و یکسینیشن میں مشکلات اور ’عالمی ادارۂ صحت‘ کی راہ نمائی

ڈاکٹر عابد حسین قریشی  منگل 2 جون 2020
کوئی بھی ڈرگ جو وائرس کے لیے تیار کی جاتی ہے، سب سے پہلے اس کی ’سیلیکٹو ٹاکسیسٹی‘ جانی جاتی ہے۔ فوٹو، فائل

کوئی بھی ڈرگ جو وائرس کے لیے تیار کی جاتی ہے، سب سے پہلے اس کی ’سیلیکٹو ٹاکسیسٹی‘ جانی جاتی ہے۔ فوٹو، فائل

بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس صابن سے مر جاتا ہے پھر اس کے علاج میں مشکل کیوں آرہی ہے؟؟

کورونا وائرس جسم کے باہر صابن، بلیچ، الکوحل، الٹروائلٹ ریڈی ایشن وغیرہ سے مر جاتا ہے۔ یہ تو کامن سینس کی بات ہے یہ سب چیزیں جسم کے اندر زہریلی ثابت ہوںگی تو ہمارے ’خلیات‘ کو پہلے ماریں گی۔ اس کامن سینس کے پیچھے کیا سائنس ہے اسے دیکھتے ہیں۔

کورونا وائرس کی سب سے اوپر ایک چکنائی کی تہہ ہوتی ہے، اندر پروٹین اور RNA جینوم ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب ہم اس پر صابن لگاتیہیں تو اسکی چکنائی کی لئیر صابن میں حل ہو جاتی ہے، یوں وائرس اپنی اس تہ کے بغیر غیر موثر ہو جاتا ہے، اسی طرح صرف صابن ہی نہیں تمام آرگینک سالوینٹس اس کو اس طرح اپنے اندر حل کر سکتے ہیں۔اسی طرح بلیچ اس کو آکسیڈائز کر کے پہلے اس کی چکنائی کی تہ اتارتا ہے، پھر اندر کی پروٹینز کو اس طرح سے مسخ کر دیتا ہے کہ یہ دوبارہ ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ الٹرا وائیلٹ شعائیں اس کے ’جینوم‘ کو توڑ دیتی ہیں، یوں یہ ختم ہو جاتا ہے۔

کوئی بھی ڈرگ جو وائرس کے لیے تیار کی جاتی ہے، سب سے پہلے اس کی ’سیلیکٹو ٹاکسیسٹی‘ جانی جاتی ہے، مطلب یہ کہ وہ وائرس کے اس حصے کو جا کر نقصان پہنچائے، جو انسانی ’خلیے‘ سے نہ ملتا جلتا ہو۔ جیسے اس کی چکنائی کی تہ کو ہدف بنانے کے لیے جسم میں صابن تو کیا کوئی ڈرگ بھی نہیں بھیجتے، کیوںکہ ہمارا ہر سیل اس طرح کی تہ رکھتا ہے تو وہ وائرس کے ساتھ ہمارے خلیوں کی یہ تہ ختم کر دے گی، جس سے خلیوں کو نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح کوئی ایسی ڈرگ بھی نہیں جسم میں بھیجی جا سکتی جو انسانی اور وائرل پروٹینز اور DNA، RNA میں تمیز کیے بغیر مار دے، یوں وائرس اور انسانی ’خلیے‘ ایک ساتھ مر جائیں گے۔

جب بھی ہم اینٹی وائرل ڈرگ لیتے ہیں، (کھا کر یا کسی ٹیکے کے ذریعے) تو یہ لوکل ٹشوز میں جذب ہو کر خون کے راستے ہوتے ہوئے خلیوں کے اندر جا کر وائرس کو نقصان پہنچاتی ہے اس دوران ڈرگ جتنے بھی ٹشوز/ خلیوں/ مائیکرو اینوائرنمنٹ سے انٹریکٹ کرتی، آئیڈیلی نہ تو انہیں نقصان پہچانا چاہیے اور نہ ہی ضائع ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کی منزل خلیوں کے اندر وائرس کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔ وائرس کو مارنے کے لیے اینٹی وائرل کے ہدف وائرس کی سیل سے بائنڈنگ میں مداخلت کر کے اندر نہ جانے دینا، وائرس کی ریپلیکیشن میں مداخلت کرنا، وائرس کی پروٹین بنانے کے عمل کو روکنا یا کسی بھی ’لائف سائیکل‘ کے یونیک سٹیپ میں مداخلت کر کے روکنا۔ ان اہداف میں وہی آئیڈیل ڈرگ سمجھی جاتی ہے اور اسے اپررول ملتی ہے، جو انسانی سیلز کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچائے اور وائرس کو ریپلیکٹ کرنے سے روک دے۔ تو اس سب عمل کو حاصل کرنے کے لیے اتنا وقت لگ رہا ہے۔

٭٭٭

24 مارچ 2020کو ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارۂ صحت) نے کورونا سے وفات پانے والوں کی تدفین کے لیے ایک گائیڈلائن جاری کی ہے۔ یہ گائیڈلائن مریضوں کی اموات کی صورت میں ہیلتھ کیئر مینیجرز، مردہ خانوں ’ہیلتھ و مذہبی ایتھارٹیز‘ اور اہل خانہ کے لیے ہیں، جو تدفین میں شامل ہوں۔

یہ بیماری مریض کے قریب رہنے اور ممکن ہے اس کے فضلے (پاخانے) سے پھیلتا ہو، ہوا سے نہیں پھیلتا۔ نیا وائرس ہونے کی صورت میں اس کے بیماری کی زیادہ معلومات کم ہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

ہر انفکشن سے مرنے والوں کی میت متعدی ہوتی ہے اور اسے جلا دینا چاہیے، یہ غلط ہے۔ ابھی تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہو کہ کورونا سے مرنے والے کی میت سے یہ جراثیم پھیلا ہے۔ کورونا کے مریض اسپتال، گھر یا کسی دوسری جگہ وفات پا سکتے ہیں۔

اس لیے ان سب کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، جو میت کو حاصل کریں اور ڈیل کریں ان کا ’پی پی ای‘ (Personal protective equipment) پہننا نہایت ضروری ہے۔ میت کی عظمت کو مذہبی ومعاشرتی پہلو ں سے عزت دی جانی چاہیے اور لواحقین کی عزت اور حفاظت یقینی بنائی جائے، جلد بازی میں میت کی تدفین سے اجتناب برتا جائے۔

اتھارٹیز کیس کی بنیاد پر صورت حال کو جانچیں، لواحقین کے حق کو تلف نہ کریں۔ اگر موت کی وجہ جاننا بھی ہو تو اور رسک کو ذہن میں رکھیں۔ میت کی تیاری کے وقت بھی وہی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، جو کسی مریض سے سامنا کرتے ہوئے اختیار کی جاتی ہیں۔

کورونا سے وفات پانے والوں کو دفنایا جا سکتا ہے۔ ہدایات کی روشنی میں اہل خانہ میت دیکھ سکتی یے، لیکن چھو نہیں سکتی اور جو بھی میت کو قبر میں اتاریں، دستانے پہنیں، اور پھر ہاتھ صابن سے دھوئیں اور بعد میں وہ کپڑے فورا بدل لیں، جو بھی تدفین میں مدد کرے وہ بھی صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھوئے۔ 60 سال سے زائد عمر کے افراد اور بچے، جن کی مدافعت کم ہوتی اور بیمار افراد میت سے دور رہیں۔ کوشش کریں کہ آخری رسومات میں کم سے کم لوگ حصہ لیں،باقی لوگ ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں، دوست احباب ایک میٹر کے فاصلے سے دیکھیں۔ بیمار افراد شمولیت اختیار نہ کریں، یا پھر میڈیکل ماسک پہن کے کریں۔

متوفی سے متعلقہ اشیا جلانا یا تلف کرناضروری نہیں، لیکن دستانے پہن کر انہیں چھوئیں اور ڈیٹرجنٹ سے دھونے کے بعد سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ (بلیچ) سے ڈس اینفیکٹ کریں۔ متوفی کے کپڑے واشنگ مشین میں 60 سے 90 ڈگری سینٹی گریڈ گرم پانی سے لانڈری ڈٹرجنٹ سے دھوئیں۔اگر واشنگ مشین میسر نہیں، تو گرم پانی کے ڈرم میں لکڑی کو گھمانے کے لیے استعمال کریں اور چھینٹوں سے محتاط رہیں۔ ڈرم خالی کرنے کے بعد کپڑے کلورین میں 30 منٹ تک رکھیں اور پھر پانی سے دھویں اور سورج کی روشنی میں سوکھنے کے لیے پھیلا دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔