رمضان المبارک وبا کے زمانے میں

سید عاصم محمود  اتوار 26 اپريل 2020
اس سال ماہ مقدس ایسے وقت آیا جب نئے کورونا وائرس کی پھیلائی تباہ کن وبا انسانیت پر حملہ آور ہے

اس سال ماہ مقدس ایسے وقت آیا جب نئے کورونا وائرس کی پھیلائی تباہ کن وبا انسانیت پر حملہ آور ہے

مسلمانان عالم کے لیے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ‘ رمضان کریم کا آغاز ہو چکا۔ یہ مقدس ماہ مسلمانوں کو صبر و شکر‘ قربانی وایثار ‘ محبت و ہمدردی اور ضبط نفس کے اعلیٰ جذبے اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس سال کوویڈ 19وبا کی وجہ سے سبھی مسلمان مختلف مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ ایسے موقع پر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہٰ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے محبوب صحابہ کرام نے مصائب و آلام آنے پر کس قسم کے رویّے کامظاہرہ فرمایا۔

عارضی لاک ڈاؤن نے کئی پاکستانیوں کو پریشان کرڈالا مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے آقا ﷺ تو مسلسل تین برس تک اہل مکہ کی معاشی و معاشرتی ناکہ بندی یا لاک ڈاؤن کا شکار رہے۔ سرداران قریش نے آقا ﷺ سمیت تمام بنو ہاشم کو دو پہاڑوں کے درمیان ایک احاطے (شعب ابی طالب) میں محصور کردیا تھا۔ وہاں مقید سبھی مسلمان بالغ، خواتین اور بچے چند ماہ نہیں تین سال تک بھوک، پیاس اور دیگر روزمرہ مسائل سے نبرد آزما رہے۔حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران اہل پاکستان میں سے بیشتر کو راشن میّسر رہا۔ بجلی و گیس کی سہولت بھی ملی رہی۔ لوگ فراغت سے گپ شپ لگاتے رہے۔ حکومت نے یہ ناکہ بندی اس لیے کی کہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں۔ مگر سرداران قریش نے جو لاک ڈاؤن کیا، وہ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اہل خانہ کے لیے ایک بہت کڑا امتحان تھا جس سے آپؐ سرخرو ہوکرنکلے۔ یہ واقعہ ہم پر صبر و شکر کی اہمیت واضح کرتا ہے۔

کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ خلیفہ راشد دوم ،حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں بھی دو برس تک لاکھوں مسلمانوں کو ایک نہیں دو قدرتی آفات…وبا اور قحط سے نبرد آزما ہونا پڑا تھا۔ وہ دو برس مسلمانوں پر بہت کڑے گذرے تھے۔ وہ بھوک‘ بیروزگاری اور سب سے بڑھ کر موت سے مقابلہ کرتے رہے۔ خاص بات یہ کہ اس کٹھن دور میں حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کے سب سے بڑے پشتی بان اور ہمدرد بن گئے ۔انہوں نے اسلامی ریاست میں آباد شہریوں کی فلاح و بہبود کی خاطر جو انقلابی اقدامات اٹھائے‘ وہ آنے والے حکمرانوں کے لیے سبق آموز اور روشن مثال بن گئے۔خلیفہ راشد کے اقدامات سے عوام کو یہ فائدہ ملا کہ آفات زیادہ جانی ومالی نقصان نہیں پہنچا سکیں اور وہ نہایت کٹھن وقت جھیلنے کے قابل ہو گئے۔

اس سال ماہ مقدس ایسے وقت آیا جب نئے کورونا وائرس کی پھیلائی تباہ کن وبا انسانیت پر حملہ آور ہے۔ اس کی لپیٹ میں آکر ڈیرھ لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے۔ مسلمانان عالم نے اپنے اپنے زاویہ فکر و نظر سے اس وبا کو جانچا، پرکھا۔ بعض کے نزدیک یہ بنی نوع انسان پر رب العالمین کا عذاب ہے جس نے پچھلی ایک صدی میں اعتدال پسندی کا دامن چھوڑ دیا تھا۔ وہ لالچ و ہوس اور ظلم و جبر کے بھنور میں پھنس گئے تھے۔یہ توبہ استغفار کرنے اور عبرت پکڑنے کا وقت ہے۔ بعض وبا کو مومنین کے لیے آزمائش سمجھتے ہیں جو ہر حال میں تقویٰ کا دامن نہیں چھوڑتے اور مصائب بھی صبرشکر سے برداشت کرتے ہیں۔علمائے کرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وباء کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو خبردار کیاکہ وہ گناہوں کا راستہ ترک کرکے جادہ ِحق پر گامزن ہوجائے ورنہ کرہ ارض سے اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ سائنس و ٹیکنالوجی بھی رب تعالیٰ کے اس انتباہ پر مہر ِصداقت ثبت کرچکی۔ سائنس داں خبردار کررہے ہیں کہ انسان بدستور ارضی وسائل بے پروا ئی سے استعمال کرتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک زمین کے بیشتر علاقوں میں انسانی بستیوں کا وجود تک نہیں رہے گا۔

عرب میں وبائیں

تاریخ اسلام ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ جزیرہ نما عرب کے باشندے ارضی و بحری راستوں سے بیرون ممالک تجارت کرتے تھے۔ یہی عرب تاجر پہلے پہل بیرون ملکوں میں پھیلی وبائیں عرب لائے۔ اولیّں سیرت نگار‘ ابن اسحاق نے ’’سیرت نبوی ﷺ‘‘ میں لکھا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تو عرب میں پہلی بار چیچک اور خسرہ کی وبا پھیل چکی تھی۔ اس بنا پر انیسویں صدی کے مصری عالم دین، شیخ محمد عبدہ نے سورہ الفیل کی تفسیر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ مکہ مکرمہ پر حملہ آور ابرہہ کی فوج وبا کے باعث تباہ ہوئی تھی۔سورہ الفیل میں پکی مٹی کے پتھروں سے مراد وبائیں ہیں جو ا للہ تعالیٰ کا عذاب بن کر ابرہہ پر نازل ہوئیں۔ یوں اس کے لشکر کا بھرکس نکل گیا۔

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’کیا تم نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے کہہ دیا ’’مر جاو‘‘۔ لیکن پھر انہیں زندہ کر دیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے مگر ا کثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘ (آیت 243-242)۔ممتاز عالم دین‘ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ درج بالا آیات علاقہ واسط (عراق) میں آباد یہود سے متعلق ہیں۔ جب وہاں وبا (طاعون) پھیلی تو وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ یوں وہ زندہ بچ جائیں گے۔ لیکن جب وہ اپنی نئی منزل پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں موت آ گئی۔ چند دن بعداللہ تعالیٰ نے انہیں پھر زندہ کر دیا۔ یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ انسان چاہے تو بھی اپنے اس انجام سے نہیں بچ سکتا جو اللہ تعالیٰ مقرر کر چکے۔

کتب تاریخ سے بہر حال عیاں ہے کہ جب ظہور قدسیﷺ ہوا تو وبائیں عرب میں پہنچ چکی تھیں۔اسی لیے وبا سے متعلق احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا:’’وبائیں اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں جو وہ انسانوں پر جب چاہے، نازل فرماتے ہیں۔ مگر وہ مومنین کے لیے رحمت بن جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان وبا والے علاقے میں مقیم ہے تو وہ وہیں قیام کرے۔ اللہ تعالیٰ اس صبر پر اسے انعام عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کی جو تقدیر طے کر چکے‘ وہی ہو کر رہے گا۔(اور اگر وہ چل بسا تو ) اسے شہید کا درجہ عطا ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

درج بالا حدیث سے عیاں ہے کہ وبائیں مومنین پر رحمت بن کر بھی آتی ہیں۔ وہ اس صورت میں کہ وبا سے انہیں کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتاہے۔ مثلاً دیکھا گیا ہے کہ وبا کے زمانے میں جب مسلمان مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں میں گرفتار ہوں،تو وہ توبہ استغفار کرتے اورعبرت پکڑ کر بدی کی راہ ترک کر دیتے ہیں۔ تب بھٹکے اور گناہوں سے لتھڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے وبارحمت بن جاتی ہے ۔وہ شر کا راستہ چھوڑ کر خیر کو اپنا لیتے ہیں۔گویا اللہ پاک نے اپنی قدرت الٰہی سے بظاہر شر میں خیر کے پہلو بھی پوشیدہ کر رکھے ہیں۔

قرنطینہ ،صابن اور سینی ٹائزر

ایک دوسری حدیث میں رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا: ’’وبا اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھیلتی ہے۔ مگر بیمار کو صحت مند کے ساتھ نہ رکھا جائے۔(صحیح مسلم) اسی حدیث مبارکہ سے قرنطینہ کی سائنس نے جنم لیا۔ ماضی کی اقوام بھی بیمار کو بعض اوقات علیحدہ رکھتی تھیں۔ لیکن انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیمار کو تندرستوںسے الگ تھلگ کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ ولید اول نے 707ء میں دمشق میں پہلا ہسپتال تعمیر کرایا تو وہاں فرمان نبوی پر عمل کرتے ہوئے وبائی مرض ‘ جذام کے مریض دیگر مریضوں سے الگ تھلگ رکھے گئے۔ یہی عمل قرنطینہ کی بنیاد تھا۔

بعدازاں ممتاز مسلم جوہر قابل‘ ابن سینا (متوفی 1037ء) نے قرنطینہ کا مربوط نظام وضح کیا۔ اس نظام میں وبا کے مریض کو چالیس دن تک الگ تھلگ رکھا جاتا۔ ابن سینا نے اپنے انسائیکلو پیڈیا طب (القانون فی الطب) میں اس نظام کو تفصیل سے بیان کیا ۔ انہوں نے چالیس کی مناسبت سے اپنے طبی نظام کا نام ’’ال اربعینیہ‘‘ رکھا ۔ جب اطالوی مترجموں نے اس اصطلاح کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا تو اسے ’’قرنطینہ‘‘ کر دیا۔ گویا وبا کی روک تھام اور مریضوں کی صحت یابی کا یہ جامع نظام مسلم اطبا کی تخلیق ہے ۔ اور انہیں یہ نظام وضع کرنے کی تحریک رحمت للعالمین ﷺسے ملی جو بنی نوع انسان پر شفقت فرماتے تھے۔

نبی کریم ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا۔ اسی حدیث کے باعث مسلمان جسمانی و روحانی طہارت پر بھی توجہ دینے لگے۔ کوویڈ19 پھیلنے کے بعد ہر ملک میں اربوں شہریوں پر زور دیا جانے لگا کہ وہ روزانہ بار بار بیس سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں اور ہاتھوں پر جراثیم کش مائع (سینی ٹائزر) لگائیں۔ کم ہی مسلمان جانتے ہیں کہ سخت صابن اور الکوحل کی بنیاد پر بنے سینی ٹائزر ‘ دونوں مسلم سائنس دانوں اور ہنر مندوں کی ایجاد ہیں۔ماضی میں مختلف جڑی بوٹیوں اور کیمیائی مادوں سے بابلی‘ مصری‘ اور رومی مائع صابن بنا رہے تھے مگر سخت صابن ساتویں اور آٹھویں صدی میں مسلم سائنس دانوں نے ایجاد کیا۔

مشہور مسلم جوہر قابل، زکریا رازی (متوفی 925ء)نے اپنی کتب میں سخت صابن بنانے کی متفرق ترکیبیں بیان کی ہیں۔اسی طرح ماضی کی اقوام ’’عمل تقطیر‘‘ (distillation)کے ذریعے اجناس و پھلوں سے الکوحل حاصل کر رہی تھیں مگر ان کا طریقہ کار موثر نہ تھا۔ یہ مسلم کیمیاداں مثلاً جابر بن حیان‘ الکندی اور المجریطی ہیں جنہوںنے نہ صرف عمل تقطیر سے الکوحل بنانے کا زیادہ بہتر طریقہ تجربات سے دریافت کیا بلکہ پہلی بار اسے ادویہ بنانے میں بھی استعمال کرنے لگے۔ مقصد یہی تھا کہ بیماریاں رفع کرنے والی موثر ادویہ بن سکیں تاکہ اہل اسلام کو شفایابی عطا ہو ۔ انہی نئی ادویہ میں جراثیم کش مادے (سینی ٹائزر) بھی شامل تھے۔

طاعون کی وبا

مسلمانوں کو سب سے پہلے17ہجری ( 638 ء ) میں ایک وبا سے واسطہ پڑا۔یہ خلیفہ دوم‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور تھا۔ تب فلسطین میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ اس وقت اسلامی افواج شام و فلسطین فتح کرنے کے آخری مرحلے میں تھیں۔ انہوں نے عمواس کے مقام پر ایک جنگی مستقر قائم کر لیا جو علاقے کا تاریخی شہر تھا۔ تب حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح ٰ ‘حضرت معاذؓ بن جبل، حضرت شرحبیلؓؓ بن حسنہ ‘ حضرت عمروؓ بن العاص اور حضرت ولیدؓ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جیسے جید صحابہ کرام علیہم الرضوان اسلامی افواج کے جرنیل تھے۔طاعون کی وبا پھوٹنے سے قبل شام و عراق میں قحط پھیلا ہوا تھا۔

خیال ہے کہ غذا کی تلاش میں چوہے جنگل چھوڑ کر انسانی بستیوں میں دندناتے پھرنے لگے۔ کسی چوہے کے خون پہ پلنے والے پسو(Oriental rat flea) نے انسان میں طاعون کے جراثیم منتقل کیے اور یوں علاقے میں وبا پھوٹ پڑی۔ اس وبا نے عمواس میں ڈیرے ڈالے تو اسلامی لشکر کو ازحد جانی نقصان پہنچایا۔ اسی لیے یہ وبا تاریخ اسلام میں ’’طاعون عمواس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

طاعون عمواس دو وجوہ کی بنا پر اسلامی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے۔ اول یہ کہ اس کی لپیٹ میں آکر نامی گرامی صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح، حضرت معاذؓؓ بن جبل، حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان، حضرت شرحبیلؓؓ بن حسنہ، حضرت فضلؓؓ ابن عباس، حضرت ابو مالک اشعریؓ، حضرت حارثؓ بن ہشام،حضرت سہیلؓؓ بن عمرو،حضرت ضرارؓ بن الازور اور حضرت اویس قرنیؒشامل ہیں۔ شہدا کی تعداد ’’25 ہزار‘‘ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔دوسری وجہ یہ کہ صحابہ کرام کے مابین فکر و نظر کے زاویے میں کچھ فرق کے باعث وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں مختلف آرا سامنے آئیں۔

یہ واضح رہے کہ طاعون عمواس کا آغاز محرم 17 ہجری (جنوری فروری 638ء) سے ہوا۔ وہ اواخر 18 ہجری (نومبر 639) تک جاری رہی۔ جب وبا پھوٹی تو حضرت عمر فاروقؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ اسلامی افواج کو نامی گرامی لیڈروں سے محروم کرسکتی ہے۔ انہوں نے بطور خاص شام و فلسطین میںسپہ سالار اعظم ،حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو ایک ضروری کام کی خاطر مدینہ طلب فرمالیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ خلیفہ دوم انھیں اپنا جانشین بنانے کے خواہش مند تھے۔اسی لیے انھیں وبا سے دور کرنے کی تدبیر کی گئی۔ابن طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ سمجھ گئے کہ خلیفہ راشد انہیں وبا سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تاہم وہ اپنی سپاہ کے ساتھ رہنے کے متمنی تھے۔

اس لیے انہوں نے مدینہ منورہ آنے سے معذرت کرلی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے پھر فیصلہ فرمایا کہ وہ شام و فلسطین پہنچ کر بچشم خود وبا سے پھیلی تباہی کا جائزہ لیتے ہیں۔شام کی سرحد پر سرغ نامی قصبہ آباد تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے وہاں قیام فرمایا۔ حضرت ابوعبیدہؓ بھی خلیفہ راشد سے ملاقات کرنے وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے پھر مہاجرین اور انصار سے تعلق رکھنے والے جید صحابہ کرام کا ایک اجلاس منعقد فرمایا۔ اس میں غوروخوص ہوا کہ وبا سے جنم لینے والے مسائل کیونکر حل کیے جائیں۔

بیشتر صحابہ کرام کی رائے تھی کہ اسلامی افواج کو وبا کے علاقے سے نکل کر محفوظ مقام پر ڈیرا ڈال دینا چاہیے۔ خلیفہ راشد نے ان کا استدلال قبول کرلیا۔ تاہم حضرت ابوعبیدہؓ اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’آپ کیا تقدیر الٰہی سے منہ موڑ رہے ہیں؟‘‘حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا ’’ایسی کوئی بات نہیں، ہم (ایک) تقدیر الٰہی چھوڑ کر (دوسری) تقدیر الٰہی کی طرف جارہے ہیں۔‘‘خلیفہ راشد نے پھر اپنا نکتہ اس مثال سے واضح فرمایا ’’فرض کیجیے، آپ ایسی وادی میں داخل ہوں جس کا ایک حصہ تو بنجر و اجاڑ جبکہ دوسرا حصہ سرسبز و شاداب ہو۔ اب جس حصّے میں بھی آپ نے اپنے مویشی چرنے چھوڑے،یہ تقدیر الٰہی ہے۔ لیکن آپ سرسبز و شاداب حصّے ہی کا انتخاب کریں گے۔‘‘خلیفہ راشد دوم کا استدلال تھا کہ انسان کو وبا سے بچنے کی خاطر ہر ممکن تدبیر اختیار کرنا چاہیے۔ وہ زندہ رہا یا مرگیا، یہ تقدیر الٰہی پر منحصر ہے۔بہرحال خلیفہ واپس مدینہ لوٹ گئے جبکہ اسلامی افواج اپنی جگہ قیام پذیر رہیں۔

اسی موقع پر ایک معاملہ بھی سامنے آیا۔ حدیث نبویؐ کے مطابق وبا مسلمانوں پر رحمت بن کر آتی ہے۔ لیکن طاعون عمواس سے شام و فلسطین میں جہاد رک گیا اور مسلمانوں کا خاطر خواہ جانی نقصان ہوا۔ اسی لیے صحابہ کرام کو احساس ہوا کہ یقیناً مسلمانوں میں سے بعض اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ وبا ان کے لیے بھی باعث ِزحمت بن گئی۔ ممکن ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے بطور سزا نازل فرمایا۔جب تحقیق کی گئی تو انکشاف ہوا کہ شام و فلسطین کے رہائشی کچھ نو مسلم اب بھی ماضی کی طرح شراب نوشی میں ملوث ہیں۔ اسی واسطے حضرت عمر فاروقؓ کے حکم پر ان نو مسلموں کو کوڑوں سے پیٹا گیا۔ (تاریخ طبری)۔

’’معاشرتی دوری‘‘ کا آغاز

کچھ عرصے بعد حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی لشکر کو عراقی سرحد پرواقع جنگی مستقر، الجبایہ لے آئے۔ وہیں آپ کا طاعون عمواس سے انتقال ہوگیا۔ آ پ کے بعد حضرت معاذؓؓ بن جبل سپہ سالار اعظم مقرر ہوئے مگر وبا نے جلد انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حضرت معاذؓؓکی شہادت کے بعد حضرت عمروؓ بن العاص نے افواج اسلامی کی قیادت سنبھال لی۔علامہ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمروؓ امیر لشکر مقرر ہوئے تو انہوں نے حکم دیا کہ سبھی مسلمان علاقے میں بکھر جائیں اور ایک دوسرے سے علیحدہ قیام کریں۔ ٹولیوں کی صورت انہیں جمع ہونے سے روک دیا گیا۔ اس عمل کی بنیاد یہ حدیث نبوی تھی کہ وبائی مرض میں مبتلا مریض کو الگ تھلگ کردیا جائے۔حضرت عمروؓ بن العاص نے گویا اس ’’معاشرتی دوری‘‘ (social distancing)کو اختیار فرمایا جو کوویڈ19 کی وجہ سے آج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ حضرت عمروؓ نے تب مسلمانوں سے فرمایا تھا: ’’وبا آگ کے مانند ہے۔ جب وہ گنجان آبادی میں پھیل جائے تو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن لوگ ایک دوسرے سے دور رہنے لگیں تو وہ پھیل نہیں پاتی۔‘‘

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمروؓ نے لشکریوں کو بکھر جانے کا حکم دیا تو بعض نے اس عمل کو بزدلی سے تعبیر کیا۔ ایک صحابی خاصے ناراض ہوگئے۔ وہ اٹھ کر کہنے لگے ’’میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ اللہ کی قسم، تم غلط ہو بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ تم میرے گدھے سے بھی زیادہ گمراہ ہوچکے۔‘‘

یہ خاصے سخت الفاظ تھے جو حضرت عمروؓ بن العاص کے سامنے ادا کیے گئے۔ وہ امیر لشکر تھے، چاہتے تو زیادہ سخت کلمات ادا فرماتے تاہم انہوں نے نرمی سے فرمایا ’’میں آپ کی بات کا جواب نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی آپ کو کچھ کہوں گا۔‘‘بہرحال حضرت عمروؓ کے حکم پر تمام لشکری علاقے میں پھیل گئے اور انہوںنے معاشرتی دوری اختیار کرلی۔ جب اس امر کی اطلاع حضرت عمر فاروقؓ کو ملی تو انہیں بھی یہ عمل اپنالینے کی پالیسی میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی اور اسے درست قرار فرمایا۔

درج بالا واقعے سے کوویڈ19 کا نشانہ بنے مسلمانان عالم کو تین سبق ملتے ہیں۔ اول یہ کہ اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام نے بھی وبا کے دنوں میں معاشرتی دوری اختیار فرمائی۔ یہ کوئی ناپسندیدہ فعل نہیں بلکہ حفاظت ِصحت کی خاطر اٹھایا جانے والا ضروری اقدام ہے۔دوسرا سبق یہ کہ جب امیر یا حکمران وبا کے دوران غیر معمولی اقدامات کرے تو ان کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔

یہ ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن حقیقی لیڈر جذباتی باتوں پر دھیان نہیں دیتا اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن عملی قدم اٹھاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جذبات سے انسانی جانیں نہیں بچائی جاسکتیں، عملی اقدامات اور پالیسیاں ہی ایسے موقع پر کام آتی ہیں۔تیسرا سبق یہ کہ علامہ ابن کثیر نے یہ نہیں لکھا کہ کیا اس موقع پر باجماعت نمازیں اور نماز جمعہ ادا ہوتی رہی یا نہیں۔ تاہم اس وقت چند ماہ کے لیے تمام مسلمان الگ تھلگ رہے تھے تاکہ طاعون کے جراثیم سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ نماز جمعہ اور باجماعت نمازیں عارضی طور پرموقوف ہوگئی ہوں۔ بہرحال اس بارے میں اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر جانتے ہیں۔

قحط بھی آ پہنچا

بیان ہو چکا کہ طاعون عمواس پھیلنے سے قبل شام و عراق میں قحط پھیلا ہوا تھا۔وبا کے بیشتر اثرات تو فلسطین و شام تک محدود رہے مگر آنے والے مہینوں میں جزیرہ نما عرب قحط کا نشانہ بننے لگا۔موسم گرما طویل ہوگیا اور بارش کا ایک قطرہ تک نہ برسا۔ نمی کی کمی نے فصلیں تباہ کردیں۔ حتیٰ کہ دور دور تک صحرائی گھاس بھی عنقا ہوگئی۔ خوراک و پانی کی کمی کے باعث ہزارہا مویشی مرگئے۔

دیہی علاقوں سے بدو غذا کی تلاش میں شہروں میں چلے آئے۔ غرض عرب پر شام و عراق سے بھی زیادہ شدید قحط چھاگیا کیونکہ وہ پہلے ہی خشک علاقہ تھا۔اسلامی تاریخ میں یہ سال ’’عام الرمادہ‘‘ کہلاتا ہے یعنی ’’خاک اڑنے کا سال‘‘ ۔وجہ یہ کہ اس زمانے میں جب ہوا چلتی تو ہر سمت مٹی اڑتی نظر آتی۔ زمین اتنی بنجر ہوگئی کہ جگہ جگہ سے اس کا رنگ سیاہ پڑگیا۔ اس قحط نے ’’الرمادہ‘‘ کی اصطلاح کو جنم دیا۔ ممتاز عرب ماہر لسانیات، ابن منظور کی لغت ’’لسان العرب‘‘ میں الرمادہ کی تشریح یہ لکھی ہے: ’’عظیم تباہی کا واقعہ۔ ایسی کیفیت جب انسان، پودے، مویشی اور مال ،سب کچھ تباہ ہوجائے۔‘‘

مورخ ابن سعد نے اپنی کتاب ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں لوگ ہڈیاں اٹھاتے نظر آتے تاکہ انہیں ابال کر کچھ غذائیت حاصل کرسکیں۔ نہایت بھوکے انسان جانوروں کے بل کھودتے پائے گئے تاکہ جو کچھ ملے، اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاسکیں۔ اس وقت خوراک نایاب ہونے سے بہت مہنگی ہوگئی۔ طبری بیان کرتے ہیںکہ تب ایک برتن دودھ کی قیمت چالیس درہم تک جاپہنچی ۔ یہی دودھ پہلے چند سّکوں کے عوض دستیاب تھا۔حد یہ ہے کہ سونا چاندی اور درہم و دینار بے معنی ہوکر رہ گئے کیونکہ عرب میں خریدنے کے لیے سامان خورونوش ہی موجود نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ طاعون عمواس اور عام الرمادہ کی قدرتی آفات کے دوران خلیفہ راشد دوم نے بہ حیثیت حکمران کس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ فرمایا؟

حضرت عمر فاروقؓ کے تاریخی کارنامے

ڈاکٹر جریب بن احمد الحرسی مکہ مکرمہ کی اسلامی یونیورسٹی، جامعہ ام القری سے بطور استاد وابستہ ہیں۔ آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی فقہ و طرز حکمرانی پر ایک کتاب ’’فقہ اقتصادی امیر المومنین عمرؓ بن خطاب‘‘ تصنیف کی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ قدرتی آفات کے دوران خلیفہ دوم نے عظیم الشان کردار کا مظاہرہ فرمایا اور ایک مثالی و عوام دوست حکمران بن کر نمایاں ہوئے۔ آپ کے فیصلے اور اقدامات سبھی حکمرانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پہلی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے بہ حیثیت حکمران قدرتی آفات نازل ہونے کی ذمے داری اپنے سر لے لی حالانکہ جن وجوہ کی بنا پر آفات نے جنم لیا وہ آپ کے کنٹرول سے باہر تھیں۔ مثلاً چوہوں کا انسانی بستیوں میں آنا اور وبا (طاعون) کا جنم لینا ،بارشوں کا نہ ہونا، شدید گرمی پڑنا، فصلیں اجڑ جانا، شہروں میں ہزارہا بدوؤں کی آمد وغیرہ ۔ اس کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ کا خیال تھا کہ یقینا بطور حکمران ان سے ایسی کوئی کوتاہی ہوئی جس کی بنا پر یہ قدرتی آفات نازل ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی تاویل کا سہارا نہیں لیا۔

یہی وجہ ہے، حضرت عمر فاروقؓ وبا کے جنم لیتے ہی بہت متحرک ہوگئے اور اپنی رعایا کو محفوظ کرنے کی خاطر انہوں نے کئی غیر معمولی اقدامات کئے۔ حتیٰ کہ آپ وبا کے علاقے، شام تشریف لے گئے تاکہ مجاہدین اسلام کی خیریت دریافت کرسکیں اور ان کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ یوں آپ نے اہل اسلام کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔جب قحط شروع ہوا تو سرکاری اقدامات کا سلسلہ زیادہ وسیع ہوگیا۔ کوویڈ 19 نے دنیا بھر میں جس قسم کے تباہ کن حالات کو جنم دیا اس سے عیاں ہے کہ وبا نہایت خطرناک آفت ہے۔ اسی طرح قحط بھی ایک زبردست خطرہ بن کر نمودار ہوتا اور انسانوں کو بھوک و پیاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ وبا اور قحط کے منفی اثرات کسی بھی مملکت یا ریاست کو تباہ وبرباد کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کوبھی اپنے دور میں ایک نہیںان دونوں قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونا پڑا جو نہایت غیر معمولی صورتحال تھی۔

وبا اور قحط سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے خلیفہ دوم نے مصر، شام اور عراق کے والیوں کو پیغامات بھجوائے کہ غلہ اور دیگر سامان خورونوش عرب بھجوایا جائے۔ چناں چہ ان علاقوں سے غلے کی بوریاں اور کھانے پینے کا دیگر سامان جزیرہ عرب نما پہنچنے لگا۔اس زمانے میں فلسطین قحط کا شکار نہ تھا اور وہاں وافر غلہ موجود تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ فلسطین سے حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح چار ہزار اونٹوں پر اجناس لاد کر مدینہ مشورہ تشریف لائے تھے۔ اس زبردست امداد سے بھوک پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اس طریق کار کی بدولت معاشرتی ابتری و انارکی جنم لینے کا امکان ختم ہوگیا۔ ریاستی انتظام مضبوط ہوا اور حکومت کی رٹ کو گزند نہیں پہنچا۔

بیرون ممالک سے کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور دیگر روز مرض ضروریات کا جو سامان آتا‘ وہ حضرت عمر فاروق ؓ یا آپ کے مقرر کردہ نمائندوں کی موجودگی میں ضرورت مندوں کے مابین تقسیم ہو جاتا۔ یہی نہیں‘ خلیفہ دوم نے غریبوں کے لیے سرکاری خرچ پر کھانا پکانے کا انتظام بھی فرمایا۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں مدینہ منورہ میں روزانہ چالیس ہزار افراد کی خاطر کھانا پکایا جاتا۔ بھوکوں اور غریبوں کو اتنے وسیع پیمانے پر آج تک کسی حکومت نے کھانا نہیں کھلایا تھا۔خلیفہ بھی عوام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کے لیے الگ سے کھانا تیار ہوتا ہے۔

دوسرے خلیفہ راشد دوم نے وبا و قحط کے زمانے میں اپنا طرز زندگی بالکل تبدیل کر دیا۔ آپ بصد شوق دودھ پیتے اور پنیر کھاتے تھے۔ لیکن ان دوبرسوں میں آپ نے رمضان المبارک کے دوران بھی نہ دودھ پیا نہ پنیر کوہاتھ لگایا۔ صرف سادہ روٹی‘ نمک اور کبھی کبھار تیل اس عظیم سلطنت کے والی کا پسندیدہ کھا جا رہا ۔طرز زندگی میں تبدیلی لا کر گویافاروق اعظم ؓ نے صحیح معنوں میں عوام دوست حکمران ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ سبھی مسلمانوں نے جانا کہ وہ جن تکالیف سے گذر رہے ہیں‘ حکمران وقت بھی ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس اقدام سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ کسی شہری کو صورت حالت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا خیال تک نہیں آیا۔ اسی لیے ذخیرہ اندوزی اسلامی ریاست میں عنقا رہی اور ایک بھی شے غیر ضروری طور پر مہنگی نہ ہوئی۔

غذائیت نہ ملنے پر حضرت عمر ؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔ آپ کمزور بھی ہو گئے تاہم روزمرہ معمولات میں فرق نہ آیا۔ ’’طبقات کبری‘‘ میں درج ہے کہ ایک بار خلیفہ دوم کے ملازم نے بازار سے گھی اور دودھ چالیس درہم میں خرید لیا۔ جب حضرت عمر فاروق ؓ کو معلوم ہوا تو آپ بہت خفا ہوئے ۔ آپ نے فرمایا:’’تم نے اتنے مہنگے داموں میرے لیے چیزیں کیوں خریدیں۔ میں اسراف پسند نہیں کرتا۔ جاؤ انہیں صدقہ کر آؤ‘‘۔ پھر کہنے لگے: ’’ مجھے عوام کے دکھ درد کا اندازہ اسی وقت ہو گا جب میں بھی انہی حالات سے گزروں جن سے عام لوگ گزر رہے ہیں۔‘‘

ایک بار ناقص غذا کھانے سے آپ کا پیٹ خراب ہو گیا ۔ خلیفہ راشد دوم نے پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’تم شاید گھی مانگتے ہو۔ اللہ کی قسم‘ جب تک میری رعایا کو گھی نہیں ملتا‘ وہ تمہیں بھی میسر نہیں آئے گا۔‘‘اس موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف وہاں موجود تھے۔ وہ خلیفہ راشد کی یہ بات سن کر رو پڑے اور کہنے لگے۔ ’’اے عمر! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے۔ تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے۔‘‘ (یعنی وہ آپ جیسا مثالی اور عوام دوست حکمران کہاں سے لائیں گے؟)

وبا و قحط میں حضرت عمرفاروق ؓ کو عوام کی تکالیف کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی لیے آپ نے ایسے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف فرما دی جو کھجوریں یا کھانے پینے کی کوئی اور شے چرا رہا ہو۔(مصنف عبدالرزاق ) اس حکم سے عیاں ہے کہ آپ ایک بھوکے انسان کی نہایت پیچیدہ نفسیات سے واقف تھے۔ایک بار مدینہ منورہ کے کھاتے پیتے صاحب حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور شکایت کی کہ ان کے ملازمین کھانا چوری کر رہے ہیں۔ خلیفہ نے تحقیق کرنے کا وعدہ فرمایا۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ وہ صاحب اپنے ملازمین کی ضرورتیں پوری نہیں کرتے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ اپنے ملازموں کی ضرورتیں پوری کرو ورنہ اصل میں سزا تمہیں ملے گی۔اسی طرح آپ نے زکوٰۃ ادا کرنے کے حکم میں بھی نرمی فرما دی۔ آپ نے دونوں برسوں کے رمضان المبارک میں اعلان فرمایا کہ صاحب استطاعت اپنی سہولت سے زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔

وبا اور قحط کے زمانے میں حضرت عمر فاروق ؓ کا تیسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں‘ غریبوں اور مفلسوں کا مدد گار بن جانے والا ایک جامع سرکاری معاشرتی نظام وضع فرمایا۔ آپ اور آپ کے نمائندے زکوٰۃ ‘ انفاق اور صدقے کے ہر عمل کی نگرانی فرماتے ۔ وقف کا ادارہ بھی پوری طرح کام کرنے لگا۔ حتیٰ کہ آپ نے بوڑھے و معذور غیر مسلموں کے لیے بھی وظائف مقرر فرمائے۔ یوں سوشل سکیورٹی کا ایسا بہترین نظام قائم کر دیا جو دور جدید کے اسکینڈے نیویا ممالک میں دکھائی دیتا ہے۔

اسی دوران بیت المال کے ادارے کو بھی مضبوط و توانا بنایا۔ اس کے تمام وسائل عوام کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں پر خرچ ہونے لگے۔ مورخین اسلام لکھتے ہیں کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کا تعین کرنے کے لیے خلیفہ راشد دوم نے ایک انوکھا تجربہ فرمایا۔آپ نے سب سے پہلے ساٹھ غریب جمع فرمائے۔ اس کے بعد ان کے لیے روٹیاں پکائی گئیں۔ پھر گوشت کا سالن پکایا گیا۔ اب طعام کا آغاز ہوا۔ جب سب پیٹ بھر کر کھا چکے‘ توانہیں رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ دیکھا کہ ساٹھ افراد کے کھانے پینے پر کون کون سی شے کتنی استعمال ہوئی ہے۔ جب ہر شے کا حساب کتاب ہو چکا‘ تو آپ نے حکم دیا: ’’وبا و قحط سے متاثر ہر مفلس کو فلاں فلاں شے ہر ماہ اتنی مقدار میں بیت ا لمال سے فراہم کی جائے۔‘‘

یہ عیاں ہے کہ آفتیں آنے پر صورت حال غیر معمولی ہو جاتی ہے۔ تب عوام دوست حکمران انوکھے تجربے کرتے ہیں تاکہ مصائب وآلام میں گرفتار اپنی رعایا کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی اجتہاد سے کام لے کر ریاست میں عدل و انصاف کا ایسا مثالی نظام قائم کر دیا کہ ایک غریب کو بھی اتنی ہی غذا میسر آنے لگی جو امیر کو دستیاب تھی۔

وبا و قحط کا مقابلہ کرتے ہوئے خلیفہ راشد دوم کا پانچواں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے شعبہ خوراک کو ترقی دینے اور محفوظ بنانے کے سلسلے میں اہم اقدمات کیے ۔ آپ نے فوری طور پر تمام علاقوں کے والیوں کو ہدایت دی کہ وہ اسوہ حسنہﷺ اختیار کر لیں۔ جب غذا کی مقدار کم ہوتی تو رسول کریم ﷺ کا طریقہ عمل یہ تھاکہ آپؐ تمام مسلمانوں کے گھروں سے کھانا منگوا کر ایک جگہ جمع فرما لیتے۔ ظاہر ہے‘ صاحب استطاعت مسلمانوں کے گھروں سے زیادہ کھانا آتا ۔ جب کہ غریب مسلمان اکثر اوقات کچھ نہ دے پاتے۔ اس کے بعد کھانا برابر مقدار میں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اسی طرح کوئی بھوکا نہ رہتا۔ وبا و قحط کے دور میں اس بہترین سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بدولت بھوک و پیاس مٹانے میں بہت مدد ملی۔جب قدرتی آفتیں ختم ہو گئیں تو حضرت عمر فاروق ؓ نے کھیتی باڑی‘ باغبانی ‘ کٹائی اور غذا محفوظ کرنے کے اعمال میں جدتیں متعارف کرائیں تاکہ شعبہ خوراک کو ترقی یافتہ ‘ منظم اور مضبوط بنایا جا سکے۔

قدرتی آفات سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے خلیفہ راشد دوم نے سلطنت کا انفراسٹرکچر یا انتظامی ڈھانچا بھی مضبوط و موثر بنایا جو آپ کا ا یک اور کارنامہ ہے۔آپ نے شام، عراق، مصر اور یمن سے آنے والے راستوں پر عسکری چوکیاں بنوائیں اور سرائیں بھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان ممالک سے جو مال و اسباب عرب آرہا ہے، اس کی حفاظت ہوسکے اور آنے والوں کو سفری تکالیف سے بھی نجات مل سکے۔ وبا اور قحط ختم ہوئے تو حضرت عمرؓ نے والی مصر، حضرت عمروؓ بن العاص کو حکم دیا کہ وہ دریائے نیل سے ایک نہر نکال کر بحر احمر تک لے آئیں۔ مقصد یہ تھا کہ مصر سے اجناس جلد عرب تک پہنچ سکیں۔ یوں خلیفہ راشد دوم نے نہ صرف خوراک کی نقل حمل اپنے اقدامات سے سہل بنائی بلکہ اس کی سکیورٹی کا بھی جامع انتظام فرمایا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا ساتواں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے وبا و قحط کے دوران عوام کو بعض مراعات دے ڈالیں۔ مثلاً زکوٰۃ تاخیر سے لینے کا اعلان فرمایا۔ پہلے غربا کے شیر خوار بچوں کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا، اب پیدا ہوتے ہی ملنے لگا۔ حتیٰ کہ کچھ سزائیں بھی موقوف کردی گئیں۔ تاہم خلیفہ راشد دوم نے طبقہ بالا کو نہ صرف ان رعایات سے دور رکھا بلکہ ان پر زیادہ سختی ہونے لگی۔ مثال کے طور پر جن امراء کی زمینیں ویران پڑی تھیں، انہیں کہا گیا کہ وہ زمینوں پر کھیتی باڑی شروع کرائیں ورنہ حکومت انہیں ضبط کرکے ایسے لوگوں کو دے گی جو وہاں زرعی سرگرمی شروع کرسکیں۔

غرض حضرت عمرؓفاروق نے وبا اور قحط کے مسائل سے مقابلے کی خاطر جو بندوبست کیے، ان کی بدولت سلطنت اسلامی کے خصوصاً غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس قابل ہوگئے کہ انتہائی مشکل وقت میں بھی بھوک پیاس کا بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ انہیں یہ ہمت و حوصلہ اپنے بے مثال خلیفہ کے ناقابل فراموش عملی اقدامات ہی سے حاصل ہوا۔مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓفاروق اکثر راتوں کو یہ دیکھنے کے لیے گشت فرماتے کہ کوئی شہری دکھ و تکلیف میں مبتلا تو نہیں۔ اگر کوئی خاندان کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا، تو اسی وقت اس کی امداد کی جاتی۔ حتیٰ کہ بعض اوقات خلیفہ راشد دوم اپنی کمر پر سامان خورونوش لاد کر مصیبت زدہ کے گھر تک پہنچاتے۔

مصائب و آلام کے اس دور میں خلیفہ روزانہ نماز فجر میں امامت بھی فرماتے۔ تب آپ کا معمول تھا کہ بعداز نماز مسلمانوں سے فرماتے ’’مجھے نہیں معلوم کہ وبا و قحط بہ حیثیت خلیفہ میری کوتاہیوں سے نازل ہوئیں یا ان کا موجب قوم کے گناہ بنے ہیں۔ لیکن آئیے، اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کریں تاکہ وہ اپنی مہربانی و کرم سے ہمیں ان تکالیف سے نجات دلادیں۔‘‘

یہ ممکن ہے کہ کوویڈ 19 کے باعث اس بار رمضان المبارک مختلف طریقے سے بسر ہو اور مسلمانان عالم کو غیر روایتی اندازاختیار کرنا پڑیں ۔شاید وہ سحروافطار،تراویح اور عید خریداری کی روایتی خوشیوں سے کسی حد تک محروم رہ جائیں۔اس عالم میں ہمیںنبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی رحمت و کریمی سے ہمیںوبا کی آفتوں سے نجات دلاسکیں۔ رب للعالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو جادہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔