بندے اوربندر

سعد اللہ جان برق  جمعرات 28 مئ 2020
barq@email.com

[email protected]

آدمی جھوٹ بولے تو چھوٹے موٹے ’’پرچون‘‘ میں جھوٹ بولنے کے بجائے کوئی ’’بڑا‘‘ جھوٹ بولنا چاہیے کہ سن کو لوگ ناطقہ سربگریباں اورخامہ انگشت بدنداں نہ سہی کم ازکم حیران وپریشان تو ضرور رہ جائیں کہ ہاں جھوٹ اسے کہتے ہیں۔

سنا ہے بولے تو باتوں سے ’’جھوٹ‘‘ جھڑتے ہیں

یہ بات ہے توچلو بات کرکے دیکھتے ہیں

چنانچہ ہم بھی ’’نقل جھوٹ،جھوٹ نہ باشد‘‘ کے مصداق سقراط کی نقل کرتے ہوئے یہ انکشاف کررہے ہیں کہ ہم نے ساری عمر میں یہ جانا ہے کہ یہ جو انسان ہے یہ بندے (بند۔ے) کاپتر تو بالکل بھی نہیں بلکہ اب تو اس کے بندر (بند۔ر) کے پتر ہونے میں بھی شک ہے کیوں کہ یہ اپنے جن تین اجداد کاذکر کرتا ہے، ان کاایک گن بھی اس میں نہیں۔ان کے مفروضہ تین اجداد جن میں سے ایک نے اپنی آنکھوں پر دوسرے نے اپنے کانوں اورتیسرے نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ان کی نصیحت یاوصیت کے بھی یہ سراسر خلاف عمل کر رہا ہے۔

بولتا اتنا ہے کہ اگر بولنے سے انسان کا وزن کم ہوتا تو یہ آج چیونٹی بلکہ کورونا وائرس سے بھی چھوٹا ہوچکا ہوتا۔ دیکھتا اتناہے کہ دوآنکھیں ناکافی سمجھ کران پرچشمہ اوردوربین خوردبین بھی نہیں لیتاہے اورسنتا تو دیوار سے بھی زیادہ ہے۔ جہاں تک ان اجدادکی وصیت یانعمت کے ساتھ ’’برا‘‘ لگانے کا معاملہ ہے تو یہ بھی اس کاایک جھوٹ ہے ۔ان تین اجداد کی کس حرکت سے ’’برا یااچھا‘‘ کے معنی نکلتے ہیں انھوںنے صاف صاف ان تین ’’ضابطہ شر‘‘ پر ہاتھ رکھ کر کہاہے کہ ان تینوں کو بندر رکھو، بندرکی اولاد یا بند رکہیں کے۔

ہودید کاجوشوق توآنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

بہرحال ہماری نقلی دانش کاخلاصہ یہی ہے کہ یہ جو خود کو ’’بندے‘‘کاپتر کہتاہے، بندے کاپتر تونہیں ہے لیکن ڈھنگ سے ’’بندر‘‘ کا پتر بھی نہیں ہے کہ ان اجداد پر یہ ذرہ بھر بھی نہیںگیاہے بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ایک کتاب ’’بندے کابندرنامہ‘‘ یابندر کابندے نامہ میں لکھاہے کہ ایک مرتبہ ایک بندر کسی انسان کے ہاتھ لگا تو اس نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا، اپنا دورکاعزیز سمجھ کر لیکن کچھ ہی دنوں میں وہ (بند۔ر) اس (بند۔ے) کی صحبت سے اتنا تنگ آگیا کہ رسہ توڑ کر جنگل کو بھاگ نکلا۔وہاں سارے عزیز اس کے گرد جمع ہوکر اس سے انسانی دنیا کی تفصیلات سنتے رہے۔

ان میں سے ایک بندر نے اس سے پوچھا کہ سناہے یہ بندے۔ خود کو ہمارے یعنی بندر کا عزیز بتاتے تھے۔اس بندر نے تصدیق کی تو سارے بندر ایک دم طیش میں آکربولے ، اچھا اب یہ بندے کاپتر اتنا ہوگیاہے کہ ہم بندروں کی ہمسری کرنے لگاہے ؟ یہ خود کو سمجھتا کیاہے جوہم جیسے شریفوں کی ہمسری کرنے چلاہے۔

کیاکسی بندر نے کسی دوسرے بندر کو کبھی ماراہے؟ کیاکبھی کسی بندر نے دوسرے کو لوٹا  ہے؟ کیاکسی بندر نے کبھی کسی دوسرے بندر کاحق چھینا ہے ؟ اس کی برائی کی ہے، اسے روکا یاٹوکاہے کیاکبھی بندر نے کسی بندریاکو ماراپیٹا یابیچا خریداہے؟ اسی کتاب بندر کے بندے نامے یابندے کے بندر نامے میں لکھاہے کہ ’’بندے‘‘ کی اس حرکت کاسن کر بندروں نے جنگل میں سارے جانوروں کی ایک آل پارٹیزکانفرنس منعقد کی اورسب نے متفقہ طور پر ایک عبوری پنچایت یافل پنچایت بناکر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ’’بندے‘‘ پرغائبانہ کارروائی شروع کردیا۔

حیوانوں کی پنچایت نے شنوائی کی ،تمام حیوانوں کے بیانات ،وکیلوں کے جھوٹ اورتمام ثبوت ملاحظہ کرکے اسی وقت ’’ٹل ڈیتھ‘‘ پھانسی دینے کی سزا سنا دے دی۔

کتاب کے اس آخری جملے سے صاف پتہ چل جاتاہے کہ یہ کتاب کسی حیوان یا(بند۔ر) نے نہیں لکھی بلکہ کسی بندے ۔نے بندر بن کرلکھی ہے۔

خیر ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کتاب  بندے نے لکھ کر بندر کے متھے ماری ہے یابندے نے لکھ کر اپنے (بند۔ر) ہونے یا (بند۔ہ) نے اپنے بندہ ہونے کاثبوت دیاہے۔ ہمیں تو اپنی تحقیق سے کام ہے اور ہماری تحقیق یہ ہے کہ بندے ۔نہ تو (بند۔ے) کے پتر ہیں اورنہ (بند۔ر) کے بلکہ صرف اپنے پتر ہیں اور ہو بہو اپنے آپ پرگئے ہیں اوراس بات کاسب سے بڑا اورپکا ثبوت یاپرمان یا پروف یہ ہے کہ بندے نے نہ تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھاہے، نہ آنکھوں پر اورنہ کانوں پر ورنہ دنیا میں اتنا شور ،زور اورچور نہ ہوتا جس سے بندے بھاگ کر جنگل میں چلے گئے اوربندر آکر شہروں میں بس گئے ۔جنگل امن کے گہوارے اورشہر بدامنی کے فوارے ہوگئے۔اوراب توکورونا عرف کووئڈ انیس نے بھی ہماری بات کو ثابت کردیا کہ بندہ جتنا بندے سے دوررہے گا، محفوظ رہے گا اورجیسے ہی چھ فٹ سے زیادہ قریب ہوا ماراگیا۔

کس درجہ تراحسن بھی آشوب جہاں

جس ذرے کو دیکھا وہ تڑپتانظر آیا

یہاں پرہمیںاپنے پیرومرشد کی کرامت کاقائل ہوناپڑتاہے کہ ان کی نگاہ کتنی دوربین اور خوردبین تھی کہ دوربین اورخوردبین کی ایجاد سے صدیوں پہلے انھوں نے دیکھ لیاتھاکہ

دہن شیریں جابیٹھے لیکن اے دل

نہ کھڑے ہوجئیے انسان دل آزاد کے پاس

بلکہ کووئڈ بردار کے پاس ۔خطرہ ’’نائین ہزار ٹانئٹین سو نائنٹین والٹ‘‘ گویا چلتی پھرتی موت بلکہ موت کا کنواں بھی دھواں بھی اورہواں اورہیاں بھی۔

ہمیں پتہ تھا اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ انسان جو نہ بندے کاپتر ہے نہ بندر کا اورصرف اپنے اندر کاپتر ہے، یہ طرح طرح کے ہتھیار اوربم بناتے بناتے ایک دن خود کو ایک ایسا بم بنالے گا جو پھٹے بغیر بھی لوگوں کابھٹہ بٹھانے لگے گا اورہوا بھی وہی ۔اس دنیا میں اورکونسا ایسا بم ہے ،گولی گولہ ہے، تیرہے، تفنگ ہے جو اپنے قریب آنے والے کو چھ فٹ کے فاصلے سے مارڈالے گا، وہ بھی بغیر پھٹے اورچلے۔

معاف رکھیے اس جانور کانام تو ہم نہیں لیں گے جو خارش زدہ ہوجاتاہے،مرغیوں کے اس مرض کانام بھی نہیںلیںگے جن کوفوراً زندہ یامردہ دفن کرناضروری ہوجاتاہے اورکفن دفن تو ’’ گور‘‘ میں بھی ہوسکتی ہے اورکور میں بھی ۔رحمان بابا کی بہ بات بھی سچ ثابت ہوگئی ہے، ظالم انسانوں کی وجہ سے گھر، گوراورپشاورایک جیسے ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔