اردو زبان کا نفاذ، ضرورت و اہمیت

ضیا الرحمٰن ضیا  بدھ 29 جولائی 2020
اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن سرکاری طور پر اسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن سرکاری طور پر اسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اردو ہماری قومی زبان ہے جو بہت میٹھی اور خوبصورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص اچھی اور روانی کے ساتھ اردو بولتا ہو اس کی بات سنتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اردو زبان کو ہندوستان کی اصل زبان قرار دیا جاتا ہے جس کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی۔ باقی زبانیں تو باہر سے آئی ہوئی ہیں۔ ہندی زبان آریا لے کر آئے، فارسی مغلوں کے ساتھ آئی جبکہ عربی زبان عربوں نے درآمد کی، لیکن اردو زبان نے یہیں جنم لیا اور یہیں پھلی پھولی۔

متحدہ ہندوستان میں اسے مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہاں کئی بار اردو ہندی تنازعات کھڑے ہوئے، جن کا مقصد ہندی یا اردو میں سے کسی ایک کو ہندوستان میں نافذ کرانا تھا۔ ہندوؤں کا خیال یہ تھا کہ ہندی قدیم زبان ہے جبکہ اردو بعد میں مسلمانوں کے ذریعے آئی۔ حالانکہ چند حقیقت پسند مصنفین کا یہ دعویٰ ہے کہ ہندی زبان ہی دراصل اردو سے نکلی ہے اور انگریزوں کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کا کامیاب تسلسل ہے۔ انہوں نے اردو زبان سے عربی کے الفاظ نکال کر سنسکرت زبان کے چند الفاظ شامل کرکے اسے ہندی زبان کا نام دے دیا، جس کی وجہ سے ہندی اردو تنازعات نے جنم لیا۔ جبکہ اس سے قبل سب اردو زبان ہی بولتے تھے اور ہندوؤں کی اصل زبان سنسکرت تقریباً معدوم ہوچکی تھی۔

کئی صدیاں اکٹھے رہنے کے بعد مسلمانوں نے جب ہندوؤں کے تیور بدلے ہوئے دیکھے تو انہوں نے اپنے مذہب، اپنی ثقافت، اپنی زبان کو ترقی دینے کےلیے الگ وطن حاصل کیا، جو آج ایک عظیم ملک پاکستان کی صورت میں نعمت خداوندی کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے یہاں اپنے مذہب و ثقافت کے ساتھ جو حال کیا اس سے کہیں برا حال اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ کیا۔ ہم نے ملک میں اردو کے بجائے انگریزی زبان نافذ کردی اور گزشتہ تہتر سال سے یہی زبان نافذ ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات انگریزی زبان سے ہی بھرپور ہیں۔ اردو زبان ہر بچہ معاشرے سے سیکھ لیتا ہے، اس کے بعد اسے انگریزی سیکھنے کےلیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اس کے سیکھنے میں کچھ کمی رہ جائے یا نہ سیکھ پائے تو اس کےلیے جینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ملک میں تو ہر جگہ انگریزی کا راج ہے اردو زبان کو پوچھتا ہی کون ہے؟ وہ جیسی کیسی بھی بول یا سمجھ لی تو کام چل جاتا ہے لیکن انگریزی میں کسی قسم کی کمی پائی گئی تو کتنا ہی محب وطن کیوں نہ ہو راندہ درگاہ ہوجاتا ہے۔ اس کی کہیں جگہ نہیں رہتی۔ دفاتر میں جائے تو وہاں انگریزی میں خطوط پکڑا دیے جاتے ہیں جنہیں پڑھنے اور سمجھانے کےلیے انگریزی دان کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عوامی مقامات پر انگریزی اشارات پر مشتمل بورڈ لگے ہوتے ہیں جنہیں ایک ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ شخص کےلیے پڑھنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔

اسکول و کالج میں انگریزی کی کتب کی بھرمار ہے۔ ایک مضمون جسے انگریزی کا نام دیا جاتا ہے وہ تو لازمی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی جس کتاب پر نظر دوڑائی جائے سبھی انگریزی مضمون کی ہی دکھائی دیتی ہیں اور طلبا بھی انہیں انگریزی مضمون ہی تصور کرتے ہیں اور رٹے لگا کر امتحانات میں کامیابی بلکہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اصل میں یہ کتا ب کہہ کیا رہی ہے؟ یعنی اصل علم و فن پر توجہ دینے کے بجائے پوری توجہ انگریزی زبان پر صرف کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حاملین اسناد (ڈگری ہولڈرز) تو بہت ہیں لیکن ماہرین فن نہیں ہیں۔

ترقی کسی زبان کے سیکھنے سے نہیں ہوتی بلکہ ترقی کےلیے علوم و فنون میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ اردو بھی تو ایک زبان ہے لیکن اس کے ماہرین کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس لیے لوگ اردو کے بجائے انگریزی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں ماسڑز کی ڈگری کی بہت اہمیت ہے۔ ہمارے تمام امتحانات انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ کوئی طالب علم کسی علم و فن میں مہارت حاصل کرلے یا کسی دوسری زبان بالخصوص اردو میں ماسٹرز کرلے بلکہ حقیقی معنوں میں ’’ماسٹر‘‘ ہوجائے، لیکن اسے ہر قیمت پر انگریزی زبان میں ماہر ہونا پڑتا ہے۔ اگر وہ انگریزی میں ماہر نہیں تو کوئی امتحان بالخصوص سی ایس ایس وغیرہ جیسے اہم ترین امتحانات پاس کرنا ناممکن ہے۔

پھر انگریزی زبان کا ایسا رعب ہمارے اذہان پر چھایا ہوا ہے کہ ہمیں اردو میں دو چار الفاظ انگریزی کے ملائے بغیر سکون ہی نہیں ملتا۔ بلکہ دوران گفتگو اردو میں انگریزی کے دو چار الفاظ نہ بولنے والے کو پڑھا لکھا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی تمام علوم و فنون میں ماہرین کو خود کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کےلیے اردو زبان کو زخمی کرنا پڑتا ہے۔

اگر صرف انگریزی ہی اعلیٰ تعلیم کا معیار ہوتی تو یورپ و امریکا میں ریڑھی بان بھی روانی کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں لیکن انہیں تو تعلیم یافتہ خیال نہیں کیا جاتا لیکن ہمارے معاشرے میں علم کا معیار ہی کچھ اور ہے۔ ہمارے کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ اردو زبان میں لچک ہے اور وہ دوسری زبانوں کے الفاظ قبول کرتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ہم خود ہی زبردستی انگریزی کو اس میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا یہ خیال کہ اردو زبان میں لچک ہے، یہ بھی انگریزی کو اردو میں شامل کرنے کی کوشش ہے۔ اگر اسی طرح اردو میں لچک باقی رہی تو پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اردو کی شکل یہ ہوگی کہ تمام الفاظ انگریزی زبان کے ہوں گے اور چند ایک الفاظ اردو کے رہ جائیں گے اور اس اردو ملی انگریزی کو اردو زبان کہا جائے گا۔

انہی غلط خیالات کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ترقی پذیر ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم یقیناً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انہوں نے اپنی قومی زبان کو ہی اپنایا، اسی میں تعلیم دی۔ جس کی وجہ سے ان کے ہاں ماہرین فن پیدا ہوئے، جنہوں نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو دیگر اہم اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت بڑا قدم ہے کہ ہم انگریزی زبان کو اپنے نظام سے نکال باہر کریں اور زیادہ سے زیادہ اردو زبان کی اشاعت و ترویج کریں۔

انگریزی زبان ایک بین الاقوامی زبان ہونے کے ناتے اہمیت کی حامل ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے اس حد تک استعمال کرنے لگیں کہ اپنی زبان کی تباہی کی بھی پرواہ نہ رہے۔ اس لیے انگریزی کی اہمیت کے پیش نظر اسے صرف ایک مضمون کے طور پر چند ابتدائی درجات میں پڑھایا جائے۔ باقی اگر کسی کو انگریزی سیکھنے کا شوق یا ضرورت ہو تو اس کےلیے الگ سے کورسز کا اہتمام کیا جائے، پوری قوم پر اس کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ تمام نصابی کتب کا سلیس اردو زبان میں ترجمہ کیا جائے اور اسی کو لازمی قرار دیا جائے۔ دفاتر سے بھی انگریزی کو نکال کر اردو کا نفاذ کیا جائے اور تمام سرکاری کارروائیاں اردو میں ہی انجام پذیر ہونی چاہئیں۔ اسی طرح انگریزی زبان کے الفاظ کو من و عن اردو میں استعمال کرنے کے بجائے ان کا ترجمہ کیا جائے اور اسے قدامت پسندی خیال کرنے کے بجائے حقیقت پسندی سے ترقی یافتہ ممالک کے ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو انہوں نے اپنی قومی زبان کی ترقی و ترویج کےلیے اٹھائے۔ قومی زبان ہی ملک و قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔