طارق عزیز کی یاد میں

سعید پرویز  ہفتہ 1 اگست 2020

طارق عزیز بھی اگلے جہاں سدھارے، جالندھر میں پیدا ہوئے، گیارہ سال کا طارق عزیز پاکستان بننے پر والدین کے ساتھ ادھر چلا آیا۔ منٹگمری میں والدین نے ڈیرہ ڈالا۔ ابتدائی تعلیم (موجودہ نام ساہیوال) میں حاصل کی پھر لاہور کا رخ کیا۔ لاہور متحدہ ہندوستان میں ادب کا بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا، لاہور، دہلی، لکھنو، حیدرآباد دکن۔ لاہور کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے کہ ادب کے میدان میں اترنے والے سے خون مانگتا ہے، اسی لیے خود کو منوانے کے لیے ادیب، شاعر خون کے مشکیزے بھر بھر کے لاتے تھے اور جسے لاہور نے قبولیت کی سند دے دی اسے سارے دبستان قبول کر لیتے تھے۔

طارق عزیز بھی کہہ رہے تھے ’’لاہور کے پنچ بھی مجھے یاد ہیں، لاہور کے تھپیڑے بھی میں نہیں بھولا، لاہور بڑا کڑا امتحان لیتا ہے، اس امتحان میں جو پاس ہو گیا، سو ہو گیا، باقی حسرت و یاس بن کر رہ جاتے ہیں۔‘‘ طارق عزیز نے لاہور کی فٹ پاتھوں پر بھی راتیں گزاریں اور پھر اسی شہر نے انھیں ممبر قومی اسمبلی بھی بنایا۔

آج طارق عزیز صاحب کے دنیا سے چلے جانے پر میں انھیں یاد کر رہا ہوں۔ شاید میری یادیں کہیں اور پڑھنے کو نہ ملیں، اس خیال سے یہ دو تین یادگار واقعات یہاں لکھ رہا ہوں۔

یہ 1969-70 کی بات ہے۔ جالبؔ صاحب اور طارق عزیز ایسٹرن اسٹوڈیو میں موجود تھے شام ہوئی تو جالبؔ صاحب نے بھٹو صاحب کو فون کیا ’’بھٹو صاحب! میں آج شام آپ کا مہمان بننا چاہ رہا ہوں‘‘ بھٹو صاحب نے فوراً جواب دیا ’’آ جاؤ‘‘ جالبؔ صاحب بولے ’’میرے ساتھ پاکستان فلم انڈسٹری کا مشہور ہیرو طارق عزیز بھی ہو گا‘‘ بھٹو صاحب نے اس کا فوراً جواب دیا ’’اسے بھی لے آؤ۔‘‘

جالبؔ صاحب، طارق عزیز کو لے کر 70 کلفٹن پہنچے۔ جالبؔ صاحب نے طارق عزیز کا تعارف یوں کروایا ’’طارق عزیز ہماری فلم انڈسٹری کے نامور ہیرو ہیں اور بلا کے مقرر ہیں، پڑھے لکھے ہیں۔‘‘

طارق عزیز ، جالبؔ سے اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ بھٹو صاحب کو پسند کرتے ہیں اور پیپلز پارٹی جوائن کرنا چاہتے ہیں۔ یوں طارق عزیز پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے۔ معراج محمد خان اور طارق عزیز کی جوڑی خوب چمکی، بڑے جلسے لوٹے۔ طارق عزیز شاعر بھی تھے اور انھیں بے شمار اچھے اشعار ازبر تھے، جنھیں وہ اپنے خطابات کی زینت بنایا کرتے تھے۔

جالبؔ صاحب تو پیپلز پارٹی میں نہیں گئے حالانکہ بھٹو صاحب کی شدید خواہش تھی کہ جالبؔ پیپلز پارٹی میں آ جائیں مگر جالبؔ صاحب کے لیے یہ ’’ناممکن‘‘ تھا۔ خیر اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ بات طارق عزیز صاحب کی ہو رہی ہے ادھر ہی چلتے ہیں۔

فلم ساز فیاض شیخ، ریاض شاہد کے بھائی تھے۔ یہ واقعہ غالباً 80ء کی دہائی کے اوائل کا ہے کہ جب فلم ساز فیاض شیخ نے ’’زخمی‘‘ نام سے فلم بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور یہ غضب بھی کر دیا کہ فلم کا اشتہار شایع کیا اور جلی حروف میں لکھا ’’حبیب جالبؔ پہلی بار شاعر کا کردار ادا کریں گے‘‘ فیاض شیخ اپنے بھائی ریاض شاہد کی طرح دنیا بدلنے والے خیالات رکھتے تھے۔ ظلم کا خاتمہ چاہتے تھے۔ انصاف کا بول بالا ہو، ہر سُو امن کے پرچم لہلہاتے ہوں۔ جالب صاحب تک یہ خبر پہنچی کہ فیاض شیخ نے ان کا نام بطور اداکار دے دیا ہے تو وہ فیاض شیخ پر بڑے بگڑے۔ فیاض شیخ نے جالب سے کہا ’’اچھا تو بتاؤ، یہ شاعر کا کردار کون کرے گا؟‘‘ جالب نے طارق عزیز صاحب کا نام لیتے ہوئے ’’یہ کردار طارق عزیز کرے گا اور خوب کرے گا۔‘‘

یوں فلم ’’زخمی‘‘ میں طارق عزیز نے شاعر کا کردار ادا کیا۔ ایک ایسے شاعر کا کردار جو سماج کو بدلنا چاہتا ہے۔

فلم کے لیے حبیب جالبؔ نے تھیم سانگ لکھا جسے طارق عزیز پر فلمایا گیا۔ یہ گیت مہدی حسن صاحب نے گایا تھا اور اس گیت کی طرز موسیقار اے حمید صاحب نے بنائی تھی۔ یہ گیت بہت مشہور ہے اور آج بھی سنا جاتا ہے۔

گیت سنیے!

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے

شکوے تیرے اے دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں‘ مر کیوں نہیں جاتے

دھرتی پہ جو ہیں بوجھ اُتر کیوں نہیں جاتے

ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا

ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے

شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا

ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں‘ دعائیں بھی ہیں لب پر

بگڑے ہوئے حالات‘ سنور کیوں نہیں جاتے

طارق عزیز اول و آخر ایک بہت بڑے صداکار تھے۔ ان کا یہ اعزاز کہ 1964ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی آواز اور صورت طارق عزیز تھے۔ اور 40 سال تک ان کا شو نیلام گھر، طارق عزیز شو اور بزمِ طارق عزیز مسلسل نشر ہوتے رہے۔ ان حوالوں سے طارق عزیز ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ سیاسی میدان میں طارق عزیز خود کو سنبھال نہیں سکے۔ مگر یہ بات ان کی شخصیت کو کمزور نہیں کرتی بڑے بڑے نامور سیاست دان خود کو نہ سنبھال سکے۔ طارق عزیز شوبز کے آدمی تھے اور اس حوالے سے وہ کامیاب و کامران ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔