کورونا سے اموات میں کمی، اہم پیش رفت

ایڈیٹوریل  منگل 28 جولائی 2020

کیا کورونا کو پاکستان میں شکست ہوگئی ہے یا اس کے آثار نظر آنے لگے ہیں؟ اس سوال کا صائب جواب ارباب اختیار کے اس واشگاف اعلان میں موجود ہے کہ پاکستان میں کورونا سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد کمی آ گئی ہے۔ حکومت کے مطابق پازیٹو کیس بھی 23 سے کم ہوکر 6 فیصد پر آگئے ہیں، اگر پہلے 100 میں سے 23 ٹیسٹ مثبت آتے تھے تو اب وہ 6 یا 7 پر آگئے ہیں۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اتوار کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوید دی کہ پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے، پاکستان کے بارے میں عالمی اداروں کے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں جب کہ پاکستان میں 2 لاکھ73 ہزار تشخیص شدہ مریضوں میں سے2 لاکھ 37 ہزار صحت یاب ہوچکے ہیں۔

بلاشبہ حکومت کا اعلان ایک بریک تھرو ہے، جس میں کورونا وائرس کے عفریت سے نمٹنے میں قوم نے مجموعی طور پر ایسے وقت کامیابی حاصل کی جب ہمسایہ ملک بھارت بدستور وبا کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بھارتی میڈیا کے مطابق دو روز میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ کورونا کے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں متاثرین کی تعداد14لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کورونا کے کیسز میں کمی پر عالمی اعتراف کا حوالہ بھی دیا اور اس بات کا ذکر بھی کیا کہ عالمی اداروں کے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ مگر اس حقیقت کا اعتراف اگر ان کی طرف سے ہوتا تو ریکارڈ کی درستگی میں آسانی ہوجاتی، حقیقت یہ ہے کہ عالمی اداروں کے غلط اندازوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ارباب صحت اور وزرا بھی کورونا وائرس کے خوفناک حملوں اور شدید پھیلاؤ کی ڈس انفارمیشن پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، اور لاکھوں اموات کی پیشگوئی کی گئی تھی، خوف کا سماں باندھ دیا گیا تھا۔

اس بات سے شاید کسی کو انکار ہو کہ کورونا سے نمٹنے میں عوام کو ہمیشہ اس بات پر سرزنش کی جاتی رہی کہ وہ ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے، بلا ضرورت گھر سے باہر نکلتے بلکہ مٹرگشت کرتے اور مجمع لگاتے ہیں، لیکن وبا سے بچاؤ کے لیے جس موبلائزیشن اور motivation کی قومی ضرورت تھی اس پر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے عمل نہیں کیا، مثلاً لاک ڈاؤن ہی کے فلسفے کو لے لیں سندھ حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن کی عملی شکل پر اصرار کیا جب کہ وفاق نے مکمل لاک ڈاؤن پر عملدرآمد پر ہمیشہ غربت میں مزید اضافہ اور اموات کے خدشات کا اظہار کیا۔

تاہم درمیان میں کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں تھا جو وفاق اور سندھ سرکار میں اس قومی عفریت کے پیش نظر مفاہمت کا کوئی امکان پیدا کرتا، لہٰذا ایک جنگ جاری رہی کہ لاک ڈاؤن ہوگا کہ نہیں، اس ٹکراؤ، کشیدگی، محاذ آرائی سے جو نقصان ہوا وہ عوام اور کورونا کے متاثرین کا ہوا جن کی جانیں چلی گئیں، مسیحاؤں کی زندگی کے چراغ گل ہوگئے، مریضوں کو وینٹی لیٹرز، آکسیجن سیلنڈرز اور بستر نہیں مل سکے، یہ سارے عذاب متاثرین نے برداشت کیے، چنانچہ یہ جنگ صرف چند اداروں کی مشترکہ کوششوں سے نہیں جیتی گئی بلکہ اس میں عوام کی بے مثال استقامت، ان کی بے نام ہرڈ امیونٹی، فطری مزاحمت اور صبر و قناعت کی دولت کا بھی عمل دخل تھا، ارباب اختیار کا کریڈٹ سر آنکھوں پر، ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل عملے نے جان نثاری کی عمدہ مثال قائم کی مگر کورونا سے نمٹنے میں گزشتہ 6 ماہ بڑے درد انگیز رہے۔

سوال یہ ہے کہ کورونا کی شدت کے دوران حکومت کے فلاح و بہبود کے اہم اقدامات کا کیا نتیجہ نکلا، وزرا نے اپنے علاقوں میں متاثرین کی تالیف قلوب کے لیے کتنے دورے کیے، کیا عوام میں مالی امداد اور راشن کی فراہمی کو ممکن بنایا، افلاس کے مارے لوگوں نے غربت، بیروزگاری اور بیماری کا زہر پھانکا، ریلیف کا انتظار کیا۔ دکھی انسانیت کو محض انا کی جنگ، حکومت اور صوبائی انتظامیہ میں اتفاق رائے، اشتراک عمل اور خیر خواہی کے فقدان نے مایوس کیا۔

کورونا وائرس سے لیبارٹریز کی تو جیسے لاٹری نکل آئی، افواہوں اور کرپشن کی خبریں نمایاں ہوئیں، کورونا نے ایسی دہشت پھیلائی کہ کورونا کے مریض اسپتالوں سے دور رہنے لگے، پروفیشنل ڈاکٹروں، مستند نرسوں اور عرف عام میں بے لوث مسیحاؤں میں حکومت کی حکمت عملی کے حوالہ سے اضطراب اور بیزاری نے جنم لیا، کورونا کے مرض میں جس غریب نے جان دی اس کے اہل خانہ کی زندگی عذاب بن گئی، کسی حکومتی کمیٹی، ٹیم اور گروپ نے ان اموات کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جو حقیقت میں خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔

ارباب اختیار ایسے واقعات و حالات کا گوشوارہ بھی تیار کریں، جو نیک کام حکومت، وزارت صحت، عسکری اداروں، فلاحی تنظیموں، طبی برادری اور مخیر حضرات نے دردمندی کے ساتھ سر انجام دیے اس کے لیے شکریہ کا لفظ بھی اس لیے ناکافی ہے، کہ  80 فیصد کیسز میں کمی کی خوشخبری کے باوجود حکومت نے ملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا نیا فیصلہ کیا ہے، یہ بوالعجبی ہے، پنجاب حکومت نے 10روز کے لیے پورے صوبہ میں مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔

بادی النظر میں عید الاضحی کے دوران وفاقی حکومت اور صوبوں کی طرف سے مارکیٹیں بند رکھی جائیں گی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ لوگ گھروں میں عید کریں، ماسک استعمال کریں، سماجی فاصلہ رکھیں، انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں جانے سے لوگ احتیاط کریں۔ ذرائع کے مطابق سیاحتی اور دیگر تفریحی مقامات پر سیر و تفریح کے لیے جانے پر پابندی بھی زیر غور ہے، بکرا منڈیوں کے اوقات بھی محدود کیے جانے پر غور کیا جارہا ہے، اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں 500 کے لگ بھگ غیر قانونی مویشی منڈیاں ہٹا دی گئی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کو اب 2 بڑے چیلنجز عیدالاضحی اور محرم الحرام درپیش ہیں جب کیسز میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عید الفطر پر سماجی فاصلہ نظر انداز کرنے سے کورونا پھیلا، سماجی فاصلہ اور احتیاطی تدابیر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عیدالاضحی پر انتہائی سمجھ داری کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں، علما کرام کی مشاورت سے بہت پہلے سے تیاری شروع کردی ہے۔

دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے اتوار کو معاون خصوصی ڈیجیٹل پاکستان ثانیہ ایدروس اور وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے انسداد کووڈ19 ڈاکٹر فیصل سلطان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یومیہ اموات کے ساتھ مثبت کیسز کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پاک فوج کے ساتھ مل کر کورونا کا بھر پور مقابلہ کیا، وزیر اعظم دباو ٔکے باجود مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف ڈٹے رہے، اگر یہ حکمت عملی نہ اپنائی جاتی تو ملک کے اندر خانہ جنگی، خوراک کی ترسیل متاثر اور معیشت ڈوب چکی ہوتی۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام، ڈاکٹروں، مسلح افواج، سیکیورٹی اداروں نے قیادت کے فیصلوں پر عمل کرکے ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی واحد قوم ہے جو کسی بھی آفت، وبا اور چیلنج کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوری، فروری2020 میں پاکستان میں کورونا کا ایک کیس رپورٹ ہوا۔ اس وقت پاکستان اس عالمی وبا سے مقابلے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ دنیا میں مکمل لاک ڈاؤن لگائے گئے، وزیر اعظم عمران خان کی نظر میں پاکستان ایسے لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

ان کی بنیادی سوچ تھی کہ ملک کے اندر غریب، پسماندہ، پسے ہوئے طبقات، رکشہ چلانے والے، ریڑھی لگانے والے اور دیہاڑی دار کے لیے ایک ایسا ماحول دیا جائے کہ وہ شام کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ گھر لے جا سکے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ عید الاضحی کے دوران وزارت صحت کی جانب سے جاری کیے گئے ایس او پیز اور گائیڈ لائنز پر مکمل عمل کریں۔

درج بالا حقائق کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اور عیدالاضحی کے دوران وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں، لیکن پریشانی کی واقعی ضرورت نہیں، البتہ احتیاط کی ضرورت ہے، اس لیے عوام کو اپنے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر کا دھیان رکھنا ہوگا، سچ تو یہ ہے کہ ملک کو مختلف چیلنجز درپیش ہیں مگر کورونا کا چیلنج ان تمام میں سب سے زیادہ اعصاب شکن ثابت ہوا ہے۔

اس میں ادارہ جاتی اور عوامی سطح پر قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کورونا کو پچھاڑنا ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن کو اب مل کر کورونا عفریت کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی، یہ وقت باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کا ہے، حکمرانوں نے قوم کو خوشخبری دی ہے، ہم آدھی جنگ جیت چکے ہیں، خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہمت اور حوصلہ سے اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہے، کورونا انسانیت کا مشترکہ دشمن ہے جسے اشتراک عمل اور جذبہ جنون سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔