اداکاری چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، سونیا خان

قیصر افتخار  منگل 10 دسمبر 2013
ماضی کی معروف اداکارہ سونیا خان سے خصوصی انٹرویو۔  فوٹو : فائل

ماضی کی معروف اداکارہ سونیا خان سے خصوصی انٹرویو۔ فوٹو : فائل

پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورمیں جہاں مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی تھیں، وہیں فلموں میں نئے چہروں کومتعارف کروانے کا بھی سلسلہ جاری رہتا تھا۔

یہی وجہ ہے ماضی میں ہماری فلموں میں بہت سے باصلاحیت فنکارجلوہ گرہوئے اورانہوں نے بہترین اننگزکھیلتے ہوئے اپنی منفرد پہچان بنائی۔ انہی باصلاحیت فنکاروں میں ایک نام اپنی نیلی آنکھوں اور اداکاری سے توجہ کا مرکز بننے والی اداکارہ سونیا خان کا بھی تھا۔

جنہوں نے 70 کی دہائی کے آخرمیں بطور چائلڈ سٹارفلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور 80 کی دہائی میں بطورہیروئن پہلی ہی فلم کی شوٹنگ کے دوران 12 فلمیں سائن کرڈالیں۔ دس سے بارہ سالہ فنی سفرکے دوران سونیا خان نے جہاں اردو، پنجابی اور پشتو زبان میں بننے والی 70 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے وہیں انہوں نے پی ٹی وی لاہوراور کوئٹہ مرکز سے بننے والی ٹی وی سیریلز، لانگ پلے، ٹی وی کمرشلز اور تھیٹر میں اداکاری اور ماڈلنگ کے جوہر دکھائے۔

انہوں نے اپنے عروج کے دور میں ہی شادی کے بعد شوبز کو خیرباد کہا اور پھر ناروے منتقل ہوگئیں۔ جہاں اپنی مصروف گھریلو زندگی کے ساتھ ایک فلاحی ادارہ قائم کیا اور اس کے علاوہ ڈریس اور جیولری ڈیزائننگ شروع کی وہیں اب وہ ایک کتاب کی مصنفہ بھی بن چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں سونیا خان پاکستان کے مختصر دورے پر جب لاہور پہنچیں تو انہوں نے 20 برس کے طویل عرصہ بعد اپنا پہلا انٹرویو ’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ کو دیا جو قارئین کی نذر ہے۔

سونیا خان نے بتایا کہ میری فیملی کا شوبز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میری ایک کزن نے فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار رنگیلا مرحوم سے شادی کی جن کا نام گُل حنا تھا۔ ان کی وجہ سے شوبز سے تعلق بنا۔ اس وقت میری عمر سات برس تھی۔ ہمارااور رنگیلا مرحوم کا گھر ساتھ ساتھ تھا۔ اس لئے شادی کے بعد دیوار گرا کر اسے ایک ہی گھر کردیا گیا۔ گھر پر اکثر شوٹنگز ہوتی تھیں جبکہ معروف آرٹسٹ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر گھر بھی آتے تھے۔ اس لئے میں سب کو جانتی تھی۔ یہ 70ء کی دہائی کے آخر سال کی بات ہے۔ اس دوران جب فلم کے کسی سین کوعکس بند کرنے کیلئے بچوں کی ضرورت ہوتی تو رنگیلا مرحوم مجھ سمیت دوسرے بچوں کو گھر سے ساتھ لیجایا کرتے۔ اس وقت بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اداکاری کو بطور پروفیشن اپنانا پڑے گا کیونکہ میں بہت شرمیلی اور کم گو بھی تھی۔

جب میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی اس وقت ’’ڈاھا پروڈکشن‘‘ ایک فلم بنا رہی تھی ۔ فلم کی کہانی منوبھائی نے لکھی تھی۔ اس فلم کیلئے انہیں سکول کی لڑکی چاہئے تھی۔ یہ فلم 1983ء میںبنائی گئی۔ اس موقع پرمیں سکول سے گھرواپس پہنچی تو فلم کے پروڈیوسر فاروق رائے وہاں موجود تھے۔ انہوں نے گھروالوں سے ملاقات کی اوران کومیرے آنے سے قبل ہی راضی کرچکے تھے۔ یہ سب کچھ میری مرضی کے بغیرہورہا تھا لیکن بڑوں کا فیصلہ مانتے ہوئے کام کرنے کیلئے میں نے رضا مندی ظاہرکردی۔

اس کے اگلے روزلیجنڈ محمد علی سے میری ملاقات ہوئی، جومیرے والد کا کردارادا کررہے تھے۔ ان کے علاوہ فلم میں ننھامرحوم، نگہت بٹ اوردیگر فنکارشامل تھے۔ اس موقع پرمحمد علی نے مجھے کیمرہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کرنے کے بارے میں بہت گائیڈ کیا، جس کی وجہ سے مجھے بہت سپورٹ ملی۔ اس فلم کی شوٹنگ کراچی سمیت ملک کے دیگرعلاقوں میں کی گئی تھی۔ کیرئیرکی پہلی فلم میرے لئے توکامیاب رہی کیونکہ اس فلم کی تشہیر بہت کی گئی تھی۔ دوسری جانب ایورنیوفلمزکی اداکارفیصل رحمان کے ساتھ نئی فلم ’’لوسٹوری‘‘ بھی ریلیز ہوئی جس میں کینیا سے تعلق رکھنے والی اداکارہ لیلیٰ کو سائن کیا گیا تھا۔ اس فلم کو اچھارسپانس ملا لیکن فلم کی ہیروئن لیلیٰ واپس کینیا چلی گئیں اور فلم بین اس فلم کی ہیروئن بھی مجھے ہی سمجھتے رہے۔

اس کی وجہ لیلیٰ کی آنکھیں اور شکل مجھ سے بہت ملتی تھی۔ اس طرح سے فلم انڈسٹری میں ایک اچھا آغازملا۔ پہلی فلم میںکام کرنے کا معاوضہ 7 ہزار روپے ملا، جس کے بارے میں مجھے نہیں پتہ کہ اس رقم کا کیا بنا۔ مجھے یادہے کہ میری پہلی فلم کے ملبوسات ڈیزائنرز سے تیار کروائے گئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اداکارہ کے ملبوسات ڈیزائنرزسے تیارکروائے گئے ہوں۔ جس پرمیں بہت خوش تھی کہ ہر روزنئے کپڑے اور جوتے ملا کرتے تھے۔ میں نے پہلی ہی فلم کی شوٹنگ کے دوران 12 نئی فلمیں سائن کرلیں۔

فلموں کی جانب آنے سے میری تعلیم متاثرہونے لگی اورمیں نے سکول چھوڑدیا، میں نے پرائیویٹ پڑھائی جاری رکھی اورگریجوایشن مکمل کیا۔اپنے کیرئیر میں اس دورکے تمام ہیروز کے ساتھ کام کیا۔ پہلی فلم ’’بھیگے بدن ‘‘ کے ہیروو کی تھے جوبعد میں فلم انڈسٹری چھوڑ گئے تھے لیکن پھرمیں نے فیصل، ایازنائیک اور بابرکے ساتھ فلمیں کیں اور یہ سلسلہ یونہی جارہی رہا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے انڈسٹری میں قدم رکھا تواس وقت میرے سامنے اداکارہ انجمن، ممتاز ، سنگیتا اور رانی بیگم بھرپورانداز سے کام کررہی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف نادرہ اورنیلی سمیت دیگر اداکارائیں بھی لوگوں میں مقبول تھیں۔ اس لئے مجھے اس سخت مقابلے میں اپنی پہچان بنانے کیلئے اردو فلموں میں اداکاری کرنا تھی۔ مگر اس عرصہ میں سلطان راہی مرحوم کا طوطی بول رہا تھا اور ہمارے ہاں زیادہ ترپنجابی فلمیں بن رہی تھیں۔ لیکن کچھ پروڈیوسروں نے میرے لئے اردو فلمیں بنائیں۔ اداکار فیصل اور ایاز نائیک کی وجہ سے مجھے خاصی سپورٹ ملی۔ یہ وہ دورتھا جب فیصل اور ایاز نائیک اپنی اننگزختم کررہے تھے اوروہاں شان فلم انڈسٹری میں قدم رکھ رہے تھے، جبکہ اداکارہ ریما، مدیحہ شاہ بھی ان کے ساتھ یہاں آرہی تھیں۔ میں نے اپنے دس سے بارہ سالہ فنی سفرکے دوران 70 فلموں میں اداکاری کے جوہردکھائے ، جن میں اردو، پنجابی اور پشتو فلمیں شامل ہیں جبکہ ٹی وی ڈراموں، کمرشلز، فوٹوشوٹس اورتھیٹرمیں بھی نمایاں کام کیا۔ جب میں نے فلم انڈسٹری کوخیرباد کہنے کا ارادہ کیا تومیرے پاس 17 فلمیں تھیں، جن کوچھوڑدیا تھا۔ میں نے ٹی وی سیریل ’سورج کے ساتھ ساتھ‘ میں بھی اہم کردارنبھایا۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سنٹرسے بھی اہم ڈراموں میں کام کیا۔ میری فلموں میں ’’ ڈائریکٹ حوالدار ‘‘ اور ’’دھنک‘‘ نے بہت اچھا بزنس کیا۔ جبکہ پنجابی فلموں نے منافع بخش کاروبارکیا۔

ایک سوال کے جواب میں سونیا خان نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں بابرہ شریف جیسی ورسٹائل اداکارہ کوئی دوسری نہیں ہے۔ اداکاری میں مجھے پاکستان میں بابرہ شریف اوربھارت میں ریکھا نے بہت متاثر کیا۔ ان کا میک اپ، ڈریسنگ اوراداکاری بہت منفرد تھی۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ بابرہ جیسی اداکارہ تو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی اداکاری حقیقت کے قریب تر تھی، جس پرہمیں فخرکرنا چاہئے۔ جبکہ ٹی وی میں اداکارہ روحی بانو، خالدہ ریاست، شہناز شیخ، مرینہ خان، طاہرہ نقوی، عظمیٰ گیلانی اورثانیہ سعید سمیت دیگربہترین اداکارائیں ہیں۔

اسی طرح قوی خان، عابد علی، فردوس جمال، فاروق ضمیر، خیام سرحدی، جمیل فخری، عرفان کھوسٹ، محبوب عالم اوردیگرکی اداکاری میں حقیقت کے رنگ بہت نمایاں تھے۔ جہاں تک بات یادگارواقعات کی ہے تو فلموں کی شوٹنگ کے دوران بہت سے واقعات ہوجایا کرتے تھے۔ میں اوربابرہ شریف جب بھی شمالی علاقہ جات میں شوٹنگ کیلئے جاتے تواکثر وہاں شوٹنگ دیکھنے کیلئے آنیوالے بچوں سے مکئی کی روٹی اورساگ منگواکر کھایا کرتے تھے۔ لوکیشنز تو پہلے سے فائنل نہیں کی جاتی تھیں۔ راستے میں جاتے ہوئے جہاں کچھ اچھا لگاوہیں یونٹ نے ڈیرے لگالئے۔ ایک مرتبہ سوات میں شوٹنگ کررہے تھے۔ اس وقت اداکار فیصل کے ساتھ ایک گیت کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ لوکیشن میں کھیت اور پانی کا چشمہ بھی تھا۔ گیت ’’آجا پیار میں ہم کھوجائیں‘‘ کیلئے تیاری کرلی گئی۔

میں آگے اور فیصل پیچھے کھڑے تھے۔ مجھے سیچوایشن کے مطابق رقص کرتے ہوئے ہیرو کی طرف دیکھنا تھا۔ جونہی گانا لگا اور میں نے فائنل ٹیک ہونے پرواپس مڑکر دیکھا تونہ فیصل تھا اور نہ ہی وہاں کیمرہ مین۔ سب لوگ اچانک غائب ہو گئے۔ پتہ لگا کہ ایک پٹھان بندوق لے کر موقع پر موجود تھا۔ پٹھان کے کھیت تھے اور وہ فلموں کی عکسبندی کیخلاف تھا۔ میرا بھی تعلق پٹھان فیملی سے ہے اور میں پشتوجانتی تھی۔ اس لئے جب میں نے پشتو بولتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تو پھر وہ بھڑک گیا کہ تم پٹھان ہوکر یہ کام کرتی ہو۔

بس پھر پورا یونٹ وہاں پہنچا اور بڑی مشکل کے ساتھ معاملہ رفع دفع کروایا گیا۔ وگر نہ اس دن وہ پٹھان میری پٹائی کردیتا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جویاد آتے ہیں توماضی کے دورکی یاد واپس آجاتی ہے۔ سٹیج ڈراموں میں خالد عباس ڈاراورجمیل بسمل کے ساتھ تھیٹرپرکام کیا۔ اس وقت تھیٹرکا ماحول بہت اچھا تھااورفیملیزکی بڑی تعداد سٹیج ڈرامہ دیکھنے کیلئے آتے تھے۔ بیرون ممالک بھارت کے معروف ستاروں کے ساتھ بھی پرفارم کیا۔ میں نے رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اورمختلف ڈانس فارم میں مہارت حاصل کی۔

سونیاخان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی ٹی وی اورفلموں میںکام کرنے کے معاوضوں نے کسی فنکارکو ’’ مہاراجا ‘‘ نہیں بنایا۔ ماضی میں تومعاوضہ بہت کم ہوتا تھا۔ دوسری جانب فلم انڈسٹری میں اداکاراؤں نے بہت پیسہ بنایا لیکن ان کا پیسہ کمانے کا ذریعہ کچھ اور ہی تھا جس پر زیادہ بات نہیں کرسکتی۔ اس لئے کوئی فنکار کم معاوضہ ملنے کے باوجود اکیڈمی بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ توحکومت کا کام تھا اور اگراس پر توجہ دی جاتی توآج بہت سے نوجوان فنکاربین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کریں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میں صرف فن اداکاری سے وابستہ رہنے کیلئے پیدا نہیں ہوئی، مجھے زندگی میںکچھ اوربھی کرنا ہے۔ مجھے ایک مکمل فیملی لائف گزارنی تھی۔ اس لئے میں نے 22 برس کی عمر میں طارق میر سے شادی کرلی۔ ناروے میں ایک نئی زندگی کاآغاز ہوا، جہاں سب کچھ نیا تھا۔ طارق میرسے پہلی ملاقات ایک ڈرامہ کی شوٹنگ کے دوران ہوئی۔ اس موقع پراچھی گپ شپ ہوئی لیکن کسی کونہیں پتہ تھا کہ ہم دونوں کی شادی ہوجائے گی۔ ویسے توشادی سے دوماہ قبل ہی شوبز کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن شوبزکو خیرباد کہنے کی وجہ طارق میرنہیں تھے بلکہ اس کی کچھ اوروجوہات تھیں۔ یہاں کاماحول بہت خراب ہورہا تھا۔ کبھی علاقے کا ’’ ایس پی ‘‘ میرے گھرکے باہر پہنچ جاتا توکبھی کوئی فیکٹری کا مالک۔

اس صورتحال نے مجھے بہت پریشان کیا اورمیں نے شوبزکوچھوڑنے کا اعلان کردیا۔ میں جب ناروے گئی تووہاں پرپہلے دس برس تنہائی میںگزرے۔ اس دوران کوئی بچہ بھی نہ تھا جس کی وجہ سے میں بس گھرکی تزئین وآرائش کرکے ہی وقت گزارتی تھی۔ میں یہ جانتی ہوں کہ اگرمیری شادی نہ ہوتی تو میں شاید اداکاری چھوڑکرپروڈکشن کی طرف ضرورآتی۔ ویسے تواداکاری کبھی بھی میرا شوق نہیں تھا۔ اس لئے مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں اداکاری کے بغیرنہیں رہ سکتی۔ لیکن اب اچھی فلمیں بن رہی ہیں اور اگر مجھے کوئی بہتر کہانی پربننے والی آرٹ فلم میںکام کرنے کی آفرہوتوضرورکام کرونگی۔ اب میرے بچے بڑے ہوچکے ہیں اور شوہر کی طرف سے بھی کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ بچوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ ان کو اجازت ہے کہ وہ اپنی مرضی کا پروفیشن منتخب کر سکتے ہیں۔ میری ایک بیٹی بہت ٹیلنٹڈ ہے اوروہ پاپ سنگربننا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ناروے میں فلاحی کاموں کے علاوہ ڈریس اورجیولری ڈیزائن کررہی ہوں اوراس کیساتھ ساتھ ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کی لانچنگ کیلئے پاکستان آئی تھی۔ میری پہلی محبت گلزارہیں۔ گلزارکی شاعری نے بہت متاثرکیا۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن میری کتاب ’’آدھی صدی میں کتنی صدیاں‘‘ ان کے نام ہے۔ ادب سے لگاؤشروع سے ہی تھا۔ بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے سولہ برس کی عمر میں پہلی نظم لکھی۔ میں ایک اخبار کو ہر ہفتے ایک کہانی لکھ کر بھیجتی تھی لیکن وہ کبھی نہیں شائع ہوسکی۔ جس پرمایوسی ہوتی تھی۔ جب میں نے کتاب لکھی تومیں نے منوبھائی کو اس کا مسودہ بھجوایا جنہوں نے بہت رہنمائی کی۔ دوسری جانب بھارت کے ستیا پال آنند نے جب میری نظمیں دیکھیں توانہوں نے ان پر اپنی رائے دینے کی خواہش ظاہر کی جو میرے لئے اعزازسے کم نہ تھا۔ انٹرویو کے اختتام پر سونیا خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ خواب دیکھنا مت چھوڑیں، جولوگ خواب دیکھتے ہیں وہی ان کوپورا کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک نے ہمیں کسی نہ کسی صلاحیت سے مالامال کررکھا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کوتلاش کریں اوراس کے ذریعے پاکستان کوترقی کی راہ میں گامزن کرنے میں اپنا کرداراد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔