سرائے خربوزہ

عاصم میر  اتوار 9 اگست 2020
سلاطین دہلی کی یادگار محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کی منتظر۔ فوٹو : فائل

سلاطین دہلی کی یادگار محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کی منتظر۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی تاریخی اور نادر مقامات موجود ہیں۔ان میں بدھ مت، آتش پرستوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں کے علاوہ گندھارا تہذیب سے لے کر مغلوں تک کے تمام ادوار کی باقیات موجود ہیں۔یہ باقیات اپنے اندر بے پناہ دلچسپی اور دلکشی کے عناصر رکھتی ہیں۔

قدیم ادوار کی یہ نشانیاں نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں اور محققین کے لئے غیر معمولی کشش کا باعث ہیں اور پاکستان کی ارضی اور مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کا زبردست ذریعہ بن سکتی ہیں۔ پاکستانی سیاحت کو اعلیٰ تر درجے تک پہنچانا وزیر اعظم عمران خان کا بھی خواب اور ویژن ہے۔ پاکستان کے مختلف خطوں میں پائے جانے والے ان تمام تاریخی مقامات کا قریبی اور تحقیقی جائزہ لیا جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ قدیم دور میں تعمیر کی گئی یہ عمارتیں ان کے معماروں کے تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل ہیں جبکہ انہیں بجا طور پر فنِ تعمیر کے اعلیٰ نمونے بھی قرار دیا جاتا ہے۔

حکومت پاکستان اور عالمی ادارہ تحفظ ثقافتی ورثہ نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایسے ہی چھ مختلف مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ یہ مسرت کی بات ہے مگر افسوس کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اب بھی ایسے کئی تاریخی مقامات موجود ہیں جو حکومتی عدم توجہی اور عوام کی جانب سے بے دریغ توڑ پھوڑ کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔انہیں بچانے اور محفوظ کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے تاریخی ورثے کو اگلی نسلوں تک بحفاظت پہنچا سکیں۔

مٹتے ہُوئے انہی تاریخی اور ثقافتی مقامات میں سے ایک’’قلعہ سرائے خربوزہ‘‘ بھی ہے جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دس کلو میٹر جنوب مغرب میں جی ٹی روڈ پر، ترنول پھاٹک سے متصل ہے۔ یہ تاریخی عمارت اب تقریباً تباہی کے دہانے پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اپنی طرز تعمیر کے اعتبار سے ایرانی عمارت معلوم ہوتی ہے۔بنیادی طور پر یہ مسافروں کی سرائے ہے مگر طرز تعمیر کسی قلعہ سے مشابہت رکھتی ہے۔

روایات میں ہے کہ ’’قلعہ سرائے خربوزہ‘‘ سلاطین دہلی کے دور میں بنی تھی۔ اس کی در و دیوار پر کسی قسم کی تختی یا تحریر تو کنندہ نہیں ہے جس سے اسکی اصل تاریخ تعمیر کا پتہ چل سکے مگر اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور مغل بادشاہ جہانگیر نے 1605 عیسوی میں یہاں قیام کیا اور اپنی کتاب’’تزک جہانگیری‘‘ میں بھی اس تاریخی سرائے کا ذکر کیا۔جہانگیر بادشاہ نے اکبر کی وفات کے بعد کابل جاتے ہُوئے بھی یہاں قیام کیا تھا۔

تاریخ کی کئی دیگر کتابوں میں بھی سرائے کا جو ذکر ملتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مغلیہ دور سے پہلے بارہویں سے سولہویں صدی کے دوران تعمیر کی گئی۔یہ دراصل سلک روٹ کے پرانے راستے پر واقع ہے۔ عمارت کے چاروں اطراف خربوزے سے مشابہت رکھتے گنبد بنائے گئے تھے جس کی وجہ سے اسے’’سرائے خربوزہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان خربوزہ نما گنبدوں کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تین گنبد تو مسمار ہو چکے ہیں مگر ایک اب بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے اور اپنی عظمتِ رفتہ کی داستان سُناتا ہے۔ اس گنبد کے اندر بنی سیڑھی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گارڈ پوسٹ کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔

قلعہ کی بیرونی چاردیواری کی ایک سمت لمبائی چار سو فٹ  ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرائے کافی بڑی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔سترہویں صدی تک یہ سرائے مسافروں کے لئے آپریشنل تھی اور یہاں مختلف درجوں کے مسافروں کے لئے الگ الگ سہولیات میسر تھیں۔ مرکزی صحن خالی تھا جبکہ اطراف میں کمرے اور حمام موجود تھے۔ ہر کمرے کے باہر برآمدہ اور آئینہ لٹکانے کی جگہ اور چراغ جلانے کے لئے،دیوار میں مربع شکل کا ایک چھوٹا ساخانہ بھی موجود تھا۔

’’قلعہ سرائے خربوزہ‘‘ میں پتھر اور اینٹ کا کام انتہائی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ نہانے کے لئے ایک باؤلی (Step well) بھی موجود تھا۔ سترہویں صدی تک اس سرائے میں قیام و طعام کی کوئی فیس نہ تھی۔تاجروں کی آمدنی اور حکومتی خرچ پر اس سرائے کو چلایا جاتا تھا۔ اس سرائے میں متحدہ ہندوستان کے دور میں نہ صرف مسافر قیام کرتے تھے بلکہ یہاں سے ڈاک کی ترسیل کا کام بھی کیا جاتا تھا۔ اس سرکاری کام کے لئے سرائے میں تازہ دم گھوڑے موجود رہتے تھے۔ مسافروں کی رہائش، کھانے پینے اور نماز کے اہتمام سے لے کر گھوڑے باندھنے اور انکے چارے کا بندوبست بھی اس سرائے میں موجود تھا۔

یہ سرائے اس دور میں مسافروں اور تجارتی قافلوں کے لئے ایک بہترین قیام و طعام فراہم کرتی تھی۔ مگر افسوس اس قدیم اور اہم یادگار کے نشان اب مٹتے جا رہے ہیں۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کے ادارے اس کی باقیات کو محفوظ بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔’’سرائے خربوزہ‘‘ سے ملحقہ صدیوں پرانی مسجد کا خوبصورت گنبد اور پُر شکوہ مینار بھی اسکے پرانے طرز تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے مسجد تاحال اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔ اس دور میں بنایا گیا واٹر گیزر آج بھی موجود ہے۔ یہ گیزر ایک پانی کے ٹینک کی شکل میں ہے۔

اس کے نیچے تانبے کی ایک پلیٹ نصب ہے۔ اسی پلیٹ کے نیچے آگ جلا کر پانی گرم کیا جاتا تھا تاکہ سرد موسم میں اللہ کے حضور جھکنے اور نماز ادا کرنے والوں کو وضو اور غسل کرنے والوں کو کوئی دقت نہ ہو۔ اگر صوبائی یا مرکزی حکومت اس تاریخی اور تاریخ ساز سرائے کی از سرِ نَو تزئین کی طرف خاطر خواہ توجہ دے تو ہمیں اُمید ہے کہ ’’سرائے خربوزہ‘‘ دُنیا بھر کے سیاحوں کیلئے دلکشی کا سامان بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔