ایف بی آر نے 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد آڈٹ کیسز خاموشی سے بند کردیے

شہباز رانا  بدھ 29 اپريل 2020
ایف بی آر کے پاس اتنے کیسز نمٹانے کیلیے تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں ،کیسز ایف بی آر کیلیے دردسر بن گئے تھے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

ایف بی آر کے پاس اتنے کیسز نمٹانے کیلیے تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں ،کیسز ایف بی آر کیلیے دردسر بن گئے تھے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد آڈٹ کیسز خاموشی سے بند کر دیے، یہ کیسز ان نادہندگان کے تھے جو 2014سے 2017  کے درمیان بروقت ٹیکس ریٹرن فائل کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی میں ناکام رہے تھے۔ ان کیسز کا انتخاب خودکار طور پر کیا گیا تھا۔

انتہائی باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے 6 لاکھ کیسز میں سے 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد آڈٹ کیسز بند کردیے ہیں۔ اس سلسلے میں جمعے کے روز ایف بی آر نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔ ایف بی آر کے اس فیصلے سے افراد، انجمنوں اور کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا۔ آڈٹ کیسز بند کرنے کا خیال ممبر ٹیکس پیئرز آڈٹ ندیم رضوی نے پیش کیا تھا جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نئے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز ہوں گے۔ یہ آڈٹ کیسز انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 214ڈی کے تحت خودکار طور پر منتخب کیے گئے تھے۔

ایف بی آر نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن کیسز میں اس کے پاس تھرڈ پارٹی انفارمیشن اور سابقہ ڈکلیریشنز سے میچ کرتا ڈیٹا نہیں ہوگا، ایسے کیسز بند کردیے جائیں گے۔ سیکشن 214ڈی کے تحت منتخب کیے گئے آڈٹ کیسز کو بند کرنے کے لیے ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں نئی شق 214E متعارف کرائی تھی۔

ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ 31 دسمبر 2018 تک رضاکارانہ طور پر اپنے ریٹرنز پر نظرثانی کریں اور 25فیصد اضافی ٹیکس ادا کرکے اپنے کیسز ختم کرالیں۔ مگر ایف بی آر اس معاملے پر پیشرفت نہیں کرسکا اور 6 لاکھ سے زائد کیسز کھلے رہے۔

ایف بی آر نے جمعہ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ ٹیکس ایئر 2015، 2016 اور 2017 کے لیے سیکشن  214D کے تحت منتخب کردہ کیسوں کے آڈٹ کے لیے فردواحد، افراد کی انجمنوں اور کمپنیوں کے لیے ایک طریقہ کار تشکیل دیا گیا ہے جس کے مطابق تمام فیلڈ فارمیشنز آڈٹ کیسز مکمل کریں گے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر کا آئی ٹی ونگ تمام کمشنروں کو متعلقہ ڈیٹا فراہم کرے گا جو اسکروٹنی کے ذریعے آڈٹ مکمل کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے پاس اتنے سارے کیسز کو نمٹنانے کے لیے مطلوبہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ کیسز ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر دونوں کے لیے دردسر بن گئے تھے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔