ہیپاٹائٹس سے اموات کی شرح کورونا سے کہیں زیادہ ہے، مقررین

اسٹاف رپورٹر  پير 20 جولائی 2020
ایکسپریس میڈیا گروپ اس طرح کے آگاہی پروگرامز میں آگے رہتا ہے، ویبینار کا انعقاد ہلٹن فارما اور ہائنیوکون کے اشتراک سے کیا گیا۔ فوٹو : فائل

ایکسپریس میڈیا گروپ اس طرح کے آگاہی پروگرامز میں آگے رہتا ہے، ویبینار کا انعقاد ہلٹن فارما اور ہائنیوکون کے اشتراک سے کیا گیا۔ فوٹو : فائل

کراچی: ماہرین امراض جگر نے کہا ہے کہ دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ کیسز پاکستان میں ہیں، ہیپاٹائٹس کے باعث ہونے والی اموات کی شرح کورونا وائرس کی اموات کی شرح سے کہیں زیادہ ہے، ہر سال ہیپاٹائٹس سی سے 3لاکھ افراد مر جاتے ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس سی قابل علاج مرض ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام پاکستان سوسائٹی فار دا اسٹڈی آف لیور ڈیزیزز (پی ایس ایس ایل ڈی) کے تعاون اور ہلٹن فارما اور ہائنیوکون کے اشتراک سے ہیپاٹائٹس کے عالمی دن پر ویبینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر ضیغم عباس، پروفیسر بشیر احمد شیخ، ڈاکٹر شاہد رسول، پروفیسر عادل نصیر خان، پروفیسر ڈاکٹر شربت خان، ڈاکٹر محمد صالح، ڈاکٹر آمنہ سبحان، پروفیسر سعید حامد، پروفیسر مسعود صدیق، پروفیسر وسیم جعفری، پروفیسر بشیر شیخ نے ہیپاٹائٹس کی قسموں، تشخیص، علاج، پیچیدگیوں اور ملک میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہی فراہم کی۔

میزبانی کے فرائض ڈاکٹر ضیغم عباس نے انجام دیے،ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہم ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے ہر سال 28 جولائی کو مناتے ہیں، دنیا میں ساڑھے 32 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں لیکن ان میں سے 29 کروڑ افراد کو اس مرض کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں،پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا تناسب 5 فیصد ہے، ہیپاٹائٹس بی کا تناسب 2.5 فیصد ہے، اگر پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ہے تو ڈیڑھ کروڑ آبادی بی اور سی سے متاثر ہے، پاکستان میں سروسز (Cirrhosis) کی اموات کی شرح کووڈ کی اموات کی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے۔

پروفیسر بشیر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی مریض کے خون میں رہتے ہیں، خون کے علاوہ تھوک اور خاص رطوبتوں میں ہوتے ہیں، یہ دو طریقوں ورٹیکل اور ہوریزونٹل طریقوں سے منتقل ہوتا ہے، ورٹیکل میں حاملہ عورت جو ہیپاٹائٹس بی سے متاثر ہے نومولود بچے کو ہیپاٹائٹس بی دے سکتی ہے، ہوریزونٹل میں بچوں کی جلد پر زخم ہونے کی وجہ سے یا اسکے خون یا تھوک سے بچوں میں تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

پروفیسر شاہد رسول کا کہنا تھا کہ کئی ملین پاکستانی ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، جن میں سے کئی افراد کو یہ نہیں معلوم کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، اسی لیے اسکو خاموش بیماری کہا جاتا ہے، ہم علامات واضح ہونے کا انتظار نہیں کرسکتے، سب سے پہلے جو ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اس کو اسکریننگ ٹیسٹ کہتے ہیں، ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لیے ریپڈ ڈائگنوسس ٹیسٹ بھی ہوسکتا ہے، اسکریننگ کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ جسم میں وائرس موجود ہے یا نہیں۔

پروفیسر عادل نصیر خان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے مریض کا وقت پر علاج کرنا ضروری ہوتا ہے، ہیپاٹائٹس بی کے ہر مریض کو علاج آفر نہیں کرتے، مریض کا نظریہ ہوتا ہے کہ اگر اسے ہیپاٹائٹس بی ہے تو اسکا علاج فوری شروع کردیا جائے، جن کے جگر میں سوزش کر رہا ہو یا جگر خراب کر رہا ہو ان کا علاج فوری شروع کیا جاتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر شربت خان کا کہنا تھا کہ 71.1 ملین افراد دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال 3 لاکھ مر جاتے ہیں، اس کی علامات یا تو بہت کم واضح ہوتی ہیں یا تو بہت زیادہ، اسکا علاج بہت موثر اور آسان ہوتا ہے، ہم مختلف ٹیسٹ کرتے ہیں، الٹراساؤنڈ کرتے ہیں، ایم آر آی کرتے ہیں، جگر کی سختی چیک کرتے ہیں اس کے بعد علاج شروع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد صالح کا کہنا تھا کہ پیچیدگیاں تین طرح کی ہوتی ہیں، بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ان کے جسم میں موجود ہے، ہیپاٹائٹس بی میں جگر سکڑنے کے بغیر کینسر ہوتا ہے اور ہیپاٹائٹس سی میں بھی جگر کا سکڑنا ضروری نہیں ہوتا، کالا پاخانہ، غنودگی ہونا یا خون کی الٹیاں آتی ہیں جس کو دواؤں کے ذریعے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کینسر کے مریضوں کو لیور ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ہی بچایا جاتا ہے، اگر کینسر ہوجائے تو جان بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر آمنہ سبحان کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ہمارے پاس موجود ہے، ہیپاٹائٹس اتنی مشکل بیماری ہے کہ اگر کسی کو ہوجائے تو اسکی زندگی مختصر ہوجاتی ہے، لیکن اس بیماری سے بچنے کے طریقے موجود ہیں، اگر حفاظتی ٹیکے میسر ہیں تو اسے استعمال کیا جانا چاہیے، صاف پانی ہر جگہ میسر نہیں ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی سے ہوتا ہے، اس سے بچاؤ کے لیے بھی ویکسین موجود ہے۔

پروفیسر سعید حامد کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے لوگوں کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ بیماری کتنی خطرناک ہے اور اس پر حکومت کا رویہ بھی غیر سنجیدہ ہے، مصر میں سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس کے کیسز تھے اور آج وہاں 8 فیصد سے بھی کم کیسز ہیں ، مصر کے بعد ہم دوسرے نمبر ہیں جہاں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ کیسز ہیں، ایلیمینیشن پروگرام پر کام ہورہا ہے کچھ صوبوں کے پروگرام اچھے جارہے ہیں، وفاقی حکومت نے بھی ایلیمینیشن پروگرام بنایا ہے جس کے ذریعے ہم ٹارگٹ پورا کرسکتے ہیں۔

پروفیسر مسعود صدیق کا کہنا تھا کہ آگاہی پروگرام کا انعقاد ایک بہترین قدم ہے، دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس پاکستان میں ہے، پیلا یرقان آلودہ کھانے اور پینے سے پھیلتا ہے، کالا یرقان ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلؤو کی وجہ ضرورت سے زیادہ انجیکشن لگوانا بھی ہے، غیر ضروری انجیکشن نہ لگوائے جائیں، ہیپاٹائٹس سی سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہماری آبادی کے 80 فیصد افراد کو نہیں معلوم کہ انھیں ہیپاٹائٹس سی لاحق ہے۔

پروفیسر وسیم جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک بدقسمت ملک ہے جہاں سے ہم پولیو کو ختم نہیں کرسکے، ایکسپریس میڈیا گروپ اس طرح کے اگاہی پروگرامز میں آگے رہتاہے باقی 99 چینلز کوشش ہی نہیں کر رہے، کورونا کی ہر شخص کو آگہی ہے لیکن ہیپاٹائٹس کے بارے میں کسی کو آگاہی نہیں ، تمام ادارے آگاہی فراہم کرنے میں کردار ادا کریں۔

پروفیسر بشیر شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ہیپاٹائٹس اے ہے تو وہ دوسرے کو لگ سکتا ہے، اگر کسی نے اسٹول پاس کیا ہے اور ہاتھ نہیں دھوئے تو جن چیزوں کو وہ ہاتھ لگائے گا ان چیزوں سے دوسرے بچے کو بھی لگ سکتا ہے، ڈاکٹر شاہد رسول کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس پروفائل بہت کم لوگوں کا کیا جاتا ہے۔

ویبینار کے اختتام پر پروفیسر سعید حمید کا کہنا تھا کہ 15 سے 20 سال ہمیں ان پروگرامز پر کام کرتے ہوئے ہو چکے پر ہم اسے ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لے سکے، ہم اسے سوسائٹی میں اجاگر نہیں کرسکے ، اگر توجہ نہیں دی گئی تو کورونا سے زیادہ ہیپاٹائٹس سے اموات ہوسکتی ہیں۔

پروفیسر وسیم جعفری کا کہنا تھا کہ آخری سال بھی ہم اسی طرح تقریریں کر رہے تھے، آپریشنل اسٹریٹیجیز بنانے کی ضرورت ہے جو ان ہاؤس ہی بنتی ہیں، اور اس کا آڈٹ ہونا بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ اس سے بہتری آئی ہے یا نہیں یہ معلوم ہوسکے، ڈبلیو ایچ او کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، آپریشنل اسٹریٹجی بنانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔