اپنی قربانی کو رائیگاں نہ جانے دیجئے

حرا احمد  ہفتہ 1 اگست 2020
سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہوئے دوسروں کی خوشیوں کا بھی خیال کجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہوئے دوسروں کی خوشیوں کا بھی خیال کجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عیدالاضحیٰ ہر سال اسلامی مہینہ ذی الحج کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کےلیے جانور قربان کیے جاتے ہیں، اس لیے اسے عیدِ قربان بھی کہتے ہیں۔ قربانی کی قبولیت کےلیے شرط ہے کہ اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ جس میں سے ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا حصہ رشتے داروں کےلیے اور تیسرا حصہ غریبوں کےلیے وقف کیا جاتا ہے۔ صاحبِ استطاعت اور مالی حیثیت سے مضبوط ہر شخص پر قربانی واجب ہے۔

قربانی کا جذبہ انسان کے اندر اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ میری جان، میرا مال سب کچھ اللہ کےلیے ہے۔ ایسا پیسہ جو اللہ کی رضا کےلیے اور اس کی خوشنودی کےلیے قربانی کے جانور پر خرچ کیا جائے، اس سے پیارا پیسہ اور کوئی نہیں۔ قربانی کی قبولیت کےلیے اخلاص، روحانیت، تقویٰ اور ایثار شرط ہیں۔ اس کے بغیر قربانی اللہ کی بارگاہ میں افضل نہیں۔ کیونکہ قربانی کا اصل مقصد انسان کے اندر ایثار کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر ہر شے کو قربان کرنے کا جذبہ کارفرما رہتا ہے۔ اس لیے سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنے رب کی رضا اور اطاعت کےلیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’اللہ کو ہرگز نہ ان کے خون پہنچتے ہیں نہ ان کا گوشت، ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے دن قربانی کا جانورخریدنے کےلیے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے‘‘۔

قربانی کا گوشت غریب، نادار اور تمام مستحق افراد کو دیا جاسکتا ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ کیونکہ ہماری قربانی صرف اور صرف اللہ کی رضا کےلیے ہے، اس لیے تمام مستحق مسلم یا غیر مسلم افراد میں قربانی کا گوشت یکساں تقسیم کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

قرآن مجید میں سورۃ البقرہ میں بھی ارشاد ہے ’’وہ اپنے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے یعنی (غلام آزاد) کرنے پر خرچ کرتے ہیں‘‘۔

قربانی کا مقصد نمودونمائش اور ریاکاری بالکل نہیں بلکہ یہ خالصتاً اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آج کل دینوی فائدے سے زیادہ دنیاوی فائدے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسروں کے سامنے نمبر بنانے اور شوخیاں مارنا آج کل کے دور کی سب سے اہم ضرورت بن چکا ہے۔ دکھاوا اور ریاکاری اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ ہم اللہ کی خوشنودی کےلیے اس کی رضا کےلیے قربانی کرنے کے بجائے دوسروں کو دکھانے اور قربانی کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اپنے فریزر کو بھرنے پر مامور رہتے ہیں۔ جبکہ قربانی کا دوسرا حصہ رشتے داروں اور تیسرا حصہ غریبوں کےلیے وقف ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ لوگ غریب رشتے داروں کے ہاں گوشت بھیجنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ جبکہ تیسرا حصہ جو ناداروں اور مفلسوں کا ہوتا ہے ان بے چاروں کے نصیب میں بچا ہوا ایسا گوشت ہوتا ہے جن میں زیادہ تر ہڈیاں شامل ہوتی ہیں اور باقی کا سارا گوشت ایسے لوگوں کے فریج کی زینت بن جاتا ہے اور پھر سال بھر وہ اس قربانی کے گوشت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ بچائے ایسی قربانی سے جس میں تقویٰ کی جگہ اپنا پیٹ بھرنا مقصود ہو اور اللہ کی ناراضی کا ڈر ہو۔

عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھوٹی انا کو بھی قربان کردیجیے۔ صدق دل، خلوص نیت سے دی گئی قربانی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ ہمارے دلوں کے حال کو بہتر جاننے والا ہے۔ لہٰذا ہم سب کی قربانی سے پہلے ضروری ہے کہ اپنے دلوں کو ہر قسم کے حسد، بغض، عدوات، نفرت اور بدگمانیوں سے پاک کرلیجیے تاکہ آپ کی دی گئی قربانی کا یہ عمل اللہ کے ہاں مقبول ہو۔

خدارا اپنی قربانی کو رائیگاں نہ جانے دیجئے۔ عیدالاضحیٰ کے اس پرمسرت موقع پر غریبوں، مسکینوں اور ناداروں کا ہر ممکن خیال رکھیے۔ جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کےلیے بھی پسند کیجئے۔ اپنی قربانی کا صحیح معنوں میں حق ادا کیجئے۔ اپنی دی گئی قربانی سے اللہ کو راضی کیجئے اور سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہوئے دوسروں کی خوشیوں کا بھی خیال کرتے ہوئے اس عید کا مزہ دوبالا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حرا احمد

حرا احمد

مصنفہ نوجوان بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ عوامی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹرسائنس میں فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔