چینی اسکینڈل اور اُس کی تحقیقات

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 27 مئ 2020
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

سال ِگزشتہ کے اواخر اور اِس سال کے شروع دنوں میں ہمارے یہاں چینی کا جو بحران آیاتھا اور جس کے نتیجے میں قوم کو فی کلو 30 روپے سے زائد کی قیمت ادا کرنی پڑی تھی اور جو 20 روپے کی صورت میں ابھی بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے، موجودہ ایماندار اور نیک حکومت کی اپنی کریڈیبلٹی کے لیے ایک بہت بڑا سوال بن چکی ہے۔ اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکل کر چینی مافیا کے کرتا دھرتاؤں کی جیبوں میں چلے گئے۔

چینی کا بحران ماضی میں بھی آتارہا ہے لیکن مالیت کے اعتبار سے یہ سب سے بڑا بحران ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی چینی کی قیمت 21روپے سے بڑھ کر اچانک چالیس روپے تک جاپہنچی تھی ۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ چینی اُن دنوں نہ صرف مہنگی ہوگئی تھی بلکہ نایاب بھی ہوچکی تھی۔ لوگوں کو بمشکل دوچار کلو چینی کہیں سے مل پاتی تھی۔ اُس وقت بھی حیران کن طور پر ایک ایسا شخص مشرف کابینہ کارکن تھا جو آج عمران خان حکومت میں بھی بہت اہم رول اداکررہاتھا، یہ اوربات ہے کہ آج کل چینی کے اِس بحران کے سامنے آجانے کے بعد اُس شخص کو سائڈ لائن کردیا گیا ہے۔

سال کے شروع میں جب آٹے کے بحران کے بعد چینی کے بحران نے بھی سر اُٹھانا شروع کیا تو چینی کی قیمت اچانک قابو سے باہر ہونا شروع ہوگئی۔ وفاقی حکومت اُس وقت یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی، اگر چاہتی تواُسی وقت اِس بحران کاسدباب کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا، مگر جب چینی کی قیمت فی کلو80روپے سے تجاوز کرگئی اور ہرطرف سے حکومت کوتنقید کاسامناکرناپڑنے لگا تو چاروناچار حکومت نے اِس بحران کی تحقیقات کا ڈول ڈال کر عوام کوتسلی دینا شروع کی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چینی کی قیمت کو فوراً اُسکی پرانی سطح پرلایا جاتا اورساتھ ہی ساتھ تحقیقات بھی کروائی جاتی لیکن نہیں صرف تحقیقاتی کمیشن بٹھا کر عوام کو ہر مہینے 400سے 500 ارب روپے تک کانقصان اُٹھانے کاعادی بنادیا گیا۔

چینی اورآٹے کی مہنگائی کے سبب ہمارے لوگوں کو کس طرح ایک نئی مصیبت میں ڈال دیاگیا اِس کااندازہ تو صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے عوام کی مشکلات کا کوئی احساس ہو۔آج گرچہ تحقیقاتی کمیشن کی روپورٹ منظر عام پر آچکی ہے اوراُس پرعوامی حلقوں میں بڑی لے دے ہورہی ہے۔ اپوزیشن اِسے مکمل طور پر یہ کہ کر رد کرچکی ہے کہ اِس رپورٹ میں بحران کے اصل ذمے داروں کا تعین ہوا ہی نہیں جب کہ حکومت اِس تحقیقات کا کریڈٹ یہ کہہ کر لے رہی ہے کہ یہ ہماری تاریخ میں پہلی بارہوا ہے کہ کسی حکومت نے خود اپنے لوگوں کے خلاف کوئی تحقیقات کروائی ہے۔

تحقیقاتی کمیشن نے بھی اپنی تحقیقات کاسارا زور صرف چینی کی برآمد اور اِس مقصد سے دی جانے والی سبسڈی پرہی رکھاہے،جب کہ چینی کی قیمت اچانک بڑھ جانے اورعوام کو فوری ریلیف دینے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چینی حقیقتاً برآمد ہوئی بھی یا نہیں۔ جس زر مبادلہ کی خاطر چینی کے مل مالکان کو چینی برآمد کرنے کی اجازت ملی تھی اوراِس پر سببسڈی بھی دی گئی تھی وہ زرمبادلہ حاصل ہوابھی یا نہیں۔ یاصرف افغانستان کی ٹریڈنگ دکھاکر قومی خزانے کو اربوںروپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔افغانستان کے ساتھ ہونے والی ٹریڈنگ آج تک اتنی غیرواضح اور مبہم ہے کہ کوئی یہ ثابت ہی نہیں کرسکتا کہ اُس تجارت کے ذریعے ہمارے ملک کو کتنازرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

چینی چوروں کے لیے یہ سب سے آسان ذریعہ تھا کہ ایکسپورٹ بھی دکھادی جائے اورسبسڈی بھی حاصل کرلی جائے۔اِن سب چال بازیوں کے باوجود قوم تمام زیادتیاں برداشت کرنے کوتیار ہے اگر چینی کی قیمت اِس وجہ سے نہ بڑھتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ چینی سرپلس دکھا کر برآمد کرنے کی اجازت تولے لی گئی لیکن دہرا فائدہ اُٹھانے کی غرض سے اِس ایکسپورٹ کی آڑ میں چینی کی شارٹیج بھی پیداکردی گئی اوریوں چینی کی قیمت اپنی مرضی سے 52 سے بڑھاکر 80روپے کی آس پاس پہنچادی گئی۔

جب عوام کی طرف سے شور اُٹھنے لگاتو احسان کے طور پر موصوف مل مالک نے حکومت کے ہاتھوں ہی چینی 70روپے میں فروخت کرنے کا کریڈٹ بھی اپنے نام کر دیااوریوں ایکسپورٹ کے بہانے سبسڈی کا فائدہ بھی اُٹھالیااورساتھ ہی ساتھ اپنے گوداموں میں ذخیرہ کی گئی چینی منہ مانگے دام فروخت کرکے عوام پر احسان بھی کردیا،ذہانت اورقابلیت اِسی کانام ہے۔جو جتنا شاطر اورچالاک ہوگا وہی ذہین اورہشیار بھی کہلائے گا۔

چینی کے بحران کو آئے ہوئے چھ ماہ سے زائد کاعرصہ بیت چکا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد حکومت نے معاملہ نیب کے سپرد کردیا ہے۔ اب نیب کب فیصلہ کرتا ہے یہ شاید اگلے چھ ماہ میں طے ہوگا، مگراِس سارے عرصے میں چینی کی قیمت کم کرنے کی کوئی تجویز حکومت کے زیرغور نہیں ہے۔حکومت اِس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ چینی کی قیمت نیب تعین نہیں کریگا، یہ صرف حکومت کا ہی استحقاق ہے۔حکومت اگر اپنے قول وفعل میںمخلص ہوتی تو چینی کی قیمت کبھی کی واپس 52روپے ہوجاتی۔ عوام صرف یہی چاہتے ہیں۔ انھیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت مل مالکان سے کس طرح کاسلوک کرتی ہے۔

چینی مافیا ہمیشہ سے طاقتور ہی رہی ہے۔ ہرحکومت میں اِس مافیا نے اپنا کام کردکھایا ہے۔ ماضی میں بھی چینی کی قیمت جعلی بحران پیداکرکے بڑھائی جاتی رہی ہے، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنے پچھلے دورحکومت میں اِس مافیا کو من مانی کرنے نہیں دی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اُس کے پورے پانچ سالوں میں چینی کی قیمت کبھی کسی وجہ سے بڑھائی بھی گئی تو فوراً اِس کاسدباب کرکے واپس 52روپے کے آس پاس لایا بھی گیا، مگر موجودہ حکومت ابھی تک اپنی پارسائی کے تمام دعوؤں کے باوجود اُسے کم کرنے کے کسی فارمولے پرغوربھی کرنے کوتیارہی نہیں۔

وہ صرف اِس بات کاکریڈٹ اپنے ماتھے پرسجانے پرمصر ہے کہ دیکھو یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف تحقیقات کروائی ہے،اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔ نہ وہ اِس بحران کے اصل کرداروں کو سزا دینے کاسوچ رہی ہے اورنہ عوام کو کوئی ریلیف دینے پرغور کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔