رات بکھر رہی ہے۔۔۔!

ڈاکٹر عبید علی  منگل 30 جون 2020
پوری دنیا میں نئی صبح کا بے تاب سورج دھیرے دھیرے افق پر ابھر رہا ہے ۔  فوٹو : فائل

پوری دنیا میں نئی صبح کا بے تاب سورج دھیرے دھیرے افق پر ابھر رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

موت و زیست کی کشمکش سے صحت یاب فرد کا اگر چند دنوں بعد انتقال ہو جائے، تو یہ موت  بہت گہرے سوالات چھوڑ کر جا رہی ہے۔ بے تحاشا دوائیں یہاں آزمائی گئیں۔ دوائیں جو  محفوظ نہ تھیں، ان کا بازار میں  چرچا ہوا، وہ وافر مقدار میں اندھا دھند دی گئیں۔ نتائج ناپنے کی اب اخلاقی جرأت ہے، نہ حوصلہ ہے اور نہ ہی اہلیت۔ خوش قسمتی سے  سفاک تاریخ اور جدید دور کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔  سب کچھ عیاں کر دے گا۔ کتنے ’کووِیڈ‘ کا شکار ہوئے۔ کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی جہالت سے موت  سے ہم کنار ہوئے اور کتنی بے بس و لاچار ہو کر مارے گئے۔

بس چند دنوں کی بات ہے۔ لاتعداد پیغام ہوں گے۔ سینکڑوں اسباق ہوں گے۔ دوسری طرف قدرت توازن قائم رکھتی ہے۔ وائرس ہو، بیکٹیریا ہو، جانور ہو یا انسان۔۔۔ بد لتے وقت کے ساتھ کائنات کی ہر چیز رونما ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات کو سموتی ہے اور دوسری طرف تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے واضح نشانیاں چھوڑ دیتی ہے۔ ہر عہد گویا اپنے وقت میں قید ہوتا ہے اور گزرتے موسم کے ساتھ ساتھ ساتھ قد نکالتا ہے یا زمین میں دھنستا ہے۔

وائرس کے اندر تبدیلیاں یا تو اسے مہلک سے مہلک تر بناتی ہیں یا مہلک سے بے ضرر۔ ساکت رہنے کی تمنا اس کی بے بسی ہے۔ ویسے بھی جو وائرس زیادہ مہلک ہوں، ان میں پھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور جن میں پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہو ان میں نقصان پہنچانے کی کم ہوتی ہے۔ سادہ سا اصول ہے مرض میں مبتلا انسان اگر وائرس کے زیر اثر آ جائے تو بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے محدود ہوجاتا ہے چلنے  پھرنے میں صحت مند افراد کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کی محدود سرگرمیاں وائرس کو پھیلنے کے مواقع کم کر دیتی ہیں۔

جب کہ صحت مند افراد اگر کھانستے نہ ہوں تو وائرس کے پھیلنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ وائرس کو باہر آنے کے لیے  متاثرہ افراد کا چھینکنا، کھانسنا یا بولنا ضروری ہے۔۔۔ تنفسی نظام کے وائرس اس انسانی جلد بال یا ناخن سے نہیں جھڑتے۔ اعدادوشمار واضح طور پر نشاندہی کررہے ہیں کہ کوویڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، جب کہ اس کے زہر کی حدود اپنے محدود دائرے کے خاکے کو تقریبا ابھار چکی ہے۔ طبی دنیا اس بات سے واقف ہے کہ انسان وائرس سے نہیں، بلکہ وائرس کے نتیجے میں انسانی جسم کے دفاعی نظام کے جارحانہ بے قابو اور بے ہنگم پھیلے ہوئے رد عمل کی وجہ سے نقصان دوچار ہوتا ہے۔

کچھ مضبوط اشارے انسانی عقل و دانش کی توجہ تحقیق کی طرف مرکوز کرتے ہیں، تاکہ کسی متوقع جینیاتی عوامل کے کردار کو پڑھا اور سمجھا جا سکے، جو وائرس کے پھیلاؤ، بیماری کی شدت کے ساتھ ساتھ رنگ و نسل اور جغرافیے کی بنیاد پر امتیاز کو آشکار کر سکے۔ یہ تعجب خیز نہیں کہ صحت عامہ کی سہولتیں کم یا پہنچ سے باہر ہوں، تو اپنا گہرا اور بد ترین اثر چھوڑتی ہیں۔

کووِیڈ کے مختلف وائرس انسانوں کے ’مہمان‘ ہوتے ہیں اور میزبان فرد کے اندر اپنے ’خاندان‘ کے مخصوص وائرس کو پہچاننا ابھی تک عملاً  خاطرخواہ بے یقینی رکھتا ہے۔ لیبارٹری نتائج میں سچے اور جھوٹے مثبت اور سچے اور جھوٹے منفی نتائج کی جانچ پڑتال متعدد  بار اس کی حساسیت، انفرادیت، تکرار اور درستگی کے لیے کی جاتی ہے، تب جاکر  ٹیسٹ قابل بھروسا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بہت بڑا حصہ اندازے کی بنیاد پر قائم ہے اور سائنسی اعدادوشمار اس پر یقین دہانی کی وہ چھتری فراہم نہیں کر رہے، جو کسی ٹیسٹنگ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

وائرس میں تغیرات یا جینیاتی تبدیلی پر جاری بحث در اصل ارتقائی نظریات کی پیچیدگیوں  کو درستگی سے بیان کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ ذرایع اِبلاغ پر سائنسی تبصروں سے امڈتا ہوا سیلاب گمراہ کن اور غیر ضروری خوف پھیلانے کی وجہ بن رہا ہے۔ جس طرح قیامت کبیرہ کا نقشہ کھینچا جارہا ہے، وہ بچوں کی کتاب میں لکھے گئے کھیل سے زیادہ قریب اور انسانی پختہ شعور سے دور نظر آتا ہے۔ سمجھنے کے لیے  یاد دہانی کیجیے۔ تاریخ کے اوراق چند برس پہلے بالکل اسی طرح  ’زیکا وائرس‘ کے تغییرات کو ہول ناک مستقبل سے تشبیہ دے رہے تھے۔

چوہوں اور تجربہ گاہوں کے نتائج پر پھیلائے گئے خوف کو توڑنے میں ایک سال کا عرصہ لگ گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تصورات کو نئی شکل دیں۔ وائرس کے اندر جینیاتی تبدیلی نہ اجنبی ہے اور نہ تباہ کن بلکہ ہماری سمجھ اور دانش مندی کی توجہ ابھرتے ہوئے حقائق کی طرف مبذول کر رہی ہے، جو کہ بلا  کسی شک کے انسان کو وائرس پر حاوی ہوتا دیکھ رہی ہے۔ غیر محتاط تبصرے نہ صرف سائنسی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ عام انسان میں افسردگی پھیلانے کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ سائنس میں ’افسانہ نگاری‘ لطف نہیں، بلکہ کراہیت کا باعث ہوتی ہے۔۔۔!

پوری دنیا میں نئی صبح کا بے تاب سورج دھیرے دھیرے افق پر ابھر رہا ہے۔ خالی سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ بازار ہو یا کھیل کا میدان زندگی کی رونق لوٹ رہی ہے۔ دل بوجھل ضرور مگر امنگ بند ہونٹوں کے ساتھ سوال کر رہے ہیں کہ ’سماجی فاصلے‘ کی ’عمر‘ کیا ہوگی۔۔۔؟ میری خوشیوں، میری صحت کے تحفظ پر اس کا ڈاکا کتنا شدید ہوگا۔ آنے والے کل کی آزمائش کیا کیا زخم دے گی۔۔۔؟ جینے کی خاطر میں کتنی بار مروں گا۔۔۔؟ کروٹیں لیتا ہوا یہ انسانی صحت کا بحران پاکستان میں وحشت کی نشانی بن چکا ہے۔۔۔؟ لوگ پیاروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔۔۔؟

پیارے اپنے پیاروں کی جمع پونجی پر اپنی صحت خاموش سے قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اسپتال سے گزریے تو معذرت کے ساتھ وہ کسی مقتل کا منظر پیش کرتا ہے۔۔۔ اعتماد چکنا چور ہے۔۔۔ انتشار نمو پا رہا ہے۔۔۔ صرف حکومت ہی نہیں احساس بھی منجمد ہے۔۔۔ ’سماجی فاصلے‘ کے نظریے کس کروٹ لینے والے ہیں، وہ تاریخ کا سب سے ہول ناک انجام ہوگا۔ موت کے بیوپار میں یا صحت کے بازار میں کشش کے ساتھ قوت بھی بڑھ رہی ہے۔ سرور ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ ادھر خمار ہے ہے کہ بیدار نہیں ہوتا۔ آج اگر درد کی حدود طے کر دی گئی، جینے کی قیمت طے کر دی گئی، تو  کووِیڈ 19 صرف ایک چنگاری ثابت ہوگا۔

عزیزو! عالم گیر وبا  کے خون آلود بحران میں کیا ہم نے سیکھ لیا کہ انتظامی، سیاسی اور سائنسی راہ نما کیسے عوام کے لیے حصارِ تحفظ بناتے ہیں، مختلف موضوعات کی جداگانی اور ان کے مابین عدم یک سانیت آپس میں کیسے بحث و مباحثہ کر کے فیصلے تک پہنچتے ہیں۔ وقت بھی کم ہے، انصاف، برابری، آزادی اظہار رائے، بحث و مباحثہ، بازاری حدود کا تعین، سماجی و معاشرتی ترقی کے لیے تباہی سے فرار کا آخری راستہ ہے۔ اللہ حامی و ناصر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔