کراچی کا ساتواں ضلع ’لیاری‘ کے بہ جائے ’کیماڑی‘ کیوں بنا؟

رضوان طاہر مبین  جمعرات 27 اگست 2020

بالآخر 20 اگست 2020 کو صوبائی کابینہ نے کراچی میں شامل ضلع ’کراچی غربی‘ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بلدیہ، سائٹ، ماڑی پور اور کیماڑی وغیرہ کو کراچی کا ساتواں ضلع بنانے کی منظوری دے دی جو ضلع ’کیماڑی‘ کہلائے گا۔ شہری حلقوں نے اس نئے ضلعے کے قیام پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

بات ساتویں ضلع پر بھی نہیں رکی ہے، اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی ’خواہش‘ کا اظہار کیا ہے کہ کراچی کے ضلع ’جنوبی‘ کا نام تبدیل کر کے ’کراچی‘ ضلع کا نام دے دیا جائے اور کراچی کے باقی اضلاع (یعنی کراچی وسطی، کراچی غربی اور کراچی شرقی) کو بھی انھی کے کسی علاقوں سے منسوب کر دیا جائے، یعنی جیسے ضلع ’کورنگی‘ اور ضلع ’ملیر‘ کو ہم شہر قائد کا حصہ سمجھ رہے تھے، ’سندھ سرکار‘ کی جانب سے اس نام کی تبدیلی میں کراچی سے علیحدگی کا منصوبہ پنہاں تھا!

ذرا یاد کیجیے، کچھ عرصے قبل کراچی کے ضلع ’وسطی‘ اور ’کورنگی‘ کو ملا کر الگ ’شہر‘ اور ضلع جنوبی اور باقی شہر کو ’دوسرا شہر‘ بنانے کی بازگشت سنائی دی تھی اور کہا گیا تھا کہ اب کراچی کے ایک کے بہ جائے دو مئیر ہوں گے۔ ناقدین کے بقول اس سے پیپلز پارٹی کے ’شہر قائد‘ پر حکم رانی کرنے کا ’خواب‘ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور آج دیکھ لیجیے کہ وزیراعلیٰ کی ’خواہش‘ کے ذریعے یہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، اب عملاً اس طرف پیش رفت شروع کر دی گئی ہے۔

اس طرح جب ’نقشے اور کاغذات پر ’کراچی‘ صرف ایک ضلع کا نام رہ جائے گا، جو صرف آج کے ’ضلع کراچی جنوبی‘ پر مشتمل ہوگا اور اس کی حدود میں ڈیفنس کلفٹن سے لے کر کینٹ اسٹیشن، صدر، برنس روڈ، گارڈن، رنچھوڑ لائن، لیاری، بولٹن مارکیٹ، ٹاور، کھارادر وغیرہ سمیت تمام اہم علاقے شامل ہوں گے، اس میں وہ ’ریڈ زون‘ بھی ہوگا، جہاں وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس وغیرہ واقع ہیں اور سندھ اسمبلی بھی اس ضلعے میں ہوگی۔ ان دنوں ’ضلع کراچی جنوبی‘ میں ’ضلعی چیئرمین‘ پیپلز پارٹی کا ہے، اس لیے اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ کل کو ’’کراچی‘‘ کا ’’مینڈیٹ‘‘ کس سیاسی جماعت کے پاس جانے کا ’امکان‘ ہوگا۔

اب آپ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ کراچی میں ساتویں ضلعے کے لیے جو ’لیاری ضلع‘ کی دبی دبی سی بازگشت 2013سے سنائی دینے لگی تھی، کہ جب ضلع ’شرقی‘ سے الگ کرکے لانڈھی، کورنگی اور شاہ فیصل کالونی وغیرہ پر مشتمل چھٹا ضلع ’کورنگی‘ بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ بات دل چسپ ہے کہ ضلع ’کورنگی‘ کا قیام متحدہ قومی موومنٹ‘ پر ’کرم نوازی‘ کی طرح معلوم ہوا تھا، لوگوں نے درپردہ اسے ’متحدہ‘ کا مطالبہ بھی قرار دیا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ چھٹے ضلعے کا قیام سبھی نے بہت خاموشی سے برداشت کر لیا تھا پھر جب 2015میں ’بلدیاتی انتخابات‘ ہوئے تو کراچی میں سب سے زیادہ یونین کونسلوں والے ضلع کراچی ’وسطی‘ کے بعد ’کورنگی‘ ہی کراچی کا دوسرا ضلع تھا، جہاں ’ایم کیو ایم‘ بہ آسانی اپنا چیئرمین لانے میں کام یاب ہوگئی تھی۔

وہ الگ بات ہے کہ بعد میں ضلع ’شرقی‘ اور پھر غیر متوقع طور پر ضلع ’غربی ‘ بھی اس کی جھولی میں آگرا تھا لیکن اب جب کہ ’کراچی غربی‘ کے درمیان ضلعی سرحدیں استوار کر کے ’کیماڑی‘ کو جدا کر دیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ سیاسی فائدے اور نقصانات بھی سامنے آئیں گے۔ کراچی اور سندھ کی سماجیات اور سیاسیات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز صحافی اور دانش ور محمد عثمان جامعی کے بقول الگ ’کیماڑی‘ ضلع کے قیام کا شوشہ چھوڑ کر شہر قائد کو ایک بار پھر لسانی کشیدگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ساتواں ضلع ’لیاری‘ کے بہ جائے ’کیماڑی‘ کیوں بنایا گیا؟ تو ایک بار پھر یاد کیجیے وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ کی ’خواہش‘ کہ صرف ’ضلع جنوبی‘ کا نام ہی ’کراچی‘ ہو، باقی اضلاع کے اپنے الگ نام ہوں اور اب ذرا ایک بار پھر ضلع ’کراچی جنوبی‘ کے حدود پر بھی نگاہ دوڑایے، تو واضح ہو جائے گا کہ ’لیاری‘ اسی ’ضلع جنوبی‘ کا حصہ ہے، یعنی ڈیفنس ویو، منظور کالونی، محمود آباد سے لے کر ہل پارک، دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، بہادر آباد، طارق روڈ، گلشن اقبال اور گلستان جوہر یہاں تک کہ جامعہ کراچی اور ’مزار قائد‘ تک ’کراچی‘ کا ’حصہ‘ نہیں ہوں گے، (یعنی کراچی پھر ’شہر قائد‘ بھی نہیں کہلا سکے گا!)

دوسری طرف کورنگی انڈسٹریل ایریا اور لانڈھی، کورنگی اور شاہ فیصل تو پہلے ہی ’کاغذی طور پر‘ ’کورنگی‘ ضلع بنا کے کراچی سے ’’باہر‘‘ کر دیے گئے ہیں۔ اب گرومندر، پٹیل پاڑہ، لسبیلہ، پیر کالونی، ناظم آباد، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد سے لے کر نارتھ کراچی وغیرہ تک سب سے کے سب بہ یک جنبش قلم کراچی سے باہر ’’نکال‘‘ دیے جائیں گے۔ یہ اگر لیاری کو ضلع بناتے، تو پھر ’لیاری‘ وزیراعلیٰ کی خواہش والے مجوزہ ’’کراچی ضلع‘‘ سے باہر ہو جاتا، اب جب کہ حکم راں پیپلز پارٹی ’لیاری‘ کو اپنا مضبوط حلقہ سمجھتی ہے، جو ضلع جنوبی میں شامل ہے، تو اسے الگ کر کے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیوں کرے؟

یہ بھی نہ بھولیے گا کہ ’کراچی ضلع‘ کی خواہش کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ نے ’بلدیاتی ایکٹ 2013‘ میں بھی تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے، جس میں امکان یہی محسوس ہوتا ہے کہ پھر کراچی کے ساتوں اضلاع چیئرمینوں کے بہ جائے ’میئر‘ کے سپرد ہو جائیں گے، یوں سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، یعنی یوں ہی ’نقشہ‘ بنانے سے ’’کراچی‘‘ کا مینڈیٹ بھی انھیں مل جائے گا اور حکام خم ٹھونک کر کہہ سکیں گے کہ ’دیکھ لو کراچی کا میئر اب ہمارا ہے!‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔