بابر اعظم اور انگریزی میڈیم کرکٹر

سلیم خالق  بدھ 27 مئ 2020
انٹرنیشنل کرکٹ کے ریکارڈزمیں انگریزی میں مہارت نہیں بلکہ رنز اور وکٹیں لکھی جاتی ہیں یہ بات آپ سب اچھی طرح یاد رکھیں۔ فوٹو: فائل

انٹرنیشنل کرکٹ کے ریکارڈزمیں انگریزی میں مہارت نہیں بلکہ رنز اور وکٹیں لکھی جاتی ہیں یہ بات آپ سب اچھی طرح یاد رکھیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ایک کرکٹ آرگنائزر ہوا کرتے تھے، ماضی میں انھیں قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہونے کا موقع مل گیا، اس پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا، وہ کہتے کہ ’’بس اب زندگی بھر کیلیے مجھے سابق کی نئی شناخت مل جائے گی، 10 سال بعد بھی کہیں جاؤں گا تو لوگ کہیں گے کہ فلاں سابق آفیشل آ گئے، میڈیا بھی اسی حیثیت سے بلایا کرے گا‘‘ واقعی ان کی خوشی جائز تھی پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

آپ جیسے تیسے کر کے بس ایک میچ کھیل جائیں  پھر زندگی بھر بورڈ کی ملازمتوں، میڈیا میں تبصروں اور دیگر مراعات کے در کھل جائیں گے، المیہ یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ میرٹ پر چانس نہیں ملتا، کسی کو والد، چچا یا پھر ماموں کے طفیل کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ بغیر سفارش والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، بہت سے سابق کرکٹرز کو بورڈ میں ملازمت مل گئی جبکہ دیگر بڑے نام اپنے یوٹیوب چینلز بنا کر بیٹھے ہیں،لہذا ایک، دو میچ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی آج کل بڑی ڈیمانڈ ہے۔

ٹی وی چینلز کو کوئی اور نہیں ملتا تو ایسے ہی پلیئرز کو بلا لیتے ہیں، ایسے میں اگر آپ مسلسل تنقید کرتے رہیں، چیخیں چلائیں تو اسپورٹس اینکرز کی ترجیحی فہرست میں سب سے اوپر آ جاتے ہیں، ایسے ہی ایک کھلاڑی تنویر احمد ہیں، انھوں نے میڈیا میں اپنے تند وتیز انداز کی وجہ سے شہرت حاصل کر لی اور اب سب کی نبض پکڑ کر بیٹھے ہیں، انھیں پتا ہے کہ کون سی بات سب سے زیادہ پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں چلے گی وہ اسی پر بیان داغ دیتے ہیں تو وہ ہیڈ لائن بن جاتا ہے۔

بہت سے لوگ شہ سرخی سے اٹریکٹ ہو کر خبر دیکھتے ہیں اور پھرسوچتے ہیں کہ اس لیول کے پلیئر کا بیان اتنا بڑا کیسے شائع ہوگیا۔ ان دنوں پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا نام بابر اعظم ہیں، لوگ ان کے بارے میں پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں، بہترین پرفارمنس کی وجہ سے تعریفیں تو سب ہی کرتے ہیں لہذا تنویر نے نیا پوائنٹ سوچا، انھوں نے بیان داغ دیا کہ ’’بابر اعظم اپنی انگریزی اور شخصیت کو بہتر بنائیں‘‘ پاکستان سمیت بھارتی میڈیا نے بھی اسے خوب اچھالا اور بیچارے بابر کا نام خوامخواہ فضول حوالے سے سامنے آنے لگا۔

بدقسمتی سے پاکستان کا ایک طبقہ انگریزی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے،ایسے لوگ منہ ٹیڑھا کرکے بولتے بولتے خود کو آدھا انگریز سمجھنے لگتے ہیں،’’سوری آئی کانٹ ریڈ اردو‘‘، اس طرح کی باتیں کر کے خود کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گھر میں چاہے وہ پنجابی میں بات کریں مگر سوشل میڈیا پر ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے انگریز بھی ٹیوشن لینے ان کے گھر آتے ہیں، ایسے ہی لوگوں نے انگلش کو اسٹیٹس سمبل بنا دیا مگر ایک کرکٹر کا اس سے کیا لینا دینا۔

محمد یوسف ہوں یا انضمام الحق دونوں کو انگریزی پر عبور نہیں تھا مگر انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں ہزاروں رنز بنائے اور پاکستان کے ٹاپ بیٹسمینوں میں شمار ہوتا ہے،کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہاکہ انگریزی آنا اچھی بات نہیں، یقیناً اگر آپ اسے سیکھ لیں تو بہت کام آئے گی، مگر محض زبان کی وجہ سے کسی کرکٹر پر تنقید درست نہیں،شعیب اختر جیسا بندہ جس کے تنازعات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں وہ بھی بابر کو ’’مفت مشورے‘‘ دے رہا ہے، وہ بھارتیوں کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں مگر اپنے کپتان پر فضول میں تنقید کر رہے ہیں۔

شاید یہ جیلسی کا معاملہ ہو کیونکہ اب ہر جگہ بابر بابر ہی ہوتا ہے، وہ ابھی نوجوان ہیں، ان کا کام کرکٹ میں پاکستان کیلیے بہترین پرفارم کرنا ہے، وہ بہترین انداز میں ایسا کر بھی رہے ہیں، رہی بات انگلش کی تو وہ وقت کے ساتھ آ جائے گی، وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد اپنے ابتدائی دور میں پنجابی اور تھوڑی بہت اردو کے سوا کوئی زبان جانتے ہی نہیں تھے مگر آج آپ دیکھیں،کمنٹری بھی کرتے ہیں اور دیارغیر میں کوچنگ میں فرائض نبھاتے بھی نظر آئے ہیں، گذرتے وقت میں تجربہ حاصل کر کے انھوں نے سیکھا، بابر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔

انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کے مزید تجربات سے زبان پر بھی انھیں عبور حاصل ہوتا جائے گا، رہی بات شخصیت کی تو جیسے جیسے مزید ایکسپوڑر ملے گا وہ نکھرتے جائیں گے،اگر انگریزی پر عبور اور شخصیت ہی سب سے اہم ہے تو آپ اچھی انگلش کی وجہ سے شان مسعود اور شخصیت کی وجہ سے احمد شہزاد کو کپتان بنا دیں، یقیناً فی الحال ایسا نہیں ہوگا،اس لیے اہم یہی ہے کہ بابر اعظم کو اس حوالے سے اکیلا چھوڑ دیا جائے، وہ صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دیں، انگلش کلاسز اگر دلانا بھی ہیں تو اس کی تشہیر کیوں کر رہے ہیں۔

فی الحال تو انھیں کھیلنے دیں، ان کا کام لفظوں سے نہیں بیٹ سے کھیلنا ہے اور اس میں وہ مکمل مہارت رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اور کیا چاہیے، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں میں تو مقامی صحافیوں کے سوال بڑے بڑے کرکٹرز کے سروں سے باؤنسرز کی طرح گذر جاتے تھے،ایسے ٹورز میں صرف ایسے میڈیا منیجر کی ضرورت ہے جسے انگریزی میں مہارت حاصل ہو اور وہ بھی سوالات پر بغلیں جھانکتا نہ پھرے۔

صرف ایک بابر اعظم نہیں پوری ٹیم کے میڈیا سے گفتگو کے حوالے سے سیشنز رکھنے چاہئیں، جس میں صحافی ان کو اپنے تجربات سے مستفید کریں،مین آف دی میچ ملے تو کیسے بات کرنی ہے یہ بھی بورڈ ان کو بتایاکرے، اس کا غیرملکی ٹورز میں پلیئرز کو بہت فائدہ ہوگا، باقی کرکٹرز کو ان کی کرکٹنگ صلاحیتوں سے جج کریں، صرف انگریزی میں کم مہارت کی وجہ سے مذاق نہ اڑائیں، کسی کو یہ حق حاصل نہیں، بابر اگر اردو میں بھی بات کریں تو ان کا انٹرویو ہر زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوجاتا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ زبان نہیں اپنے شعبے میں مہارت کی اہمیت ہوتی ہے۔

سابق کرکٹرز سے بھی درخواست کروں گا کہ بھارتی میڈیا کو چٹ پٹا مواد فراہم نہ کریں،اگر ایسے مشورے دینے ہیں تو کال کر لیں یا واٹس ایپ پیغام بھیج دیں، اپنے ہیروز کی ہم خود عزت نہیں کریں گے تو دوسروں سے کیسے توقع کر سکتے ہیں،انٹرنیشنل کرکٹ کے ریکارڈز میں انگریزی میں مہارت نہیں بلکہ رنز اور وکٹیں لکھی جاتی ہیں یہ بات آپ سب اچھی طرح یاد رکھیں، ’’آئی ہوپ یو انڈراسٹینڈ‘‘۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔