کورونا اور سازشی نظریات کا جوبن

وبا اپنے ساتھ قصے کہانیوں کی بہار لے کر آئی ہے۔ سازشی نظریات کا جرثومہ عام لوگوں سے خواص تک پھیلا ہوا ہے


عبدالصمد سید June 12, 2020
سازشی نظریات اب بھی جنم لے رہے ہیں کہ کورونا کچھ نہیں، محض ڈرامہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملک شام میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے اس کی ایک آنکھ ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ دجال ہے مگر اس بات کو عام لوگوں سے ابھی پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔ پولیو ویکسین اصل میں مغرب کی سازش ہے، وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اگر تعداد میں زیادہ ہوگئے تو دنیا پر ان کا قبضہ ہوجائے گا، اس لیے اس ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جب حملہ ہوا تھا تو اس دن سارے یہودی چھٹی پر چلے گئے تھے، کوئی ایک بھی نہیں مرا تھا۔ ملالہ کو گولی دائیں جانب لگی تھی مگر نشان بائیں طرف ہے۔

ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے بے شمار سازشی نظریات میں سے یہ چند معروف نظریات کا خلاصہ تھا۔ سازشی نظریات اور ان کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ کسی خاص رنگ، نسل، مذہب یا علاقے تک محدود نہیں۔ مغربی ممالک جن میں عمومی طور پر عوام کے شعور کی سطح کو بہتر خیال کیا جاتا ہے، وہاں بھی ایسے نظریات پنپتے اور پھلتے پھولتے رہے ہیں۔

لیکن ترکیب میں خاص پاکستانی قوم چونکہ ایک سروے کے مطابق دنیا کی ''چوتھی'' ذہین ترین قوم ہے، تو اس کی عقابی نگاہوں سے کسی سازش کا مخفی رہنا محال ہے۔ سازش خواہ سات پردوں میں چھپا کر کی جائے مگر اس قوم کے شاہین بچے اس کے بخیے تھوڑی دیر میں یوں ادھیڑ ڈالتے ہیں کہ شرلاک ہومز بھی رشک کرے۔

یادش بخیر ایسے واقعات بسا اوقات پیش آئے کہ راہ چلتے کسی واقف کار سے ملاقات ہوجاتی جو تھوڑی ہیجانی حالت میں ہوتا۔

''کیا ہوا بھائی، خیریت تو ہے؟''

''ہاں خیریت ہی ہے۔ سنا ہے تیسری جنگ عظیم ہونے والی ہے۔ سب کو کھانے پینے کی اشیا جمع کرلینی چاہئیں۔''

''ہائیں! ایسا کیا ہوگیا؟ کس نے یہ خبر دی؟''

''یار وہ پان کی دکان پر ایک آدمی آیا تھا، وہ بتا رہا تھا۔''

اب اس پان کی دکان پر آنے والے آدمی کو شاید پان والا ادھار بھی نہ دے، مگر یقین کے سفر پر گامزن اس مجاہد کےلیے وہ پراسرار آدمی خدا کا اوتار ہے، ایک برگزیدہ صاحب کشف ہے جس کی بریکنگ نیوز پر بلا چوں و چرا ایمان رکھنا واجب ہے۔

مجھ جیسا گستاخ اگر کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرلے کہ کون آدمی تھا؟ اسے کیسے معلوم کہ جنگ ہونے والی ہے تو کچھ ایسا جواب موصول ہوتا۔

''یار! ایک تو تم ہر ایک پر شک کرتے ہو۔ ماننا ہے تو مانو، ورنہ راستہ ناپو۔''

ایک خاتون فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی برا ہورہا ہے سب جوس کی سازش ہے۔ سوچ و فکر میں کچھ لمحات غلطاں و پیچاں رہنے کے بعد دریافت کر ہی ڈالا کہ کون سے جوس کی سازش ہے یہ، ایپل جوس یا اورنج جوس؟ جواب آیا بکواس مت کرو۔ ان جوس کی بات کر رہی ہوں جو اسرائیل میں رہتے ہیں۔

پولیو ویکسین نامی سازش تو برسوں سے اس دیس میں رل رہی ہے۔ عبقریوں کا فرمانا ہے کہ یہ ویکسین مغرب اس لیے بھیجتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کم ہوجائے، ورنہ اس کو کیا سروکار پاکستان میں کسی بیماری سے؟ مملکت خداداد میں 1994 سے شروع ہونے والی پولیو مہم نہ پولیو ختم کرپائی نہ آبادی، جو تب بارہ کروڑ سے بڑھ کر اب بائیس کروڑ تک پہنچنے والی ہے۔ کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا ہے کہ ویکسین آبادی گھٹانے کےلیے تھی یا بڑھانے کےلیے؟ خیر کیا معلوم کسی اللہ والے کے وظیفے نے ویکسین کی تاثیر کو ہی الٹ دیا ہو۔

جب سے یہ کورونا نام کی بلا وارد ہوئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 80 فیصد عوام سازشی نظریات پر یقین رکھنے کےلیے تیار بیٹھے ہیں۔

وبا اپنے ساتھ قصوں کہانیوں کی نہ ختم ہونے والی بہار لے کر آئی ہے۔ تخلیقات اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہیں اور بہترین فکشن جنم لے رہا ہے۔ ایک نظریہ پورے شد و مد سے ایک دو ہفتے تک پھیلتا ہے، پھر اسی شدت سے اس کا بالکل متضاد نظریہ جگہ لے لیتا ہے۔ تخلیق کرنے اور خلوص دل سے پھیلانے والے بھی وہی ہیں۔ اور ان متضاد نظریات میں سے کسی پر رتی برابر شک بھی بھائی لوگوں کو نہیں ہوتا۔

فروری کا آغاز تھا جب چین میں کورونا پھیل رہا تھا اور لاک ڈاؤن کی خبریں تھیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والے ایک شناسا سے حال احوال معلوم کرنے کےلیے رابطہ کیا، جو وہیں مقیم تھے۔ فرمانے لگے کہ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ یہ وائرس امریکا نے پھیلایا ہے۔ واقعی؟ مجھے نہیں معلوم تھا، مگر آپ کو کیسے پتا چلا؟ یار سب کو پتہ ہے یہ بات تو۔

''یہ بات تو سب کو پتہ ہے'' والی دلیل اس قدر آزمودہ اور موثر ہے جس کے آگے ٹھہرنے کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ اس وزنی دلیل کے نیچے ہمارا بھی دم گھٹنے لگا تھا۔ سو الودع کہہ کر رابطہ منقطع کیا۔

کچھ ہفتوں میں چین میں وائرس کا زور تھما اور یورپ میں پنپنے لگا تو کچھ اور نظریات پھیلنے لگے۔ واٹس ایپ پر ہمشیرہ صاحبہ نے ایک مضمون ساتھ اس پیغام کے بھیجا کہ میں مضمون میں لکھی سب باتوں پر یقین کرنے ہی والی ہوں، برائے مہربانی تصدیق کردیں کہ کچھ غلط تو نہیں لکھا اس میں۔ وہ دو صفحوں کا طویل مضمون دل میں اتر جانے والی زبان و بیان کے ساتھ مگر کچھ سچی اور زیادہ من گھڑت خبروں کا مرکب تھا۔ مضمون نگار عوام کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ وائرس اصل میں چین نے بنایا ہے۔ اپنا تسلط قائم کرنے کےلیے یہ گریٹ گیم کھیلی گئی ہے۔ چین میں تھوڑا سا ڈرامہ کرکے اب یہ یورپ اور امریکا میں پھیلایا گیا اور اب مغرب کی ساری دیوالیہ صنعتیں چین سستے داموں خرید رہا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو بتاؤ کہ ''بارہ ہزار'' بستروں کا اسپتال کیسے دس دن میں بن سکتا ہے؟ اتنی دور امریکا اور اٹلی میں کورونا پھیل گیا مگر چین کے پڑوس ملک روس میں نہیں پھیلا۔ کیوں؟ کیوں کہ روس کے چین کے ساتھ تعلقات آج کل اچھے ہیں۔ مگر ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ہمارے بھی تعلقات اچھے ہیں۔

اب مجھے یقین ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں مضمون نگار پھر کسی سازش کی بو سونگھ رہے ہوں گے۔ عقل ششدر رہ جاتی ہے کہ قلم میں اگر زور ہے تو ایسے لوگ عقل کو تھوڑی زحمت کیوں نہیں دیتے۔

سازشی نظریات کا جرثومہ صرف عام لوگوں میں ہی نہیں پھیلا بلکہ ان لوگوں کے نقابوں کو بھی اتار دیا ہے جنہیں ہم دانش ور سمجھتے تھے۔ ایک نام ان میں ایک سفارت کار حسین ہارون صاحب کا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ایک تو اقوام متحدہ جیسے ادارے میں سفارت کاری کا تجربہ اوپر سے گوروں کو مات دیتی ہوئی سفید چمڑی، جسے دیکھ کر ہماری مڈل کلاس سوچ حسین ہارون صاحب کو ایک عالی دماغ ہی باور کراتی تھی۔ پر ہائے رے کورونا، تونے کیسے کیسوں کے راز فاش کردیے۔ انہوں نے فرمایا کہ وائرس لیب میں تیار کیا گیا تھا اور باقاعدہ اس کو پیٹنٹ بھی کرایا گیا تھا۔ سبحان اللہ! کیا کہنے۔ جدید دور کا وہ محاورہ پورا اترتا ہوا محسوس ہوا کہ کیوٹ ہے جب تک میوٹ ہے۔

سازشی نظریات اب بھی جنم لے رہے ہیں۔ بارہا سن چکے کہ کورونا ورونا کچھ نہیں ہے، بس میڈیا کا پھیلایا ہوا ڈرامہ ہے۔ کچھ حضرات سے سنا کہ آپ نے اب تک دیکھا کسی کو کورونا ہوتے ہوئے؟ بس میڈیا سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اتنے مریض ہیں۔ عرض ہے کہ کورونا پر یقین کرنے کےلیے یہ بہت ہی بھونڈی دلیل ہے۔ ملک کی آبادی بائیس کروڑ اور کورونا کے کیس پچاسی ہزار (تادم تحریر) کے لگ بھگ۔ یوں ہر لاکھ میں سے اڑتیس افراد متاثر ہیں۔ آپ کا حلقہ احباب چند سیکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے اس بات کے امکانات اب تک مختصر ہیں کہ آپ کا کوئی واقف کار بھی اس سے متاثر ہو۔

جعلی کورونا مریضوں اور اموات سے متعلق افواہیں بھی گردش میں ہیں۔ ایک بات جان لیجئے کہ کوئی بھی ملک آپ کو کورونا کی لاشوں کے لیے پیسے نہیں دے گا۔ اس وبا نے دنیا کی معیشت کی ایک ساتھ کمر توڑ دی ہے اور امیر ممالک بھی اپنے شہریوں اور معیشت کےلیے پریشان ہیں۔ انہیں چند لاکھ کے عوض آپ کے ملک سے کسی کورونا مریض کی لاش کی ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ خود اپنی لاشوں کی گنتی گن رہے ہیں۔

جب بھی کوئی ایسی بے سرو پا بات علم میں آئے، اس پر فوری طور پر یقین کرنے اور پھیلانے سے پہلے تھوڑا سوچ لیجئے اور تحقیق کر لیجئے۔ یہ بے بنیاد باتیں اور کمزور دلیلیں وہیں دم توڑ جائیں گی کیوں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ احتیاط کیجئے۔ کورونا ابھی تک لاعلاج ہے اور احتیاط ہی واحد حل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں