’’پختون ولی‘‘ کیا ہے؟

روخان یوسف زئی  اتوار 31 مئ 2020
پختونوں کے معاشرتی طرز زندگی اور ضابطہ اخلاق کے بنیادی اصول ۔  فوٹو : فائل

پختونوں کے معاشرتی طرز زندگی اور ضابطہ اخلاق کے بنیادی اصول ۔ فوٹو : فائل

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ کی حامل پختون قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جغرافیے کی تقسیم درتقسیم حد بندیوں کے باوجود ثقافتی طرز پر ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

دریائے آمو اور دریائے سندھ (اباسین) کے درمیان رہتے ہوئے پختونوں کے مختلف قبائل، مختلف رسم ورواج اور روایات کے باوجود ایک ہی قومی دھارے اور ثقافتی تہذیبی دائرے میں اپنی اپنی مخصوص قبائلی شناخت کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اور اس دھارے اور دائرے کو ’’پختون ولی‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ان کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، قانون، آئین اور قومیت کی اصل روح اور مادی قوت پنہاں ہے۔

پختون ثقافت اسی ضابطۂ اخلاق (code of life) کا عملی اظہار ہے، اور ان کی زبان پشتو اس کے ابلاغ، پھیلاؤ اور ترقی وترویج میں بنیادی کردار کا سب سے اہم حوالہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو نہ صرف اظہار وبیان کا ذریعہ اور وسیلہ ہے بلکہ پوری سماجی، نفسیاتی، ثقافتی زندگی، ضابطہ اخلاق اور تہذیبی تاریخ کو بھی ’’پختو‘‘ کہا جاتا ہے جو اسے دنیا کی دیگر زبانوں سے ممتاز کرتی ہے کیوں کہ پشتو زبان بھی ہے اور سماجی وثقافتی اعتبار سے ایک ضابطہ اخلاق اور قانون بھی ہے، جو پختونوں کی قومی وتہذیبی زندگی کی عکاس اور ترجمان ہے۔

لہٰذا ’’پختون ولی‘‘ پختونوں کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ایک ایسے ضابطے اور آئین کا نام ہے، جس کی روشنی میں ان کی سماجی اور تہذیبی زندگی کے تقریباً تمام پہلو کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور اس ضابطہ حیات میں ان کی طرززندگی، سیاست، ادب، ثقافت، تہذیب یہاں تک کہ مذہب بھی شامل ہے۔ یہ ضابطہ اس قدر مضبوط ہے کہ اگر کوئی پختون اس کی اقدار و روایات سے روگردانی کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اس پر لعن طعن کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی سے کوئی غیراسلامی وغیرشرعی حرکت بھی سرزد ہوجائے تو اس کی اتنی پروا نہیں کی جاتی جتنا سخت نوٹس ’’پختون ولی‘‘ سے انحراف یا روگردانی پر لیا جاتا ہے۔

گوکہ دنیا کے دیگر اقوام بھی اپنا اپنا منفرد ضابطہ حیات رکھتا ہے، اور بیش تر اقوام چند ایسے منفرد اصول اور ضابطے رکھتی ہیں، جس کی وہ پابند ہوتی ہیں، مگر ’’پختون ولی‘‘ کے جو اصول، سانچے اور ضابطے ہزاروں سالوں سے متوارث چلے آرہے ہیں۔ ہر پختون ان اصولوں، سانچوں اور ضابطوں پر عمل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے، تاکہ معاشرے کے طعنوں اور باتوں سے بچا رہے۔ اگر کسی پختون کو کوئی یہ کہے کہ آپ افغان نہیں ہو تو شاید شعراء، ادبا اور دانشوروں کے علاوہ اس موضوع پر کوئی اس بندے سے بحث وتکرار نہ کرے، اسی طرح اگر اسے کہا جائے کہ آپ تو روھی، سلیمانی یا پٹھان نہیں ہو تو اس کا بھی اتنا برا نہیں مانے گا۔

تاہم اگر کسی پختون سے یہ کہا جائے کہ تم تو سرے سے پختون ہی نہیں ہو یا تم تو ’’پختو‘‘ اور ’’پختون ولی‘‘ سے عاری ہو تو حقیقت یہ ہے کہ وہ اس بات پر اسی وقت الجھ پڑے گا کہ اس قسم کے الفاظ وہ اپنے لیے ایک بہت بڑا طعنہ سمجھتا ہے، کیوںکہ ’’پختو‘‘ اور ’’پختون ولی‘‘ کو وہ اپنا ایمان سمجھتا ہے۔ اس قسم کے اصولوں سے بنا ہوا ضابطہ دراصل ایک ایسا قالب ہوتا ہے جو کسی قوم کو جداگانہ حیثیت بخشتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم ظاہری اور باطنی طور پر ایک دوسرے سے منفرد ہوتی ہے، اور ہر قوم چند ایسی اقدار رکھتی ہیں جو دیگر قومیں نہیں رکھتیں، اور انہی منفرد اقدار وروایات اور رسم ورواج سے اس قوم کی پہچان ہوتی ہے، پختون قوم بھی بیشتر ایسی منفرد اقدار، رسم ورواج اور روایات رکھتی ہیں، جن کی بدولت اسے دنیا کے دیگر اقوام سے ایک جداگانہ حیثیت اور شناخت دی جاسکتی ہے اور جیسا ذکر کیا گیا کہ ان منفرد اقدار، روایات، رسم ورواج، اجتماعی نفسیات اور میراث پر مشتمل مجموعہ کو ’’پختون ولی‘‘ کہا جاتا ہے۔

اور یہ ’’پختون ولی‘‘ پختونوں کے مجموعی طرزعمل میں ظاہر ہوتا ہے، اور یہ طرزعمل پختون سماج کے ان بنیادی اداروں سے متعین ہوتا ہے، جنہیں ہم اقدار، روایات، رسم ورواج، معیشت، فنون وہنر، سیاست، زبان، علم وغیرہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ بنیادی ادارے معاشرے کی فکر اور اس فکر سے پیدا شدہ اقدار ومعیار کا نتیجہ ہیں جو بحیثیت مجموعی معاشرے کے طرزعمل کو متعین کرتے ہیں۔ ان میں بہت سے تصورات، معیار اور اقدار ایسے ہیں جو ہمیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملے ہیں۔ بہت ایسے ہیں جو کسی دوسری قوم کے اختلاط سے حاصل ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو گردوپیش کے طبعی حالات اور آب وہوا کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو معاشرے کے تاریخی بہاؤ میں ترقی یا تنزل کی حالت میں پیدا ہوگئے ہیں۔

یہی وہ عوامل ہیں جن کے سمجھنے سے کسی قوم کی ثقافت اور تہذیب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر پختون جو اپنی جو اپنی تہذیب وثقافت میں زندگی گزارنا چاہتا ہو اسے ان قدروں کا پاس رکھنا پڑتا ہے جو ’’پختون ولی‘‘ میں فرض کا درجہ رکھتے ہیں۔ پختون کردار کی سینہ بسینہ ایک روایتی تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ لفظ پختو پانچ حروف سے بنا ہے جس میں کردار کے لحاظ سے ’’پ‘‘ سے مراد ’’پت‘‘ہے۔

پت کے معنی ہیں عزت وناموس، حرف ’’خ‘‘ یا خین) کا مطلب ہے ’’خیگڑہ‘‘ یعنی نیکی، خیر، مدد اور احسان کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حرف ’’ت‘‘ ہے جس سے مراد ہے ’’تورہ‘‘ تورہ پشتو میں تلوار کو بھی کہتے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر تورہ کا مطلب شجاعت، بہادری اور دلیری کے ہیں، حرف ’’و‘‘ وفا کے لیے ہے وفا ووفاداری پختونیت سے مشروط ہے جو دوستی میں راستی کی صفت کو ظاہر کرتی ہے، حرف ’’ن‘‘ ننگ کے لیے ہے۔ ننگ پشتو میں غیرت کو کہتے ہیں اگر ان اوصاف اور خصوصیات کو مدنظر رکھا جائے تو پختون کہلانے کا مستحق وہ شخص ہوسکتا ہے جو ان اوصاف کا حامل ہو حقیقی پختون یا پشتون میں اس قسم کے اوصاف ضروری سمجھے جاتے ہیں جو بھی ان اوصاف سے عاری ہو اس کے لیے کسی پختون معاشرے میں زندگی بسر کرنا مشکل ہوجاتا ہے یا اگر ان کے بغیر رہتا بھی ہو تو اصطلاح میں اسے موذی کہتے ہیں۔ اور پشتو میں موذی ایک قسم کی گالی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتون ثقافت میں لوگ اس طعنے سے بچنے کے لیے پشتو کی قدروں کا پاس رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

پشتو کی ان قدروں کی تاویل وتفسیر کی گئی ہے۔ پشتو ایک فلسفہ ہے، ایک اخلاقی نظام ہے۔ اس اخلاقی نظام میں نیک وبد کا اپنا ایک تصور ہے جو اگرچہ اسلام کے اصولوں سے بھی کئی سرحدوں پر ملتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اکثر خصوصیات پشتو کی ایسی ہیں جو انفرادیت کے بھی حامل ہیں اور ممتاز بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر آفاقی حیثیت نہ بھی رکھتے ہوں تو پھر بھی آفاقیت کے قریب ضرور ہیں۔ اس لیے کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ پختونوں کی سرزمین پر مسلط عالمی جنگوں، بیرونی مداخلت، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، ثقافتی یلغاروں اور عالم گیریت کے اثرات کی وجہ سے پختون ولی میں کچھ منفی اثرات بھی نفوذ کرچکے ہیں، خیر وشر کے فطری اثرات سے بھی پشتو مبرا نہیں، لیکن ایک معاشرے کے اخلاقی نظام کے طور پر اصل پشتو اپنی نوعیت میں مثبت اقدار کی حامل ہے۔

اعلیٰ انسانی صفات سے مزین کردار کا تصور پشتو کا اخلاقی فلسفہ ہے۔ بقول پروفیسر پریشان خٹک (مرحوم) کہ پشتو مردانگی ہے اور مردانگی پشتو ہے۔ پشتو خدمت انسانیت کا نام ہے۔ پشتو میں تکبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پشتو میں ظلم کا تصور نہیں ہے۔ کم زوروں کے ساتھ زورآزمائی پشتو نہیں ہے۔ پشتو میں مظلومیت بھی نہیں ہے۔ پشتو اپنے قول پر برقرار رہنا اپنی بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اپنے وعدے کو نبھانا اور ایفا کرنا ہے۔

پشتو غنا ہے، پشتو استغنا ہے، پشتو میں مانگنا نہیں ہوتا، پشتو قناعت ہے، پشتو حق کی حمایت ہے پشتو میں ناروا نہیں ہے اور نہ ہی ناروا پشتو ہے۔ پشتو صبر کا نام ہے پشتو حوصلہ مندی ہے، پشتو برداشت کا نام ہے، پشتو کام کرنا ہے پشتو محنت کرنا ہے، پشتو جہد مسلسل ہے، جدوجہد پشتو کی صفت ہے جس پر پشتون تفخر کرتے ہیں اور پشتون کی ستائش اس سے ہوتی ہے۔

سستی بے کاری پشتونیت کا متضاد ہیں۔ پشتو دین، ملک اور عوام کی خدمت ہے، پشتو سچائی ہے پشتو خیانت نہیں ہے پشتو میں دغا نہیں ہے، پشتو میں دھوکا بازی نہیں ہے، پشتو میں چوری نہیں ہے، پشتو میں لوٹ نہیں ہے، پشتو میں ظالم نہیں ہے، پشتو مظلوم کی حمایت ہے، چور ڈاکو اور خائن کے خلاف آواز بلند کرنا یا ان کو پکڑنا پشتو ہے۔ پشتو صداقت کا نام ہے، پشتو میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ جھوٹ پشتونیت کی ضد ہے، یہ پشتون کے شان کے خلاف ہے کہ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لے، پشتو ہر کسی کے سامنے سچ بولنے کا نام ہے، پشتو جوانوں کی وجاہت اور لڑکیوں کی خوب صورتی ہے۔ پشتو زیور ہے پشتو مردوں کی پگڑی اور عورتوں کی چادر ہے۔ پشتو عورتوں کی عفت اور پردہ ہے۔ اس قسم کے بے شمار اعلیٰ اخلاقی تصورات پشتو سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔

ہر معاشرے کا اپنا ایک سماجی نظام ہوتا ہے۔ یہ نظام زندگی کی راہوں کے تعین کا جو بندوبست کرتا ہے وہ چند اخلاقی قدروں پر قائم ہوتا ہے۔ ان اقدار سے اگر ایک طرف کسی قوم کی اجتماعی زندگی نفسیات اور رجحانات کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف کسی قوم کے تشخص اور شناخت کی تصویر بھی اسی سے بنتی ہے۔ ’’پختون ولی‘‘ پختون تمدن وثقافت کا نام ہے، اس ثقافت کے اپنے قاعدے اور قوانین ہیں، یہ قاعدے اور قوانین پشتو زبان کی ان اصطلاحات کے ذریعے پہچان رکھتے ہیں جو زندگی کے مختلف امور سے متعلق ہیں۔ ہر اصطلاح اپنے معانی میں کسی قانون یا رسم ورواج کی تشریح وتعریف رکھتی ہے۔ پشتو زبان میں ہر رسم اور ہر قانون ان اصطلاحات کے ذریعے پختونوں میں جانا جاتا ہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ پختون ولی ایک ناتحریر شدہ آئین کی حیثیت رکھتی ہے تو اس لیے بھی کہ یہ صرف پشتو زبان میں زندہ ہے۔ جن لوگوں نے ’’پختون ولی‘‘ کے بارے میں پڑھا ہے وہ ان چند خصوصیات کے متعلق متفق ہیں جن میں ایک ’’میلمستیا‘‘ (مہمان نوازی) ہے جس میں اکثر اوقات میزبان اپنی اوقات سے بڑھ کر مہمان کے لیے کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ مہمان کا میزبان کے حجرے یا گھر میں داخل ہونے سے میزبان پر مہمان نوازی فرض ہوجاتی ہے۔ یہ مہمان نوازی شادی بیاہ اور کسی کی وفات کی رسم وراج کے وقت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ مہمان نوازی کے ساتھ پختون ولی میں ایک اور اہم جز ’’پناہ‘‘ دینا ہوتا ہے۔ پناہ ہر اس شخص کو دینا فرض ہوجاتا ہے جو پناہ دینے کی درخواست کرے۔

اور کسی کی پناہ میں رہ کر اس کا ’’ہمسایہ‘‘ بن جاتا ہے، مگر پناہ لینے والے کو اس علاقے اور قبیلے کے معاملات میں فیصلے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پختون ولی میں ’’پناہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جب کوئی مظلوم کسی ظالم کی زور زیادتی سے تنگ آکر پختونوں کے کسی علاقے یا گاؤں اور قبیلے کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے تو گویا اس نے پناہ حاصل کی اور اپنی حفاظت مانگی۔ اس حفاظت اور بچاؤ کو پناہ کہا جاتا ہے۔ پناہ لینے والا کسی گاؤں، قبیلے اور علاقے میں پناہ حاصل کرلے پھر وہاں کے لوگوں کا فرض اور غیرت کا تقاضا گردانا جاتا ہے کہ پناہ لینے والے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ اس کی خاطر پناہ دینے والا شخص اور قبیلہ اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ بڑی بڑی دشمنی اپنے سر لیتا ہے مگر پناہ لینے والے کی حفاظت کرتا ہے پناہ دینے میں بھی مہمان نوازی کی طرح کسی رنگ ونسل زبان اور مذہب کے امتیاز سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔

اس طرح ایک دوسرا اہم جز پختون طرز زندگی میں ’’بدل‘‘ (انتقام) ہوتا ہے۔ عام اصطلاح میں بدل سے مراد انتقام لیا جاتا ہے، تاہم بدل اپنے اعلیٰ معنوں میں شریعت موسوی کی مانند ایک معاشرتی نظام عدل کا نام ہے ’’بدل‘‘ کے معنیٰ کو صرف خونی انتقام تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے جیسے کہ عام لوگوں کا خیال ہے اور جس کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ بدل صرف آنکھ کے بدلے آنکھ کا نام نہیں بل کہ دوستی اور سماجی زندگی کے لین دین میں اچھائی کے بدلے اچھائی اور احسان کے بدلے احسان کو بھی کہا جاتا ہے یا کسی کو اس کی شادی کے موقع پر کوئی تحفہ دے یا کسی آڑے وقت میں کسی کی مدد کرے تو وہ پھر اسے اپنے اوپر ایک قرض سمجھتا ہے اور کہتا ہے ’’دفلانی پہ ما بدل پور دے‘‘فلاں کا مجھ پر بدل قرض ہے۔

پختونوں کے معاشرے میں ’’جرگہ‘‘ نظام نے گاؤں محلے کے چھوٹے چھوٹے معمولی تنازعات سے لے کر قبیلے اور علاقے کے بڑے بڑے سنگین مسائل اور دشمنیوں تک کو بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنے کا بہترین فریضہ سرانجام دیا ہے۔ آج بھی اس کی اہمیت اور طاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم پختون قوم اس وقت تین حصوں (خیبرپختون خوا، بلوچستان اور افغانستان) میں تقسیم ہے اور ایک الگ الگ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے تلے زندگی گزار رہی ہے۔ اسی الگ الگ قانون اور نظام کے زیراثر جرگہ نظام کی اپنی اصل روح اور شکل پر بھی کچھ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جس طرح آج ملک کی عدالتیں، تھانے، کچہریاں اور دیگر دفاتر و ادارے رشوت و سفارش کے نرغے میں ہیں۔ اس طرح بعض علاقوں میں جرگہ کرنے والے یا ماہرین جرگہ بھی باقاعدہ پہلے اپنی فیس کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آج کے اکثر جرگوں میں جرائم پیشہ اور بدمعاش قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس قسم کے جرگہ کرنے والے سنگین سے سنگین نوعیت کا مسئلہ اور تنازعہ باقاعدہ ٹھیکے پر لیتے ہیں۔

جرگہ اور حجرہ پختونوں کی زندگی میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں اور دونوں روایات کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جن جن علاقوں میں جرگہ اور حجرہ اپنی اصل روح اور جواہر کے ساتھ موجود اپنا کردار نبھا رہے ہیں وہاں دیگر علاقوں کے مقابل جرائم، قتل و غارت، ڈاکا زنی اور اغواء جیسے جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ پختونوں کا جرگہ نظام جمہوریت، عدل و انصاف اور اظہار رائے کی آزادی کا ایک بہترین فورم ہے۔ جرگہ نظام کے ساتھ دو رسمیں اور بھی ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ان میں ایک دستور کا نام ’’ننواتے‘‘ (کسی کے گھر میں داخل ہونا) ہے ۔ اپنی کسی غلطی پر پشیمان ہونے، کسی کا عذر کے ساتھ کسی کے پاس جانے یا اپنے مخالف کے گھر معافی مانگنے کیے لیے جانے کو پشتو میں ’’ننواتے‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے ’’ننواتے‘‘ کو تسلیم کرنا، آنے والے کو بخش دینا بھی ایک دستور ہے۔ اس دستور کے ذریعے بڑے بڑے جرائم اور قتل جیسے سنگین گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ ’’ننواتے‘‘ میں اکثر علاقوں میں اپنے ساتھ دنبہ یا بکرا بھی ساتھ لے جایا جاتا ہے اور جب ننواتے منظور ہوجاتی ہے تو اس جگہ دنبہ یا بکرا ذبح کرکے مشترکہ طور پر کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس طرح جب خواتین اپنے کسی مخالف کے گھر بطور ننواتے جاتی ہیں تو اپنے ساتھ قرآن پاک بھی سر پر رکھ کر جاتی ہیں۔

دوسرے متعلقہ دستور کو ’’تیگہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تیگہ پشتو میں پتھر کو کہا جاتا ہے۔ جب جرگہ دو فریقین کی آپس میں صلح کرانا چاہے تو بیچ میں ’’تیگہ‘‘ رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک علامتی پابندی ہوتی ہے کہ آپ دونوں اس وقت تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے جب تک جرگہ کا یہ فیصلہ سامنے نہیں آجاتا ۔ تیگہ کی خلاف ورزی کی جائے تو جرگہ خلاف ورزی کرنے والے فریق سے مقررہ جرمانہ بھی وصول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے علاقہ بدر بھی کیا جاتا ہے اور اس سے قطع تعلق بھی کیا جاتا ہے جب کہ فیصلہ متاثرہ فریق کے حق میں دے دیا جاتا ہے۔ تیگہ کی روایت کو اب بعض علاقوں میں دورجدید کی اصطلاح میں عارضی جنگ بندی، فائر بندی (جسے پشتو میں ڈز بندی کہتے ہیں) جیسے نام دیے گئے ہیں۔

’’حجرہ‘‘ آپ جیسے ہی قبائلی معاشرے میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ کی نظر ایک بڑی عمارت پر پڑتی ہے عام طور پر مٹی اور پھتروں کی بنی اس عمارت میں ایک بڑا اور وسیع وعریض کمرا اور ایک میدان ہوتا ہے جس میں جگہ جگہ چارپائیاں بچھائی جاتی ہیں اور تکیے لگے ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے قبائلیوں کا کلب اور کمیونٹی سینٹر ہوتا ہے اسے حجرہ کہتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے مذکورہ کیمونٹی سینٹر یا کلب سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے کچھ تحریری رواج نہیں ہوتے، کوئی بھی اجنبی اس میں داخل ہو تو وہ پورے محلے یا قبیلے کا مہمان بن جاتا ہے اور اگر اس کو کوئی نقصان پہنچائے تو وہ شخص پورے محلے اور قبیلے کا دشمن بن جاتا ہے۔ حجرے میں ہر عمر کے مرد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔

گاؤں، محلہ اور قبیلے کے تمام اہم فیصلوں کے علاوہ ملک کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی صورت حال پر بحث مباحثے بھی اسی مرکز میں ہوتے ہیں کسی کی فوتگی کے وقت تین دن تک فاتحہ خوانی بھی حجرے میں ہوتی ہے گاؤں اور محلہ والے والے تین دن تک فوتگی والے گھر میں کھانا لاتے ہیں اور اس گھر میں تین دن تک چولہا نہیں جلنے دیا جاتا۔ حجرے میں عورت کے آنے پر سخت پابندی ہے کوئی عورت حجرے میں آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ پہلے عموماً پورے گاؤں اور محلے کا ایک ہی حجرہ ہوا کرتا تھا اور وہاں آنے والا مہمان سب کا مشترکہ مہمان سمجھا جاتا تھا اور ان کی مہمان نوازی سب مشترکہ طور پر کیا کرتے تھے۔ تاہم اب حجرہ صرف غمی اور خوشی کے مواقع پر آباد رہتا ہے کیوں کہ اب ہر کسی نے اپنے لیے الگ الگ حجرہ، ڈرائنگ روم اور بیٹھک بنایا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔