پی ایس ایل، فرنچائزز کے صبر کا پیمانہ لبریز، بورڈ کیخلاف اعلانِ جنگ

سلیم خالق  ہفتہ 13 جون 2020
 فیس کیلیے بینک گارنٹی کا سلسلہ ختم، مالکانہ حقوق کی مدت میں اضافہ،واجبات کیلیے ڈالرکا ایک ریٹ مقرر کیا جائے ۔  فوٹو : فائل

 فیس کیلیے بینک گارنٹی کا سلسلہ ختم، مالکانہ حقوق کی مدت میں اضافہ،واجبات کیلیے ڈالرکا ایک ریٹ مقرر کیا جائے ۔ فوٹو : فائل

کراچی:  مسلسل مالی نقصان کی وجہ سے پی ایس ایل فرنچائزز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، مطالبات نہ ماننے پر پی سی بی کیخلاف اعلان جنگ کر دیا، پہلی بار تمام مالکان کسی اہم معاملے پر یکجا ہوئے ہیں،انھوں نے سی ای او وسیم خان کو خط لکھ کرمسائل حل کرنے کا کہا ہے، فوری طور پر گورننگ کونسل کی میٹنگ بلانے کا بھی مطالبہ کردیا۔

ان کا کہنا ہے کہ فیس کیلیے بینک گارنٹی کا سلسلہ ختم، مالکانہ حقوق کی مدت بڑھائی جائے، واجبات کیلیے ڈالرکا ایک ریٹ مقرر کرنے اور پی ایس ایل کی الگ کمپنی بنانے کا وعدہ پورا کرنے کاکہا گیا، نئے15 فیصد ٹیکس کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آ گیا،اونرز نے ان مسائل کو لیگ کے مستقبل کیلیے نقصان دہ قرار دے دیا ہے،موجودہ مالی ماڈل کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے 5 سال میں کسی ٹیم کو کوئی مفافع نہیں ہوا،ذرائع کے مطابق بورڈ نے پانچویں ایڈیشن کے واجبات کی ادائیگی کیلیے بعض ٹیموں کو خطوط ارسال کر دیے لیکن سینٹرل پول سے شیئر دینے کی بات ایونٹ نامکمل رہنے کا جواز دے کر ٹال دی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کو5 برس ہو چکے لیکن ظاہری کامیابی کے باوجود انتظامی طور پر ایونٹ مسائل کا شکار ہے۔

خاص طور پر نئی پی سی بی انتظامیہ اسے سنبھالنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، ٹیم مالکان مسلسل شکایات کرتے رہے مگر حکام انھیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتے رہے،تقریباً15 ملین ڈالرز سالانہ بورڈ کو دینے والے ٹیم اونرز اس صورتحال سے سخت نالاں ہیں، ماضی کے برخلاف پہلی بار وہ کسی معاملے پر یکجا ہوئے اور پی سی بی کے سی ای او وسیم خان کو مشترکہ خط لکھ کر مطالبات کی فہرست سامنے رکھ دی، ذرائع کے مطابق  فیس کیلیے ڈالر کا ریٹ مقررکرنے کی خاطر پی سی بی نے آڈٹ، ٹیکس و ایڈوائزری خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کر لی تھیں۔

اس نے کم اور زیادہ فیس اور سینٹرل پول سے یکساں منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے ملتان کیلیے تقریباً51اور کوئٹہ کیلیے تقریباً120روپے فی ڈالر کا ریٹ طے کیا، دیگر ٹیموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مگر پی سی بی نے یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ مسترد کر دیا، فرنچائزز سے پوچھے بغیر خود یہ کہہ دیا کہ کمپنی کی تجاویز درست نہیں ہیں،بورڈ نے ٹائٹل اسپانسر اوربراڈکاسٹر کیلیے ڈالر کا ایک ریٹ طے کیا ہوا ہے، اس کے بعد بعض ٹیموں کو واجبات کی ادائیگی کیلیے الگ الگ نوٹس جاری کر دیے گئے۔

پی ایس ایل 5 کے سینٹرل انکم پول سے ابتدائی شیئر مئی میں واجب الادا تھا مگر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جواز یہ دیا گیا کہ ابھی ایونٹ کے چند میچز باقی ہیں ان کے بعد حسابات کو حتمی شکل دی جائے گی، دلچسپ بات یہ ہے کہ فرنچائزز کو جولائی یا اگست میں اگلے ایڈیشن کی بینک گارنٹی کا یاد دلانا ابھی سے شروع کر دیاگیا ہے، ٹیم اونرز کو اعتراض ہے کہ مارکیٹنگ، ٹکٹنگ ودیگر معاملات کی حکمت عملی پر ان سے کوئی مشاورت نہیں ہوتی، افتتاحی تقریب اور دیگر اہم معاملات میں بھی رائے نہیں لی جاتی، فرنچائزز کے پاس 10 سال کے مالکانہ حقوق ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ اسے بڑھا کر 30 یا اور زیادہ کر دیا جائے کیونکہ انھوں نے اپنی ٹیم کو ایک برانڈ بنا دیا ہے، گورننگ کونسل کی آخری میٹنگ ہوئے بھی کئی ماہ بیت چکے،فوری طور پر میٹنگ کا بھی مطالبہ کیا گیا،فرنچائززکا کہنا ہے کہ  فیس کیلیے بینک گارنٹی اس وقت لی جاتی تھی جب اعتماد کی فضا کا فقدان تھا، اب تو 5 سال ہو گئے لہذا یہ سلسلہ ختم کر کے ایونٹ سے قبل براہ راست فیس لی جائے،یاد رہے کہ گذشتہ برس بورڈ نے بینک گارنٹی نہیں لی تھی مگر اگلے سال کیلیے پھر یہ شرط رکھ دی، سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے دور میں پی ایس ایل کو الگ کمپنی بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

فرنچائزز نے اسے پورا کرنے کا بھی کہا ہے، حال ہی میں ایک نیا15 فیصد ٹیکس بھی عائد کیا گیا،اسے بھی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا گیا۔ٹیم مالکان نے ان مسائل کو لیگ کے مستقبل کیلیے نقصان دہ قرار دیا ہے،موجودہ مالی ماڈل کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے 5 سال میں کسی ٹیم کو کوئی مفافع نہیں ہوا،ذرائع کے مطابق بورڈ نے پانچویں ایڈیشن کے واجبات کی ادائیگی کیلیے بعض ٹیموں کو خطوط ارسال کر دیے لیکن سینٹرل پول سے شیئر دینے کی بات ایونٹ نامکمل رہنے کا جواز دے کر ٹال دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔