بلوچستان: عمران خان کی محبت کا منتظر ہے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 26 جون 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سچ کہا ہے کسی نے کہ جس احترام واکرام سے بلوچ سردار بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا استقبال کیا کرتے تھے اور جن لافانی جذبوں سے بلوچ سردار اکبر خان بگٹی نے قائد اعظم ؒ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر پاکستان اور بابائے قوم سے اپنی محبت کا عملی اظہار کیا تھا، وزیراعظم جناب عمران خان کی طرف سے آج بلوچ عوام اور بلوچستان کو وہی محبتیں اور اپنائیت کے جذبات لَوٹانے کے دن آ چکے ہیں۔

پاکستان سے بغض رکھنے والے مٹھی بھر عناصر اور معاندینِ پاکستان نے بلوچستان کے نام پر بہت سی دل آزار باتیں لکھی ہیںاور اب بھی لکھ رہے ہیں لیکن بلوچ عوام نے ان سب مفسدین کو مسترد کر دیا ہے ۔غیر ممالک میں سیاسی پناہ یافتہ کچھ ’’پاکستانی‘‘ اپنے نجی مقاصد کی خاطر بلوچستان کے نام اور غیروں کی انگلیوں پر ناچتے ہُوئے بلوچ عوام و پاکستان دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُن میں سے کسی کی بھی دال نہیں گل رہی۔

بھارت نے خاص طور پر بلوچستان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ہدف بنا رکھا ہے۔ ویسے تو جب سے فسادی بھارتی جاسوس ، کلبھوشن یادیو، رنگے ہاتھوں گرفتار ہُوا ہے ، ہمیں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کس کس رُوپ میں پاکستان کے خلاف بروئے کار ہے۔ لیکن اب تو یہ بلّی مزید تھیلے سے یوں باہر آ گئی ہے کہ ایک مشہور بھارتی نجی ٹی وی پر انڈین آرمی کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے برسرِ مجلس تسلیم کیا ہے : ’’ہاں، ہم بھارتی پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مداخلت کررہے ہیں۔ آیندہ بھی کریں گے ۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلے ہی دہلی کے لال قلعے پر کھڑے ہو کر بلوچستان بارے اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر چکے ہیں ۔ کلبھوشن یادیو اور بھارتی فوج کے ریٹائرڈ افسر کے شرمناک اعترافِ جرم کے بعد تو بھارتیوں کی پاکستان کے خلاف نیتیں پوری طرح عیاں ہو گئی ہیں۔

ایسے میں ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان کے لیے بھی از بس ضروری ہو گیا ہے کہ وہ بلوچستان کی طرف خاص الخاص اپنی محبتوںاور الطاف کا مظاہرہ فرمائیں ۔ ماشاء اللہ، اُنہیں وزیر اعظم منتخب ہُوئے دو سال ہونے کو ہیں۔ وہ ( سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرح) بِلا ناغہ ہر ہفتے لاہور تو تشریف لے جاتے ہیں لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ پچھلے دو برسوں کے دوران جناب عمران خان نے کتنی بار بلوچستان کے دارالحکومت میں قدم رکھا ہے ؟

بلوچستان میں اگر کہیں احساسِ محرومی پایا جاتا ہے تو اسے تسلیم کرتے ہُوئے شائستگی اور محبت سے حل کی طرف بڑھنا چاہیے ۔ ناراضی تو دو سگے بھائیوں میں بھی ہو جاتی ہے اور اکثر ہو جاتی ہے لیکن ناراضی کو دُور کیا جاتا ہے ، تماشہ نہیں بنایا جاتا۔  ہماری سیکیورٹی فورسز کی زیر نگرانی بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں جو شاندار تعلیمی ادارے قائم کیے گئے  ہیں، یہ بھی در حقیقت محبت و اُنس اور اپنے بلوچ بھائیوں سے بہترین تعاون ہی کی ایک شکل ہے۔

وزیر اعظم پر لازم ہے کہ سویلین ا نتظامیہ کی طرف سے بھی بلوچ عوام کے لیے ایسے ہی عوام دوست اقدامات کیے جائیں جو نظر بھی آئیں۔چند دن پہلے پاکستان کی مرکزی حکومت کی طرف سے ایسا ہی ایک مستحسن قدم اُٹھایا گیا ہے ۔ بلوچستان کے عظیم اور قابلِ فخر ناول نگار جناب منیر احمد بادینی کو ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ سے نواز کر۔ مبینہ طور پر ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ میں 50لاکھ روپے کی رقم بھی شامل ہے ۔ ہم سب منیر احمد بادینی صاحب کے ادبی فن پاروں پر فخر کرتے ہیں ۔

مناسب تو یہ تھا کہ وزیر اعظم صاحب کی طرف سے بھی بادینی صاحب کو مبارکباد کا پیغام جاتا۔ بلوچ ادیبوں کا ذکر ہُوا ہے تو ہمیں بلوچستان کے جملہ طالبعلم بھی یاد آ رہے ہیں جو کورونا وائرس کے جاری مسموم موسم میں انفرادی اور اجتماعی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ کورونا کی ہیبت ناک یلغار کے بعد سارے ملک میں تعلیمی ادارے بند ہُوئے تو اس سے بلوچ طالبعلم بھی یکساں متاثر ہو رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ ہفتوں سے اعلان ہو رہا ہے کہ طلبا و طالبات آن لائن کلاسیں لیں۔ یہ اچھا فیصلہ ہے ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ بلوچستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی کی باقاعدہ ترسیل ہے نہ وائی فائی کی مسلسل اور آسان سہولت دستیاب ہے۔ایسے میں بلوچستان کے یونیورسٹی طلبا وطالبات آن لائن لیکچرزسے کیسے مستفید ہوں؟ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت 50ہزار بلوچ طلبا سینئر کلاسز میں زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے70فیصد بلوچستان سے باہر کے صوبوں میں تحصیلِ علم کررہے ہیں ۔

اسلام آباد اور لاہور کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بلوچ طلبا( جو کورونا وبا کے کارن گھروں کو جا چکے ہیں) میں سے کئی شکوہ کناں ہیں کہ ’’ہمیں تو موبائل فون کی کال سُننے کے لیے ٹیلوں پر چڑھنا پڑتا ہے ، آن لائن لیکچرز کیسے سُنیں؟‘‘یہ شکوہ بے جا نہیں ہے ۔ شاید اِسی لیے کچھ بلوچ طلبا غصے اور پریشانی میں احتجاج بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے اتحادی بلوچ وزیر اعلیٰ کے توسط سے ان طلبا کی شکایات کا جلد از جلد ازالہ فرمائیں ۔ یہ ہمارے بچے ہیں۔ یہ محبت کی تھپکی سے مان جائیں گے۔

اس سے پہلے کہ ’’کوئی اور‘‘ ہمارے ان بلوچ بچوں کے جذبات کو ایکسپلائیٹ کرنے کی مذموم کوشش کرے ، ہمیں خود آگے بڑھ کر انھیں گلے سے لگا لینا چاہیے ۔چیئرمین ایچ ای سی کو بھی بلوچ طلبا ء کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یاد رکھا جائے کہ ہمارے بلوچ طلبا و طالبات کسی سے بھی کم ذہین نہیں ہیں۔ ابھی چند دن پہلے سی ایس ایس کے نتائج سامنے آئے ہیں تو بلوچستان سے ہماری ایک بیٹی ( فروا بتول) نے بلوچستان بھر میں پہلی اور ملک بھر میں نویں پوزیشن لی ہے ۔

تازہ قومی بجٹ کی پیشکاری کے وقت بلوچستان سے عمران خان حکومت کے ایک اتحادی، سردار اختر جان مینگل، نے اپنی پارٹی سمیت حکومت سے نکلنے کا اعلان کر دیا ۔ اس اعلان نے حکومت کو دھچکا پہنچایاہے ،اس لیے صلح کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ مینگل صاحب کا شکوہ ہے کہ اُن سے کیے گئے وعدوں کا خانصاحب نے پاس نہیں کیا ہے۔

اختر مینگل صاحب نے خانصاحب کی کابینہ میں بھی (اصرار کے باوجود) شمولیت اختیار نہیں کی تھی۔ وہ تو بس وعدوں کے ایفا کے منتظر تھے۔ایسا نہ ہونے پر اب وہ حکومت کے ایک سخت حریف ، حضرت مولانا فضل الرحمن ، کے ساتھ بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔

بلوچستان کی حکومت خود اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ ایسے میں تو خان صاحب کو سردار اختر مینگل کی دوستی زیادہ عزیز ہونی چاہیے تھی۔ سردار صاحب کے مطالبات تسلیم نہ کیے جانے میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں، یہ تو ہمارے وزیر اعظم ہی جانتے ہیں لیکن ہم ایسے عام لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کو عمران خان کی محبتوں کی اشد ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔