یوم آزادی اور وعدہ شکنی کی ندامت

محمد احمد  جمعـء 14 اگست 2020
اسلامی معاشرے میں تمام انتظامات عین اسلامی اصولوں پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسلامی معاشرے میں تمام انتظامات عین اسلامی اصولوں پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

آج پاکستانی قوم تہترواں یوم آزادی منارہی ہے۔ سالِ رواں کورونا وائرس کی وجہ سے شاید روایتی جوش و جذبہ نظر نہ آئے۔ لیکن ہر سال کی طرح اس سال بھی چند بیانات، صوبائی و وفاقی درالخلافوں میں توپوں کی سلامی اور دعاؤں کی روایتی مشق ضرور دہرائی جائے گی۔

آیئے اب کے برس یہ بھی سوچیں کہ آخر کیوں تہتر برس بعد بھی پاکستان کا شمار تیسری دنیا کےممالک میں ہوتا ہے، جیسا کہ تہتر برس قبل ہوتا تھا۔ منیز نیازی مرحوم نے کہا تھا

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

وجوہات اس شکت و ریخ کی کئی ہیں، ایک تحریر میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ زبوں حالی کی مفصل داستان کم ازکم ایک کتاب کا تقاضا کرتی ہے۔ جیسا کہ حفیظ جالندھری نے کہہ رکھا ہے

تشکیل و تکمیل کے فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں

شکست و ریخت کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ بہت بنیادی ہے، جسے عموماً صرف نظر کردیا جاتا ہے۔ اس بنیادی اور اہم وجہ پر روشنی ڈالنا اشد ضروری ہے۔

یاد کیجیے وہ زمانہ جب مسلمانانِ برصغیر قائداعظم کی سربراہی میں ایک الگ اسلامی مملکت کا تقاضا کررہے تھے اور اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی دو قومی نظریہ بھی تھا۔ مسلمانانِ برصیغر یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ ہندو ایک قوم ہیں اور مسلمان ایک الگ قوم۔ ان کے افکار مختلف، مزاج مختلف، دین مختلف اور تہذیب و تمدن مختلف۔ لہٰذا ایک جھنڈے تلے ان اقوام کو جمع کرنا بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پلانے کے مترادف ہوتا۔

مسٹر جناح اور مسلمانانِ برصغیر ایک ایسی آزاد مملکت چاہتے تھے، جہاں مسلمان ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دے کر اسلام کے رہنما اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ یہ اللہ رب العزت سے وہ وعدہ تھا جسے بنیاد بناکر ایک الگ وطن مانگا جارہا تھا۔ دعائیں قبول ہوئیں، جدوجہد کامیاب اور شہادتیں تسلیم۔ اللہ کی رحمت مسلمانوں پر ابرِ رحمت کی طرح برسی۔ اور ایک طویل سفر کے بعد ستائیس رمضان المبارک کے بابرکت دن پاکستان وجود میں آگیا۔ اور وقت آیا وعدوں کی تکمیل کا۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی، یعنی وعدہ نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ایک اسلامی معاشرے میں تمام انتظامات عین اسلامی اصولوں پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ چاہے سیاست ہو، اخلاقیات ہو، سماجیات ہو، معاشیات ہو یا نظام انصاف۔ پاکستان ان اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ بننا تھا، یہی بات مسڑ جناح اپنی تقاریر میں بار بار دہرایا کرتے تھے تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکتا، کیسا شاندار سیاسی نظام ہے اسلام کا۔ سود کے بغیر کیسا بہترین اسلوب ہے معیشت کا۔ کتنا عظیم نظام ہے انصاف کا، کہ حاکم وقت بھی جواب دہ ہے ایک ادنیٰ عدالت کے سامنے۔ سلطنت کا عام باشندہ بھی حق رکھتا ہے حاکم سے کسی امر کی جواب طلبی کرے۔

یہ وہ تمام کہانیاں تھیں جنہیں کتابوں میں سب نے پڑھ رکھا تھا۔ یہ وہ خواب تھے جنہیں شرمندۂ تعبیر ہونا تھا۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ مزید برآں مسٹر جناح کے بعد کسی سیاسی لیڈر نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ معاشرے میں اس موضوع پر گفتگو بھی خال خال سننے کو ملتی ہے۔

تہتر برس کسی بھی ملک کی ترقی کےلیے بہت ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو چین اور سنگاپور کو دیکھیے۔ یہ دونوں ممالک پاکستان کے بعد آزاد ہوئے۔ آج ان دونوں کا شمار جدید ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور چین انتہائی تیزی سے ایک نئی طاقت بننے کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں چین کو اپنے لیے خطرہ تصور کررہی ہیں۔

چین یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے باشندے بھی ہمارے طرح کے عام انسان ہی ہوتے ہیں، کام کاج کےلیے ان کے پاس بھی دن میں چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔ مگر وہ ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور ہم تنزلی کی۔ اسباب کئی ہیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔

پاکستان کے عوام اور حکمرانوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدوں سے روگردانی کی۔ جس کے باعث ہر کام بے برکتی کا شکار ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر اجتماعی نہ سہی انفرادی طور پر اللہ سے اپنے اسلاف کی، رہنماؤں کی اور اپنی عہد شکنیوں پر ندامت کا اظہار کیجیے اور دعا کیجیے ’’اے اللہ ہمیں معاف فرما‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد احمد

محمد احمد

بلاگر الیکٹریکل انجینئر، محقق اور پی ایچ ڈی فیلو ہیں۔ اردو اور انگلش زبانوں میں محتلف موضوعات پر لکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ آپ آج کل چین کے شہر شنگھائی میں مقیم ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان سے @ahmadsjtu کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔