کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 2 اگست 2020
یہ ستارے ہیں کہ جو ہم پہ نظر رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ ستارے ہیں کہ جو ہم پہ نظر رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

غزل


بہت کچھ ٹھیک تھا اب کچھ غلط ہونے لگا ہے
ہمارے شہر میں سب کچھ غلط ہونے لگا ہے
میں تیرے بارے میں تشکیک میں پڑنے لگا ہوں
میرے نادیدہ یا رب کچھ غلط ہونے لگا ہے
بہت سے لوگ ہیں دالان بھرتا جا رہا ہے
ہیولوں سے بھری شب، کچھ غلط ہونے لگا ہے
تمہیں کس نے کہا تھا میری جانب لوٹ آؤ
اور ایسے وقت میں، جب کچھ غلط ہونے لگا ہے
دعا کو اٹھنے والے ہاتھ تھک کر گر چکے ہیں
جبیں کو چومتے لب، کچھ غلط ہونے لگا ہے
(نذر حسین ناز۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


تمھارے نام پہ مر جائیں کس حساب میں ہم
اگرچہ مر ہی چکے ہیں تمھارے باب میں ہم
ہمارے سر پہ رہی ہے تمھارے حسن کی دھوپ
مثال برف پگھلتے رہے شباب میں ہم
تجھے خبر ہی کہاں ہے ترے سوال کے بعد
پڑے ہوئے ہیں کئی دن سے کس عذاب میں ہم
مزہ تو جب ہے سوال و جواب کا صاحب
سوال میں ہو تری ذات اور جواب میں ہم
کبھی تو جاگتے موسم میں بھی ملو کہ تمھیں
گہے خیال میں ڈھونڈیں تو گاہے خواب میں ہم
(علی عارفین۔مظفرآباد، آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


رات کے پچھلے پہر آپ کہاں جائیں گے
بند دروازے سبھی ہوں گے جہاں جائیں گے
نذرِ صحرا کوئی دریا نہیں کرنے کے لیے
لے کے بارش کا نگاہوں میں سماں جائیں گے
نامکمل سے کئی کام ہیں نپٹانے کو
اور کہاں تک ترے قدموں کے نشاں جائیں گے
کھوئے کھوئے سے ہیں، حوریں بھی سمجھ جائیں گی
لے کے جنت میں بھی ہم یادِ بتاں جائیں گے
دوست محسوس نعیم ؔاپنی کمی ہونے نہ دیں
دور کچھ روز اگر دشمنِ جاں جائیں گے
(نعیم اختر گوندل۔ ہریانہ ،منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


یار غدار بھی ہو سکتا ہے
پیٹھ پر وار بھی ہو سکتا ہے
تتلیاں اڑ رہی ہیں کچرے پر
پھول بیمار بھی ہو سکتا ہے
عشق سے جان چھڑانے والے
تُو گرفتار بھی ہو سکتا ہے
ہار جانے پہ جو پہنا ہے میاں
ہار کا ہار بھی ہو سکتا ہے
حسن نیلام بھی ہوتا ہو گا
یہ خریدار بھی ہو سکتا ہے
زہر سقراط کے منہ لگ جائے
یہ مز ے دار بھی ہو سکتا ہے
عشق! اک بات بتاؤ مجھ کو
تُو لگاتار بھی ہو سکتا ہے؟
(سردارفہد۔ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


نظر جھکا کے مرا یار ہاتھ جوڑے گا
گرا کے خنجر و تلوار ہاتھ جوڑے گا
ہمارے ہاتھ لگا ہے یہ جام مدت بعد
قسم سے آج تو مے خوار ہاتھ جوڑے گا
زمانہ دیکھے گا عاشق کی اس کرامت کو
جب ایک حسن کا شہکار ہاتھ جوڑے گا
عجیب شہرِ ستم گر کی رسم دیکھی ہے
ہر ایک صاحبِ کردار ہاتھ جوڑے گا
ہمارے پیچھے جو ہم پر چڑھائی کرتا ہے
ہمارے آگے کئی بار ہاتھ جوڑے گا
(بابر الیاس۔ مظفر آباد، کشمیر)

۔۔۔
غزل


عکس اترا نہیں اس شوخ بدن کا ہم سے
قافیہ نبھ سکے گا خاک سخن کا ہم سے
گر پڑے قافلہ کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے ہم
اور ایجاد ہوا لفظ تھکن کا ہم سے
دشت کی ریت کے ذروں کو جواہر جانیں
اور خوش بھی نہ ہوں گل دیکھ چمن کا، ہم سے
ہم سخن اتنے زیادہ کہ سخن تھک جائے
خامشی ایسی کہ پوچھو نہ گھٹن کا ہم سے
قیس سے پہلے کی ہے دشت پنہ گہ اپنی
میر سے پہلے کا ہے بیر گگن کا ہم سے
(محمد عثمان۔ ڈومیلی، جہلم)

۔۔۔
غزل


کب تک رہوں اسیر میں اب تو رہائی دے
پانی کی مثل ہوتا ہوا خوں دکھائی دے
یادوں کا بوجھ اس طرح مجھ پر سوار ہے
کٹتی ہوئی یہ رات بھی مشکل دکھائی دے
اب بولتا نہیں ہے بلاتا نہیں کوئی
آواز ایک پھر بھی مسلسل سنائی دے
یہ روٹھنا منانا تو چلتا ہے ساتھ ساتھ
مجھ کو نہ اس قدر بھی یہ لمبی جدائی دے
ممکن نہیں یہاں پہ سنے کوئی داستاں
کونے میں بیٹھ کر تو مسلسل دہائی دے
کیوں مانتا نہیں وہ مدثر ہے با وفا
جا کر اسے بتائے کوئی، رہنمائی دے
(مدثر اسیر۔ جوہرآباد، ضلع خوشاب)

۔۔۔
غزل


وہ جو پتھر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
موم پیکر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
مانگے تانگے کے خیالات سے دانش جھاڑے
وہ مدبر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
میں تو حیراں ہوں کہ ہم آہنگی پھر کیسے نہیں
کوئی خود سر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
سچ تو یہ ہے کہ یہ پھیلائو کوئی ظرف نہیں
وہ سمندر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
چھوڑ ہی دے گا کسی روز خدا کہلانا
مجھ کو منکر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
دشت جیسے سبھی آثار یہاں ہیں اب تو
گھر مجھے گھر نہیں لگتا ہے کسی زاویے سے
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


شب کے راہی ہیں نگاہوں میں سحر رکھتے ہیں
یہ ستارے ہیں کہ جو ہم پہ نظر رکھتے ہیں
اب میسر کوئی کوزہ نہیں مجبوری ہے
ورنہ ہم چاک کا ہر ایک ہنر رکھتے ہیں
پا بہ جولاں ہیں مگر ہم کو ہے منزل کی طلب
سر پہ دستار نہیں گردِ سفر رکھتے ہیں
بے سبب ہم نہیں مسجودِ ملائک ذیشاںؔ
عقل و دل رکھتے ہیں اور درِ جگر رکھتے ہیں
( جوہر علی ذیشان۔ گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


خون روئے گی دہائی دے گی
آنکھ یوں اپنی صفائی دے گی
مسکراتے ہوئے کب سوچا تھا
درد کی چیخ سنائی دے گی
وہم تصویر کا چہرہ لے گا
خالی دیوار دکھائی دے گی
مرتبہ مانگے گی بیٹوں جیسا
بیٹی جب گھر میں کمائی دے گی
اپنے بارے کبھی سوچے صابرؔ
کیا تری یاد رہائی دے گی
محمد اسلم صابر۔کلور عیسیٰ خیل)

۔۔۔
غزل
کہا جاتا ہے جواں ہے شاعر
دشت میں جوئے رواں ہے شاعر
گل فشانی میں بہاروں سے فزوں
لاکھ تاراج ِ خزاں ہے شاعر
دل تو امرت کا ہے اک جام اس کا
اور پھر شیریں بیاں ہے شاعر
خوشبوئیں بیچنے والے ہیں اداس
مشک و عنبر کی دکاں ہے شاعر
حسن ِ فطرت پہ کھلا در شاہد
آپ اپنا نگراں ہے شاعر
(شاہد عمران گوندل۔ ہریا،ملکوال)

۔۔۔
غزل


بہت مسرور تھی کل تک سڑک تیرے گزرنے سے
ادھر ہم تھے، اداسی تھی،ملے ہیں زخم چلنے سے
بہت ہی خوبصورت تھا مرا جب یار سادہ تھا
مگر وہ حسنِ فطرت کھو چکا سجنے سنورنے سے
میاں یہ روگ ہوتے ہیں مرے جیسے کمینوں کے
سکھانا چھوڑ دو ہم کو، رہے اب تو سدھرنے سے
تری فرقت میں آنکھوں سے لہو ایسے چھلکتا ہے
کہ جیسے گریۂ یعقوب یوسف کے بچھڑنے سے
گھٹا کو دیکھ کر کوئی صدا دل کو جلاتی ہے
دھواں جیسے بپھرتا ہے کہیں اخبار جلنے سے
(ساحل مضطر صدیقی۔رحیم یار خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔