لاک ڈاؤن؛ سندھ میں آم کے سیزن کیلیے پنجاب کے مزدور دستیاب نہیں ہوں گے

عبدالرزاق ابڑو  بدھ 29 اپريل 2020
آڑھتی مزدوروں کو پیشگی ادائیگیاں کرچکے ہیں، میراں محمدشاہ، حکومتی ہدایت کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دینگے، اے سی حیدرآباد۔ فوٹو: فائل

آڑھتی مزدوروں کو پیشگی ادائیگیاں کرچکے ہیں، میراں محمدشاہ، حکومتی ہدایت کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دینگے، اے سی حیدرآباد۔ فوٹو: فائل

کراچی: صوبہ سندھ میں آموں کا موسم شروع ہونے والا ہے لیکن اس مرتبہ آم کے باغات میں ہر سال کام کے لیے زیریں پنجاب سے آنے والے ہزاروں کی تعداد میں تجربہ کار مزدور دستیاب نہیں ہونگے کیونکہ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت سندھ کی جانب سے انھیں لانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

صوبہ سندھ میں جون کے پہلے ہفتے سے آموں کی کٹائی کا موسم شروع ہوتے ہی زیریں پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہر سال یہ مزدور یہاں آتے ہیں اور سیزن مکمل ہونے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں، تاہم اس مرتبہ حکومت سندھ کو خدشہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے صوبے میں آنے سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے صدر میراں محمد شاہ کے مطا بق ا س سلسلے میں آڑھتیوں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے زیریں پنجاب کے مزدوروں کو پیشگی ادائیگیاں کی ہوئی ہیں،سندھ حکومت کی جانب سے پنجاب کے مزدوروں کو اجازت نہ ملنے کے باعث آڑھتی اپنے نقصان کا بوجھ بھی کاشت کاروں کے کندھوں پر رکھنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کاشت کاروں کے متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ کے ساتھ اجلاس ہوچکے ہیں، لیکن تاحال اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکا، ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں آموں کے سیزن میں کام بالخصوص آموں کی پیکنگ کے لیے تربیت یافتہ مزدور دستیاب نہیں ہیں اس لیے زیریں پنجاب کے مزدورں کو لایا جاتا ہے وہ اپنے کام میں ماہر ہیں۔

ایوان زراعت سندھ کے نائب صدر حاجی نثار میمن کے مطابق زیریں پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہر سال آم کے سیزن میں ایک لاکھ سے زائد مزدور آتے ہیں، یہ مزدوربہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور راجن  پور کے مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایکسپریس کی جانب سے جب ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں حکومت سندھ کی جانب سے جو بھی ہدایات موصول ہونگیں ان کے مطابق ضلعی انتظامیہ لائحہ عمل ترتیب دے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔