جان سب سے مقدم ہے۔۔۔

ڈاکٹر عبید علی  منگل 4 اگست 2020
کورونا کے کتنے ہی مریض غفلت اور غلط دواؤں کے بھینٹ چڑھے! ۔   فوٹو : فائل

کورونا کے کتنے ہی مریض غفلت اور غلط دواؤں کے بھینٹ چڑھے! ۔ فوٹو : فائل

اعتماد کسی چیز کے وجود پر یقین رکھنے کے احساس کا دوسرا نام ہے، جب کہ احساس ایک جذباتی ردعمل ہے جو کبھی کبھی تعصب سے لبریز بھی ہو سکتا ہے۔ چاہے یہ محبت کا معاملہ ہو یا نفرت کا یا درد کو پہچاننے کا۔

نفسا نفسی کے عالم میں اور بے یقینی کی کیفیت میں نامعقول ردعمل کا ابھرنا ایک فطری حقیقت ہے۔ انسانی معقولیت کی حدود، معاملات کی پیچیدگیاں اور شعوری سطح سماج کا مجموعی خاکہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

خود اعتمادی کی پرورش کے لیے حقیقی تاثر کا تعاقب جتنا ضروری ہے، اتنا جعلی خبروں کی بنیاد پر نظر انے والے سائے سے بچنا بھی لازمی ہے۔ ہم کیا جانتے ہیں اور ہم کیسے جانتے ہیں؟ کی معلومات دراصل ہمارے احساسات کو آلودگی اور ’تعصب‘ سے پاک کرتی ہیں۔ مفروضوں کی تصدیق متوقع غیر جانب دار ردعمل کو کمزور کرتی ہے اور ہمارے پرجوش جذباتی ردعمل کو عظیم بناتی ہے۔

ہمیں یہ معلوم ہے کہ لگن کے لیے جذبات ایک اہم جزو کی حیثیت رکھتے ہیں، جو کہ توانائی اور خوشیوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کی صورت میں اس پر اٹھائے جانے والے قدم سے پہلے ان دونوں نقطوں کے درمیان موجود فاصلوں پر حواس کی بحالی شعور کی قوت کو مستحکم اور پائے دار کرنے کا ضامن ثابت ہوتی ہے۔ کام یابی، خوشی اور آزادی کے لیے لیے اپنے آپ کو، اپنے سماج کو سمجھنا طویل سفر میں ایک تیز رفتار گاڑی کی مانند ہے۔

ابتدا میں ’کوویڈ 19‘ کے طوفان نے معقول آواز کا موقع نہ دیا۔ دوسری طرف سائنس میں جذبات کے استعمال نے چھپی ہوئی گفتگو کی لہجوں کو شور و غل میں تبدیل کر دیا۔ بے جا اور غیر ضروری دواؤں کے اندھا دھند استعمال نے سوچنے کی صلاحیت کو منجمد اور ہر جاہ سحر انگیزی طاری کر دی۔ حقائق کی شاہ راہ پر ہوائی مشاہدات نے سائنس کے آگے بڑھنے کی رفتار اور گہری توجہ سے مزاحمت شروع کر دی۔

نقائص سے بھرپور نتائج پیش کیے جاتے رہے۔ کھوکھلی سفارشات کی بھرپور تقلید کی جاتی رہی۔ جلد ہی آ نے والا وقت مطلع صاف کردے گا کہ کتنے افراد ’کوویڈ 19‘ کے نام پر دیکھ بھال سے محروم رہنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔؟ کتنے ضرورت سے زیادہ توجہ کی وجہ سے دواؤں کے منفی اثرات کا شکار ہوئے اور بہت کچھ۔ ’کوویڈ 19‘ کی ویکسین بننے کچھ صبح کی روشنی پھیل رہی ہے، لیکن احتیاط بھی ضروری ہے اور صبر و تحمل بھی قسمت ہے۔ اخلاص، عزائم کی سمت صاف و شفاف ہے۔

چلیے ہم اپنے موضوع کو سن 1950ء کی دہائی کے آخر اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں لے چلتے ہیں۔ نت نئی دوائیں ایجاد ہو رہی ہیں، دواؤں کی منظوری کے لیے درخواستیں مختلف ممالک میں ان کی گورنمنٹ کے پاس جمع کروائی جا رہی ہیں۔ دواؤں کے ایجاد کے ساتھ جوش وخروش سے دعوے اور وعدے ہیں۔ مریض اور بیمار کے چاہنے والے دواؤں کا انتظار کر رہے ہیں۔ سرکار مریض اور ایجادات کرنے والوں کے درمیان سپاہی کے علاوہ قاضی کی حیثیت رکھتی ہے۔

ایک طرف بے لوث سائنس دان اور ان کی جماعت ہے اور دوسری طرف معصوم مریض ہیں اور ان کے درمیان بازاری لچک دار اصولوں کے پابند تاجر ہیں۔ سرکار اس پیچیدہ دائرے میں سب کے نشانے پر ہے۔ ذرا سی غلطی ایک جانب انسانی سانحے کا خوف ناک منظر پیش کر سکتی ہے، تو دوسری طرف غیر ارادی بے پروائی مریض کو ایجادات کے ثمر سے محروم کر سکتی ہے۔ باریک راہ داری کے درمیان سرکار کا یہ سفر ہمیشہ زیر تنقید رہا ہے۔ جس نظام میں انصاف بنیادی جزو ہو، احتساب اس کا حصہ ہوتا ہے، وہاں شفافیت فروغ پاتی ہے۔ دل کشادہ ہوتے ہیں، بحث کی آزادی ہوتی ہے، نرمی اور پائے داری ہوتی ہے۔

1957ء میں جرمنی کے بازار میں آنے کی اجازت حاصل کرنے والی تھیلیڈومائڈ (Thalidomide) ایک سکون یا نیند کی گولی تھی۔ یہ گولی ہر کوئی بازار سے بہ آسانی خرید سکتا تھا۔ بیچنے والی کمپنی اس کے مکمل محفوظ ہونے کا دعوی کرتی تھی۔ یہ ماؤں میں، بچوں میں، حاملہ بچیوں میں آزادی سے استعمال ہو رہی تھی۔ 1960ء تک 46 ممالک یہ بہ اآسانی دست یاب مشہور دوائی تھی اور بے حد مقبول بھی تھی۔

آسٹریلین ڈاکٹر نے یہ محسوس کیا کہ اس دوا کے اثرات مارننگ سکنیس (حاملہ بچیوں یا خواتین میں متلی یا الٹی کی کیفیت جو صبح کی سستی کے نام سے پہچانی جاتی ہے) میں بہت اچھے ہیں، تو اس نے نیند کے علاوہ اس علامت میں بھی یہ دوائی تجویز کرنی شروع کر دی، جب کہ اس علامت کے لیے اس دوائی پر خاطر خواہ تحقیق نہیں کی گئی تھی۔ کمپنی نے یورپ اور دوسرے بہت سے ممالک میں منظوری کے بعد اس دوائی کی درخواست امریکا میں بھی جمع کرائی۔ امریکا اس وقت بھی ادویاتی سائنس کی دنیا میں صف اول پر کام کر رہا تھا، جہاں قانون کی حکمرانی اور انسانی صحت کا تحفظ مقدم تھا۔ 44 سالہ ڈاکٹر فرانسس کیلسی امریکی ایف ڈی اے میں درخواستوں کے نظر ثانی کے ایک میز پر تعینات تھی۔ درجنوں اور سینکڑوں لوگ ایک دوائی

کی درخواست کے مختلف حصوں پر نظرثانی کرتے تھے اور تمام فیصلے اگر کمپنی کے جمع کردہ تحقیقی نتائج کو تسلیم کریں، تو فیصلہ دوا کی منظوری کی صورت میں ہوتا تھا۔ بیش تر دنیا میں گزشتہ کئی سالوں سے منظور شدہ دوائی کو اس نظر ثانی کرنے والی جوان لیڈی کیلسی نے رد کر دیا۔ اس کا سوال تھا کہ مناسب حجم کی تحقیق دست یاب نہیں ہے کہ جس سے دوائی سے پیوستہ متوقع خطرات (جو کہ حاملہ ماؤں کے بچوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں) کے تاثر کو زائل کیا جا سکے یا سمجھا جا سکے۔ آئیے کیلسی کے دماغ میں پنپنے والے خدشات سمجھتے ہیں۔ اکثر کیمیکل اور دوائیں ’شکمِ مادر‘ میں نشوونما پانے والے بچے کو بدترین نقصان پہنچانے کی قوت رکھتی ہیں۔

اس لیے کسی بھی دوائی کو منظور کرنے سے پہلے ان اثرات کا مطالعہ جانوروں اور انسانوں دنوں میں کیا جاتا ہے یا دوسری کسی صورت میں حاملہ ماؤں کے لیے ایسی دوائی کھانے کی سخت ممانعت رکھی جاتی ہے اور اس ممانعت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ کیلسی کے اوپر اس کے اپنے دفتر کے دوست احباب، سینئر حکام کا بھرپور اخلاقی اور دفتری دباؤ بھی تھا، کمپنی کی لعن طعن بھی اور وہ صحافیوں کی تنقید کا نشانہ بھی تھی، لیکن کیلسی تمام نتائج سے بے پرواہ اپنے خدشے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ امریکی عوام یورپ سے دوا لاکر کھاتے تھے۔ یورپ سے سفر کرنے والے امریکی دوائیں کھا رہے تھے۔

ایک وقت وہ تھا کہ ہر سات میں سے ایک امریکی یہ دوا استعمال کر رہا تھا۔ دوا کی طلب اور مانگ پورے یورپ کے بازاروں میں بھری پڑی تھی۔ ایسپرین کے بعد بکنے والی یہ دوسری بڑی دوائی تھی۔ ڈاکٹر افسردگی کے مریضوں کو بھی یہ دواتجویز کرنے لگے۔ جیسے ہی یہ مارننگ سکنیس کے لیے استعمال کی جانے لگی، اس کے اثرات نے جادوئی سحر طاری کر دیا، ڈاکٹرز اور مریض نہال تھے۔ یورپ جھوم رہا تھا، جب کہ حساس کیلسی اپنے خدشات اور اس کی تیز دل کی دھڑکنیں کالا طوفان دیکھ رہی تھیں

کیلسی بدترین اعصابی دباؤ کا مقابلہ کر رہی تھی، لیکن دوائی منظور کرنے کی راہ میں آہنی دیوار تھی۔ کیلسی اعداد و شمار اور حقائق کی پڑتال منظوری سے پہلے جاننا چاہتی تھی۔ دوسری طرف دوائی آنا فانا حاملہ بچیوں کو یورپ میں تجویز کی جانے لگی۔کئی ماہ گزر گئے۔ اچانک کچھ بچے ٹیڑھے ہاتھ پاؤں کے ساتھ پیدا ہونے شروع ہوئے۔ یک دم ایسے بچوں کی پیدائش میں اضافہ نظر آیا اور ایک صبح جرمنی کے اخبار کی سرخی نے 161 بدنصیب بچوں کے سانحے کی وجہ کو تھیلیڈومائڈ دوائی سے جوڑ دیا۔ مارچ 1962ء تک پورے یورپ میں کہرام مچ چکا تھا۔ بات سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں تک پہنچ چکی تھی۔ ہزاروں ڈاکٹرز کی 25 لاکھ سے زائد گولیوں کی 20 ہزار سے زائد مریضوں پر طبی آزمائش بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔

اس آزمائش میں تقریبا چار ہزار حاملہ عمر والی بچیاں و خواتین شامل تھیں۔ اگر یہ دوائی خدانخوستہ امریکا میں منظور کر لی جاتی، تو سینکڑوں کی تعداد میں پیدا ہونے والے معذور بچوں کی تعداد آج دنیا میں کروڑوں کے حساب سے ہوتی۔ کل کے یہ بدنصیب بچے آج بھی زندہ ہیں اور ہاتھ پاؤں کے بغیر ان کی عمر اس وقت تقریباً 59 سال ہو چکی ہے۔ یہ جن کی نتائج سے زیادہ ہول ناک حادثے کے شکار ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ کیلسی کے خدشات اور اس کے فولادی اعصاب نے اسے قانون سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی اجازت دی، سوال کرنے کی اجازت دی۔ سائنسی سوالات نے سہارے دیے۔ دور اندیش راہ نماؤں نے سوالات کو، خدشات کو کچلا نہیں اور یوں امریکا بدترین حادثے سے اچھا خاصہ محفوظ رہا۔ مریضوں کے تحفظ کے قوانین بعد میں بنائے گئے۔ محترمہ کو بڑے بڑے ایوارڈ دیے گئے۔

تھیلیڈو مائڈ آج بھی ’علم الادویہ ‘ کی تاریخ کا ایک ہول ناک باب ہے لیکن یہ دوائی آج بھی دست یاب ہے۔ امریکی ایف ڈی اے نے اُسے جذام کے نتیجے میں سوجن کے علاج کے لیے منظور کیا ہوا ہے، جب کہ ملٹی پل مائلوما میں یہ ایک کیموتھراپیوٹک ایجنٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس سے بہترین سبق حاصل کیا گیا۔ کئی متوقع سانحات روکے گئے۔ کئی دوائی کو منظور نہیں کیا گیا اور آگے بھاگتی دنیا آج بھی رواں دواں ہے۔

عزیزوں! چھٹی حس ہو یا خیالات، انسانی جان یا تہذیب کو نقصان پہنچانے کی قوت رکھنے والے کسی بی تصور کا پیچھا کرنا تمام فرائض میں اول ہے۔ قوانین انسانوں میں انسانیت پیدا کرنے کی غرض سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا احترام ضروری ہے، لیکن اگر آپ اس میں وہ نقص پائیں، جو انسانیت کو نقصان پہنچاتا ہو تو کم از کم اس سے اپنے آپ کو الگ کر لینا، اس پر سماج کو دعوت بحث دینا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس لیے ’غیر انسانی‘ کام کرنے سے منع کر دیں، اس کے لیے اپنے اندر حوصلہ کیجیے اور حوصلہ کرنے والوں کا سہارا بنیے۔ اخلاقی فتح کی یہ پہلی منزل ہے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔