متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجودلاک ڈاؤن میں نرمی

رضوان طاہر مبین  منگل 28 اپريل 2020
انتظامیہ، تاجروں اور عوام کو دانش مندی کا ثبوت دینا چاہیے

انتظامیہ، تاجروں اور عوام کو دانش مندی کا ثبوت دینا چاہیے

کورونا کے حوالے سے ہفتہ رفتہ میں کچھ عجیب وغریب سے منظر دیکھے گئے۔۔۔

ایک طرف ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والے مریض بڑھتے گئے، تو دوسری طرف ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی۔۔۔ یوں بہت سی جگہوں پر تین ہفتوں کے بعد مختلف دکانیں اور کاروبار وغیرہ کھول لیے گئے، بالخصوص گلی محلوں میں یہ مناظر زیادہ دیکھنے میں آئے۔ دن کے اوقات میں شہر کی سڑکوں پر بھی واضح طور پر آمدورفت میں اضافہ سامنے آیا۔۔۔ بہت سی مساجد وغیرہ بھی کھول دی گئیں، اور وہاں باجماعت نمازوں کا اہتمام بھی ہونے لگا، کہیں نمازیوں کے درمیان فاصلہ ملحوظ رکھا گیا ہے، تو کہیں معمول کے مطابق ہی نماز ادا ہو رہی ہے۔

گذشتہ دنوں حکومت کی مشروط اجازت پا کر کھلنے والی صنعتوں کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں، حکومت سندھ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ صنعتوں اور کارخانوں میں احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا تھا۔۔۔ ساتھ ہی کراچی میں دکانیں کھولنے والے کچھ تاجروں کو بھی گرفتار کیا گیا، اور وہ اب 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجے جا چکے ہیں۔۔۔! یہ صورت حال یقیناً اضطرابی صورت حال کی طرف جا رہی ہے، جس سے بہ جائے وبا کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے، الٹا ہماری توانائیاں داخلی تنازعات کی نذر ہو رہی ہیں۔۔۔!

دوسری طرف تاجروں کی مختلف انجمنوں کے لب ولہجے ان کے پیمانۂ صبر چھلکنے کی خبر دینے لگے ہیں۔۔۔ جس سے آنے والے دنوں میں تناؤ میں اضافے کا خدشہ ہے۔۔۔ بہت سے حلقوں سے ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مبینہ طور پر بازار اور صنعتیں کھولنے کی اجازت دینے کے لیے اِن سے باقاعدہ بھاری رقوم کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔۔۔

لاک ڈاؤن میں نرمی دکھانے کے ساتھ ساتھ خواتین، بزرگ اور صحافیوں وغیرہ کا استثنا ختم کر کے ’ڈبل سواری‘ کے حوالے سے پہلی بار مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔۔۔ جس پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے ’کراچی پولیس‘ کی کارروائیوں پر شہریوں میں سخت غم وغصہ ہے، تواتر کے ساتھ ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ کسی خاتون کو ساتھ لے جانے والے شہری کی بائیک کی ہوا نکال کر انہیں سخت گرمی میں پیدل چلنے پر مجبور کر دیا گیا۔۔۔! اس طرح کی کارروائیاں براہ راست پریشان شہریوں کو مشتعل کر رہی ہیں۔۔۔!

مجموعی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکام بالا تاجروں اور صنعت کاروں وغیرہ کے دباؤ میں آکر نرمی کرنے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی بات کر چکے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران ہی پابندی نہیں ہوئی، دکانوں اور بازاروں میں احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا دی گئیں، ایسے میں ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کتنا کارگر ہوگا۔۔۔؟ پھر کورونا کے متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافے کے دوران نرمی چہ معنی؟ کراچی میں ڈاکٹروں نے بھی پریس کانفرنس کر کے بھی مستقبل کی مشکل صورت حال کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے ہیں۔۔۔

اس تمام صورت حال کے ساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گذشتہ 20 برسوں میں کم ترین سطح پر آچکی ہیں، لیکن طلب ورسد کے گورکھ دھندے سے جڑی ہوئی اس سہولت سے ’فائدہ‘ کون اٹھائے۔۔۔ سارے عالم میں صنعتیں اور کارخانے بند ہیں، ہوائی جہاز کھڑے  ہوئے ہیں۔۔۔ بحری سفر معطل ہے۔۔۔ سڑکوں پر بھی معمول کے سفر پر بندشیں ہیں۔۔۔ ایسے میں کون خریدار ملے، اس ’کالے سونے‘ کا کوئی کیا کرے۔۔۔ اس لیے کسی بھلے مانس کا کہنا ہے کہ اس ’رعایت‘ سے وہی ملک زیادہ استفادہ کر سکے گا، جو ’کورونا‘ کے بعد سب سے پہلے ’لاک ڈاؤن‘ ختم کرے گا۔۔۔ دفعتاً ہمیں اپنے دیش کا خیال آیا۔۔۔ جہاں لاک ڈاؤن ہو بھی رہا ہے، مگر نہیں بھی ہو رہا۔۔۔! اس لیے ہم ارزاں تیل کے سہارے ’سَستائی‘ یا بہتر معیشت کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کسی کو کیا سمجھائیں۔۔۔ ہمارے ہاں تو قدم قدم پر ’رانگ نمبر‘ ہی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ عوام میں ’کورونا‘ کے ٹیسٹ کے درست ہونے اور انتقال کرنے والوں کو زبردستی کورونا کا شکار بتانے کے حوالے سے خدشات بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اس ابہام کو بھی فوری طور پر دور کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، ورنہ صورت حال بگڑ سکتی ہے۔

’سرمایہ داری‘ کے عہد میں جہاں سرمایہ ’خدا‘ کی صورت پوجا جاتا ہو، وہاں ’سازشیں‘ فقط وہم نہیں ہو سکتیں۔۔۔ جہاں منظر بنائے جاتے ہوں اور واقعات کی تشکیل ہوتی ہو۔۔۔ مختلف ’پیادے‘ دوڑائے جاتے ہوں اور افسانوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کو ناقابل یقین ناٹک رچائے جاتے ہوں۔۔۔ وہاں ولیم شیکسپئیر  کے الفاظ میں یہ سارا جہاں فطری اسٹیج کے ساتھ ساتھ  مہیب سرمایہ کاروں کی ڈائریکشن میں بننے والی کوئی فلم ہی تو دکھائی دیتا ہے۔۔۔ لیکن دوسری طرف ہم لوگ بھی تو وہ ہیں کہ کھیل کو جنگ اور جنگ کو کھیل سمجھنے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔۔۔ اس بار بھی اپنی کم علمی اور جذباتیت کے ہاتھوں اگر  کسی ایسی ہی غلطی کا شکار ہوگئے تو ؎

کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

زیادہ نہیں صرف پانچ سال پہلے 2015ء میں یہی رمضان المبارک کے دن تھے، جب ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی نے شدید ترین گرمی میں ’متاثرین‘ کے لیے اسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتے ہوئے دیکھی۔۔۔

کتنا خوف ناک منظر تھا، جب لوگ ہنگامی حالت میں اپنے پیاروں کو ’ایمبولینسوں‘ میں لیے ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کی خاک چھانتے رہے کہ ان کے مریض کو کہیں تو جگہ مل جائے، کئی اسپتالوں میں پارکنگ تک مریضوں کے بستر لگے ہوئے تھے۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ چند دن میں ہی  موسم بہتر ہوگیا، ورنہ جانے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سے بڑھتے ہوئے کہاں تک جاتی۔۔۔! اس امر نے یہ بہت واضح کر دیا تھا کہ  ملک کا سب سے بڑا شہر معمول کی طبی سہولتوں کے لیے ہی قطعی ناکافی ہے، الّا کہ کسی وبا یا غیر معمولی صورت حال کا سامنا کر سکے۔۔۔!

’کورونا‘ کے اعدادوشمار دیکھیے، تو شاید یہ بات درست ہے کہ یہ مرض ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے اتنا مہلک نہیں، جتنا مغربی ممالک کے لیے کاری ہے، لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ اس مرض کی انتہائی صورت میں مریض کو ’وینٹی لیٹر‘ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔۔۔۔! لیکن ہمارے 22 کروڑ آبادی والے  ملک میں کتنے وینٹی لیٹر موجود ہیں۔۔۔؟ مختلف ذرایع سے اِن کی تعداد دو ہزار کے اندر بتائی جاتی ہے۔۔۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔