تحریک میں ’’اِن‘‘ مگر ’’صاف ‘‘ ہوگئے

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 29 جون 2020

بڑے اچھے تھے دن،کتنے اچھے تھے دنِ، ہم نے سوچا تھا ’’ نیا پاکستان‘‘ بنائیں گے، میں بھی بہت تذبذب کے بعد بالٓاخرقافلے میں شامل ہوگیا، اُس وقت لوگ جوق درجوق ،کچھ جھنڈ کی طرح اورکچھ گھمنڈ کی طرح کہیں نہ کہیں سے چلے آ رہے تھے، میں 22اگست کے بعد سے افسردہ تھا، اِس لیے نہیں کہ ساتھ چھوٹ گئے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم ٹوٹ گئے تھے،کیااپنوں کوکہتے اورکیا غیروں کو؟آگ لگانے والے تو صفوں ہی میں تھے، اور صفحوں میں تاریخ کے، اُن کے نام ضرور لکھے جائیں گے، آج وہ اپنے آپ کو ’’بہادر‘‘ سمجھتے ہیں اِس لیے آباد ہیں ورنہ جو ’’عزیز‘‘ تھے وہ بھی کبھی آباد تھے۔

ایک گمان سا تھا کہ ’’آدھے مُہاجر‘‘ کو قریب جا کر پورا کردوں گا، آدمی بہت اچھا ہے، مگر کانوںکا اتناکچا  ہے کہ کان ہونا یا نہ ہونا برابر ہی ہیں،کرپٹ نہیں ہے لیکن کرپٹ چہروں کواچانک پسند کرنے لگا ہے، پیارا تو بہت ہے لیکن سوا دو سال سے ’’کھارا‘‘ ہوگیا ہے۔

میں اُس تحریک کو دکھے دِل سے چھوڑ چکا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اب تحریک سنبھالی تھی وہ اُن کی تھی کب؟ تحریک تو ہمیشہ اُسی کی ہوتی ہے جو تحریک کی بنیاد رکھتا ہے، اور مجھے تحریک سے زیادہ  پاکستان کی بنیاد رکھنے والے اُن مُہاجروں کی فکر تھی جو پاکستان واپس بھارت جانے کے لیے نہیں آئے تھے، بھارت کولات مارکے پاکستان کا سفر، بزرگوں کا وہ تاریخی فیصلہ تھا جس پر مجھے نازہے کیونکہ پاکستان خالق کائنات کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور اللہ کی عزت کی قسم یہ ہمیشہ شاد وآباد رہے گا، مرجائیں گے اِسے مٹانے والے کیونکہ بہت باقی ہیں ابھی وطن کے لیے جان لُٹانے والے۔

یہ تو معلوم تھا کہ کراچی کا ہوں اور یہاں مجھ سے ’’غیر محفوظ‘‘ بڑے ناموں کو میرے نام میں جگمگاتا ’’حسین‘‘ تکلیف دیتا ہے کیونکہ ’’حسین‘‘ باطل کی بیعت نہیں کرتا، وہ حسین، امام عالی مقام ہیں، اُن کو شہیدکرنے والوں کی نسلیں حرام ہیں اور عامر تو اُن کے غلاموں کے غلاموں کا غلام ہے، لہذا پہلے اپنی شمولیت پر اندرونی طوفان سے گذرا، پھر فریبی دوستوں کے چہرے دیکھے، ایک ’’ بڑے کبیر‘‘ جو آج کل ہیں ’’بنے  بنائے وزیر‘‘ اُنہوں نے تو رات کے تاریک اندھیرے میں رلا تک دیا ، اب بات یہ ہے کہ مجھے سیدنا ابوطالب سے بڑی محبت ہے وجہ ایک ہی ہے کہ اُنہیں اپنے بھتیجے،آقا صلوۃ والسلام سے بے پناہ پیار تھا اور پھر اُن کا نام روایات میں ’’عمران‘‘ آتا ہے اس لیے میں ’’سردارانِ کراچی‘‘ کی چھپی چھپائی نفرت کے باوجود ’’عمران‘‘ کا ساتھ دینے پر مجبورتھا۔

سارے دہی بڑوں نے میرا مطلب ہے خود ساختہ بڑوں نے میرے عمران سے کہا ’’ میں ہار جاؤں گا، فاروق ستار صاحب سے مقابلہ ہے، اُن کے گھرکی نشست ہے، یہ تو پاگل ہے‘‘ اس لیے ٹکٹ ملنے میں اُتنی ہی دشواری ہوئی جو عوام کو رمضان المبارک کی نشریات کا ’’پاس‘‘ ملنے میں ہوتی تھی۔ عقل کے اندھوں کی سمجھ سے یہ بات بالاتر تھی کہ تین مدمقابل، فاروق ستار، ڈاکٹر صغیر اور میں، تینوں ہی ایم کیوایم (جو اصلی والی تھی) اُس میں ہوا کرتے تھے جن میں سے صرف میں،کسی دھڑے میں نہیں گیا، میں وہی تھا جو آخر وقت تک بنا کسی فائدے کے بے وجہ دفاع کیے جا رہا تھاکہ جسے معلوم تک نہ تھا کہ اُس کے دل کو چیرنے والا نعرہ تک لگادیا گیا ہے۔

اُن میں سے ایک صاحب تو کالونی کے پیر بن چکے تھے، دوسرے بنا پانی کے شہر میں ڈولفن لیے گھوم رہے تھے تو اصلی اور نسلی مُہاجروں نے اُسی کا ساتھ دیا جو اِن میں سے کسی کے ساتھ نہیں تھا اور پھر عزیزم عمران خان کی چاہتیں بھی سہارا تھیں اِس لیے کافی سہارا تھا تاہم چوں چوں کرنے والے چوزوں کو جتنا بھی دانہ ڈالا جائے کم بختوں کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ بہرحال اللہ نے ہمیشہ کی طرح اپنے گناہ گار بندے پرکرم فرمایا اور ایک بار پھر ثابت ہوگیا ’’ اگر تمام بندے مل کر بھی اللہ کے ایک بندے کوگرانے کی کوشش کریں تو جب تک اللہ نہ چاہے اُسے کوئی گرا نہیں سکتا اور اگر اللہ گرانا چاہے  تو تمام بندے مل کر اُٹھا بھی نہیں سکتے‘‘ المختصر فاروق ستار کو ہرانے والے ایک ’’پیارے‘‘ ایوانِ صدرکو پیارے ہوگئے اورشکست دینے والا دوسرا آج قومی اسمبلی کی کسی اسٹینڈنگ کمیٹی کا رکن تک نہیں ہے جو کہ اُس کا آئینی استحقاق ہے۔

بہرحال غم کے چھوٹے بڑے پہاڑ بہت ہیں کس کس کا نام گنوائیں۔ محنت کی، انتخاب جیتا مگر دیکھتا ہوں ایسے پیشہ ورغیر منتخب جن کی کمپنی نے تیل کے اربوں روپے تک نہیں دیے وہ تیل لگائے کابینہ میں نابینا بنے بیٹھے ہوئے ہیں مگرکپتان کہتا ہے ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ توگھبراہٹ کے باوجودکپتان کی عزت کی خاطرہونق بیٹھے ہوئے ہیں، تاہم اب خاموشی اختیارکر لی ہے۔

شیخ لیاقت حسین اور محمودہ سلطانہ جیسے نابغہ روزگار شخصیات کا بیٹا اور تھوڑی بہت جس کی اپنی بھی سوجھ بوجھ ہے وہ ’’ دیوار پر لکھا ہوا دُور سے دیکھ رہا ہے‘‘ اور یہ بھی جانتاہے کہ ’’ لکھے کوکیسے مٹایا جائے‘‘ البتہ اگر ’’ قصیدہ خواں‘‘ یہ چاہتے ہی نہیں کہ ’’ نعت خواں‘‘ آکر نعت پڑھ دے تو نعت خواں کو بھی بنا نعت کے جاری محفل سے کوئی سروکار نہیں ، اِس لیے ’’ ایک چپ سو سکھ ‘‘ اب ہمارا مسئلہ وہی ہے جو اسکول میں ایک شاگرد کے ساتھ تھا ماسٹرنے شاگرد سے پوچھا ’’بیٹا یہ بتاؤکہ وہ کون سی جگہ جسے بنایا تو مرد نے ہے مگر وہاں کوئی مرد ہی نہیں جاسکتا؟‘‘ شاگرد نے بھی معصویت سے جواب دے دیا ’’لیڈیز ٹوائلٹ‘‘۔ ہماری تحریک اب اِس طرح کی ہے کہ اگر ڈاکٹر نے آپ کو روزانہ شوگر چیک کرنے کے لیے کہا ہے تو آپ  روزانہ کچن جاکر شوگرکا ڈبہ چیک کیا کریں کہ شوگرکتنی ہے؟‘‘جہاں ’’کورونا اگر نیچے سے آجائے‘‘اور COVID-19 کورونا کے 19سنہرے پوائنٹس ہوں‘‘ جیسے فکر انگیز بیانات دینے والے کابینہ میں رہے ہوں یا ہوں اور ’’ ٹڈی دل کھانے سے کورونا نہیں ہوتا ‘‘ جیسی تحقیق پیش کرنے والے پارلیمانی سیکریٹری ہوں وہاں اگر سوال کیا جائے کہ ’’غسل کے کتنے فرائض ہیں جن کے بنا غسل نہیں ہوتا تو جواب یہی ملے گا ’’غسل کے چارفرائض ہوتے ہیں، بالٹی، مگا ، صابن اور تولیہ۔‘‘ اللہ تعالی میرے وطن  اور میرے سیدھے سادے وزیر اعظم پر رحم  فرمائے۔ (آمین) کیونکہ اُسامہ دہشت گرد تھا، دہشت گرد ہے اور دہشت گرد رہے گا، وہ زمین پر ایک بدترین خارجی تھا جسے جس نے بھی مارا،اُس سے سروکار نہیں لیکن وہ شہید نہیں ہوا،وہ مارا گیا‘‘… قصہ ختم!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔