انتہا پسندی اور رواداری

ظہیر اختر بیدری  منگل 2 جون 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں آج تک جتنا خون بہا ہے اس میں بہت بڑا حصہ مذہب اور قوم کے نام پر بہا ہے۔

انسان ان حوالوں سے جب انسان کا خون بہاتا ہے تو وہ انسان کے بجائے حیوان بن جاتا ہے اور معصوم انسانوں کو قوم و مذہب کے نام پر شیطان بنانے والے کسی حوالے سے بھی انسان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ان انسان دشمنوں تک انتہا پسندوں کی نہ صرف رسائی کو آسان بنا دیا گیا ہے بلکہ انھیں اس نیک کام کے انجام دینے کے لیے ہر طرح کی سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

آج کل میڈیا عوام تک رسائی کا آسان ترین ذریعہ ہے اور عوام کے دشمنوں بلکہ دوست نما دشمنوں کی عوام تک رسائی میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، انسان ماضی میں درختوں اور غاروں میں رہتا تھا لیکن درختوں اور غاروں میں رہنے والا انسان، انسان کا دشمن نہیں تھا۔ آج کا مہذب انسان شہروں میں رہتا ہے، گھروں اور ایوانوں میں رہتا ہے، تعلیم بھی حاصل کرتا ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور قوم پرستی کے حوالے سے وہ حیوان سے بدتر ہے۔

آج دنیا کورونا کی زد میں ہے، لاکھوں انسان اب تک کورونا کے شکار ہوکر ابدی نیند سو چکے ہیں ،کورونا ایک وبا ہے، وہ نہ ہندو کو دیکھ رہی ہے نہ مسلمان کو، نہ سکھ کو نہ عیسائی کو، نہ یہودی کو، اس کی زد میں جو آجاتا ہے وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے یعنی کورونا نہ ہندو ہے نہ مسلمان نہ سکھ ہے نہ عیسائی وہ بلاتفریق مذہب و ملت انسانوں کو کھا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کورونا کے شکار ہوکر موت کے منہ میں جانے والے مر کر بھی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی بنے رہتے ہیں۔

انسان کا بچہ جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو وہ صرف انسان کا بچہ ہوتا ہے، معصوم اور بے ضرر لیکن وہ جس گھرانے، جس خاندان میں پیدا ہوتا ہے، اس خاندان کے عقائد کو اپناتا چلا جاتا ہے۔ یوں انسان کی تقسیم میں پیدا ہونے والے بچے کا کوئی دخل نہیں ہوتا لیکن وہ جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے شعوری طور پر مذہبی تعصبات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان کسی مذہب کو فالو کرتا ہے تو کوئی بری بات نہیں لیکن جب وہ انسان مذہبی تعصبات کا شکار ہوکر اپنے جیسے انسان کا دشمن بن جاتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں شیطان بن جاتا ہے۔

ہندو رہنا مسلمان رہنا سکھ اور عیسائی رہنا کوئی بری بات نہیں لیکن جب وہ مذہب قومیت کے حوالے سے انسان دشمنی پر اتر آتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا شیطان بن جاتا ہے اور اسے انسان سے شیطان بنانے والے انسانوں کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ ان حوالوں سے اگر ہم آج کے انسان پر نظر ڈالیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں مذہبی شیطان معصوم انسانوں کو کٹر ہندو بنا کر اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہزار سال تک ہندو اور مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے آئے، تقسیم ہند کے بعد وہ ایسے حیوان اور وحشی بن گئے کہ حاملہ خواتین کے پیٹ پھاڑ کر معصوم بچوں کو ماؤں کے پیٹ سے باہر نکال کر قتل کرتے رہے۔ یہ ہے وہ مذہب دشمنی جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہے مذہبی انتہا پسندی جہل کا نتیجہ ہے جہل انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔

یہ کوئی نیا کلچر نہیں اس کی جڑیں صدیوں میں گڑھی ہوئی ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی گئی ہے۔ یہ تقسیم ہند کے بعد کی بات ہے، مہاسبھائی ہندو نوجوان چڑیوں کو پکڑ کر انھیں کاٹ دیتے تھے۔ ایک نوجوان ہندو لڑکے سے ہماری گہری دوستی تھی، ایک بار میں نے اس سے پوچھا۔ شنکر! تم لوگ معصوم چڑیوں کو پکڑ کر انھیں کیوں کاٹ دیتے ہو؟ شنکر کہنے لگا، ہمارے مذہبی رہنما ہمیں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کاٹنے سے پہلے چھوٹے چھوٹے جانداروں کو مارا کر دل مضبوط کرلو۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی میں کمی آ رہی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں تو اب مذہبی انتہا پسندی بہت م ہوگئی ہے البتہ قوم پرستی کی لعنت ابھی باقی بھی ہے اور ترقی پذیر بھی ہے۔

ہم نے واضح کیا تھا کہ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، چاند پر جانے والے کو خلائی سائنسدانوں نے اپنی فنی مہارت سے بھیجا تھا ،کسی پنڈت یا مولوی نے نہیں بھیجا تھا۔ حیرت ہے کہ اس اکیسویں صدی میں جہاں ہر طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا بول بالا ہے بھارت جیسے لبرل ملک میں ہندوتوا کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانوں میں اس کلچر کو فروغ دیا جائے کہ دنیا کے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور بھائی بھائی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔