کیلئے محنت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ تاجر تنظیموں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں بالخصوص گھی، دالوں کی قیمتوں کے استحکام اور وافر دستیابی کو یقینی بنانے کے حوالے سے وزیر صنعت اور محکمہ صنعت کے سیکرٹری کیپٹن(ر) ظفر اقبال اور ڈی جی انڈسٹریز عبدالشکور کی غیر معمولی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ مصنوعی مہنگائی روکنے کیلئے پرائس مجسٹریٹس کے نظام کی تنظیم نو اور اسے مکمل حکومتی سپورٹ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

صوبائی حکومت ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ روکنے کیلئے نیا قانون بھی لا رہی ہے لیکن جب تک ایک عام دوکاندار کو زائد قیمت وصول کرنے پر ایک حقیقی اور تربیت یافتہ پرائس مجسٹریٹ کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا ڈر نہیں ہوگا تب تک کوئی قانون یا آرڈیننس مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے صوبائی محکمہ صنعت کو سٹیک ہولڈرز اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد ایک نئے نظام کی تجویز تیار کر کے اسے کابینہ میں پیش کرنا چاہئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔