’’ارطغرل ‘‘ پاکستان بھی ایسی پروڈکشن پیش کر سکتا!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 1 مئ 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج کل پاکستان کے اُفق پر ایک ترکی ڈرامہ ’’ارطغرل‘‘ چھایا ہوا ہے، جو سرکاری ٹی وی سے اردو زبان میں نشر ہو رہا ہے، تاریخ سے میرا خاص لگائو اور خاص الخاص رشتہ ہونے کے ناطے مجھے اس طرح کے ’’سیزن‘‘ خاصے اچھے لگتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس ڈرامے میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ہم جیسے لوگ اس کے لیے تعریف کر رہے ہیں؟حقیقت میں یہ ایک بہترین پلاٹ کی گئی اسٹوری ہے، جسے میں ترکی کی ایک بہترین پروڈکشن کہوں گا۔ترکی میں صرف یہ ایک ہی ڈرامہ نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے ڈرامے تیار کیے جارہے ہیں جو ترک قوم کو ان کی تاریخ سے جوڑتے ہوئے تاریخ سے روشناس کروا رہے ہیں۔ اور شاید ترکی پہلا اسلامی ملک ہے جوبین الاقوامی معیار کے سیزن بنا رہا ہے اور جسکی پوری دنیا معترف بھی ہو چکی ہے۔

اور کم از کم مغرب کو اسلام کے حقیقی روپ کے بارے میں علم ہو رہا ہے۔ورنہ ہر ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور دیگر انٹرنیشنل فلم انڈسٹریز میں مسلمانوں کو معذرت کے ساتھ جوتے پڑتے ہی دیکھا گیا ہے۔ خیر اگر ہم ارطغرل کی بات کریں تو اس کہانی میں ترکی کے خانہ بدوش قبیلے ـ’’قائی‘‘ کی کہانی ہے۔

قائی قبیلہ ایک جنگجو قبیلہ ہے جو ایک طرف بے رحم موسموں کے نشانے پر ہے اور دوسری جانب منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہے۔ ہمت و جرات کی یہ عجیب داستان ہے کہ چرواہوں کا یہ خانہ بدوش قبیلہ جو جاڑے کے بے رحم موسم میں قحط سے بچنے کے لیے حلب کے امیر سے ایک زرخیز چراگاہ میں قیام پزیر ہونے کی اجازت مانگ رہا ہوتا ہے آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھ دیتا ہے جو آٹھ سو سال قائم رہتی ہے۔

’’ارطغرل‘‘ قائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا بیٹا ہے۔ وہ منگولوں سے بھی لڑتا ہے اور صلیبیوں سے بھی۔ وہ اوغوز ترک قبائل کو یوں ایک لڑی میں سمو دیتا ہے کہ پھر چرواہوں کے اس قبیلے کی ایک اپنی سلطنت ہوتی ہے اور ارطغرل کا بیٹا عثمان اس سلطنت عثمانیہ کا پہلا بادشاہ ہوتا ہے۔ چرواہوں کا قائی قبیلہ ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کیسے رکھتا ہے اس غیر معمولی جدو جہد کی داستان کا نام ’’ارطغرل‘‘ ہے۔ ترکی نے بلاوجہ یہ ترقی حاصل نہیں کی۔ ارطغرل ڈرامہ دیکھتے ہوئے خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ ترک سماج آرٹ اور کلچر میں کتنا آگے جا چکا ہے۔ ڈرامہ دیکھتے ہوئے آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ پلاٹ کی تعریف کرے، اداکاروں کی تعریف کرے یا پروڈکشن کے معیار پر ششدر رہ جائے۔

کچھ لوگ اس ڈرامہ سیریل کو ہالی ووڈ ڈرامہ سیریل ’’گیم آف تھرون‘‘ کے ساتھ موازنہ کررہے ہیں، یہ درست نہیں۔ دونوں مختلف انداز کے سیزن ہیں، ان کے وسائل میں بے پناہ فرق ہے۔ گیمز آف تھرون HBOکا ڈرامہ سیزن ہے، انھوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور اس سے بہت زیادہ کمایا۔ انھیںبہت سے منجھے ہوئے اور بڑے فنکاروں، جدید ٹیکنالوجی کا ایڈوانٹیج حاصل تھا۔اس کی کہانی میں تمام کردار خیالی تھے، ڈریکولا بھی خیالی تھا جس کا حقیقی زندگی کے ساتھ تعلق نہیں بنتا۔ مگر ارطغرل اتنے بڑے بجٹ کا ڈرامہ سیریل تو نہیں مگر اس کے ڈائریکٹر ابراہیم ایرن بتاتے ہیں کہ یہ بیک وقت 60ممالک میں مختلف زبانوں میں دیکھا جا رہا ہے۔

المختصر یہ کہ یہ ڈرامہ فنی اعتبار سے تو یہ ایک شاہکار ہے ہی ، اس کی ایک اور خوبی بھی ہے۔ یہ مسلمانوں پر مسلط کردہ احساس کمتری کا طلسم کدہ توڑ کر پھینک دیتا ہے۔ خانہ بدوش قبیلے کے اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ کر آپ کے اندر سے وہ احساس کمتری دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے جو مغرب اور اس کے رضاکاروں نے بڑے اہتمام سے مسلم سماج میں پھیلا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ آپ کو مسلم تہذیب کے رنگوں پر فخر محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ڈرامے کا یہ تہذیبی پہلو  اتنا شاندار ہے کہ 2017 میں طیب اردوان کی جب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات متوقع تھی تو نیویارک ٹائمز میں ولیم آرمسٹرانگ نے لکھا کہ طیب اردوان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ’ارطغرل‘ ڈرامہ دیکھ لیجیے۔

ارطغرل ڈرامہ سب سے پہلے 2014 میں نشر کیا گیا تھا، اسے Takden Filmنامی پروڈکشن کمپنی نے بنایاتھا۔ اس سیریل کا سب سے پہلے آئیڈیا پیش کرنے والے مہمت بزداگ کہتے ہیں کہ انھوں نے بہت کم بجٹ سے اس کا پہلا سیزن مکمل کیا جس کے لیے بہت سے سپانسرز سے رابطہ کیا‘ ہم نے پہلا سیزن مکمل کیا اور لانچنگ کے بعد اس پہلے سیزن کی کمائی سے ہم نے اگلا سیزن بنایا۔ یعنی اگر انسان کچھ کرنا چاہے تو بہت کم وسائل میں بھی کچھ کر سکتا ہے۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے سیریلز میں معاونت کرے، اچھی پروپوزل پر کام کرے، اور سپانسر بھی کرے۔ لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ کیا آپ کا پلان کسی کے دل میں گھر کرتا ہے یا نہیں!المیہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ساس بہو کے ڈراموں سے باہر ہی نہیں نکل سکتے، میں نے ایک دوست پروڈیوسر سے پوچھا کہ آپ لوگ ایسے ڈرامے کیوں بناتے ہیں جس سے ہماری گھریلو انوسٹی گیشن آفیسر بن جاتی ہیں۔ بات بات پر بال کی کھال ادھیڑنے تک چلی جاتی ہیں تو موصوف فرمانے لگے، ہمارا تو یہی کچھ بکتا ہے بھائی جان۔ ہمارے لوگوں میں تعلیم نہیں ہے اس لیے وہ ایسے ڈراموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس میں سازش کی ’’بو‘‘ آئے۔

اور پھر اہم بات یہ کہ پاک و ہند جتنا بڑا خطہ ہے یہاں سے تو کہانیاں بھی بہت سی جنم لے سکتی ہیں، یعنی یہاں تو بہت کچھ بیچا جا سکتا ہے۔ ہم بھی اسی طرز کی کئی ایک ڈرامہ سیریل بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس تو شاید ترکی سے زیادہ کہانیاں موجود ہیں جو اس سرزمین پر رونماء ہوتی رہی ہیں۔ سیکڑوں کہانیاں اور سلطنیتیں ایسی ہیں جنھیں لوگ پڑھنا ، دیکھنا اور خریدنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے ’’سکندر‘‘ غازی، مجاہد، اور بادشاہ گزرے ہیں جن پر کئی ایک سیزن بن سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں ساس بہو کے جھگڑوں، ایک خاوند کی دوشادیوں، نندوں کے بھابیوں پر مظالم، عورت عورت کی دشمن یا مرد باوفا یا عورت بے وفا جیسی کہانیوں کے چنگل سے نکلنا پڑے گا۔

یقین مانیں ہماری ڈرامہ انڈسٹری نے تو خوامخواہ رشتوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں، بھائی کو بھائی پر شک کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، دوستی جیسے رشتوں کو رسوا کر دیا گیا ہے۔ داماد،سسر کی جائیداد پر نظر رکھے ہوئے ہے، بیٹا باپ کا جانی دشمن بنا بیٹھاہے، بیٹی ساس کی جانی دشمن بن بیٹھی ہے۔ اور تو اور ہماری خواتین ایسی کہانیوں کواپنی حقیقی زندگی میں عملی جامہ پہناتے نظر آتی ہیں، مثلاََ اکثر خواتین جب ان ڈراموں سے فراغت حاصل کرتی ہیں تو ’’خاوند‘‘ حضرات انھیں کسی بھی فلم کے بدترین کردار کے طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں، جب کہ وہ خود کو ڈرامے کا سب سے مظلوم کردار تصور کرکے اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہیں۔

کئی احباب کا تو حال یہ ہوتا ہے کہ گھر میں موجود دور پڑے موبائل کو بھی وہ دیکھ لے اور بیگم کی نگاہ اُس غریب پر پڑجائے تو گھر میں بلاوجہ کی لڑائی کا آغاز ہو جاتا ہے، کیوں کہ بیگم یہی سوچ رہی ہوتی ہے کہ آیا اس نے موبائل کو بلاوجہ نہیں دیکھاہوگا، یقینا اسے کسی کے فون کا انتظار ہوگا۔

یعنی سمجھ سے باہر ہے کہ ہم کس کلچر کو پروموٹ کر رہے ہیں ؟اور پھر ہمارے ذہن ایسے بن گئے ہیں کہ ہم میں سے کئیوں نے ارطغرل کی کہانی کو بھی فراڈ سمجھ لیا ہے اور اسے ہم اب ترکی کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ جب ہم نے ایک چیز کو ’’ڈرامہ‘‘ کہہ دیا تو اس کو انجوائے کریں تاریخ کو پرکھیں خود کھوج لگائیں، کہ حقیقت کیا ہے۔ اور پھر اسے دیکھتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ یہ ایک ’’ڈرامہ‘‘ ہے اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں!لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اگر میزائلوں کے نام غزنوی، غوری، شاہین، بابروغیرہ رکھ سکتے ہیں تو ان کے ڈرامے کیوں نہیں بنا سکتے، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم کوشش ہی نہیں کرتے۔

21 ویں صدی میں بہانے تراش رہے ہوتے ہیں کہ جگہ نہیں مل رہی۔ حالانکہ اس دور میں آپ کو کسی رجسٹرڈ میڈیا ، پروڈکشن ہاؤس یا میگزین کی ضرورت نہیں ہے، یہاں آپ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، لیکن کام مثبت ہونا چاہیے، کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے، تاریخ وہی صحیح جانتا ہے جو تاریخ سے شغف رکھتا ہو، جسے تاریخ سے محبت ہو۔ لہٰذاپاکستان کے ڈرامہ نگاروں اور پروڈکشن کے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ انسانی دماغ تاریخ کو رنگوں کے ساتھ یاد رکھتا ہے، ناکہ لکھی پڑھی تاریخ انسان کو یاد رہتی ہے، اسی لیے ایسی کہانیاں ہمیں برسوں یاد رہتی ہیں جنھیں ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی کہانیاں تراشنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنا کلچر بھی پروموٹ کر سکیں اور پیسہ بھی کما سکیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔