رشتوں کی تلاش اور شادی کی عمر

رضوانہ قائد  جمعـء 4 ستمبر 2020
شادی کی عمر گزر جانا یا گزار دینا بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شادی کی عمر گزر جانا یا گزار دینا بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’رشتوں کی تو کمی نہ تھی۔ امی ابو بس اچھے سے اچھے رشتے کے انتظار میں وقت گزارتے رہے، اب میری شادی کی عمر ہی گزر گئی۔‘‘

’’یار… تم اپنے شوہر سے کہو کہ اپنے دوستوں میں میرے لیے کوئی کم مناسب ہی سہی رشتہ تلاش کردیں، چاہے بےروزگار ہی ہو۔‘‘

’’ہمارے نصیب میں تو لڑکوں کے بجائے ان کی ریجیکشن ہی ہے۔ لڑکیوں کے والدین سے میری ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ اچھے رشتے کی تلاش کی کوئی حد مقرر کریں۔ حسن میں یکتا، اعلیٰ تعلیم یافتہ امیر کبیر لڑکی بھی شادی کی عمر گزر جانے کے بعد معاشرے کےلیے ’غیر معیاری‘ ہوجاتی ہے۔‘‘

یہ کسی افسانے یا ڈرامے کے کرداروں کے ڈائیلاگ نہیں، ہمارے ہی اردگرد کے زندہ کرداروں کی فریادیں ہیں۔ یہ تو تیس سے چالیس سال کے درمیان کی غیر شادی شدہ اسمارٹ، پوش گھرانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ ایسی خواتین لڑکے والوں کو بھگت بھگت کر دل کی باتیں زبان پر لے ہی آتی ہیں۔ جبکہ ان کے علاوہ بھی ان ہی عمروں کی طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کی تعداد بھی معاشرے میں بڑھ رہی ہے۔ سنگل پیرنٹ کی مغربی اصطلاح ہمارے ہاں بھی عام ہورہی ہے۔ مغرب میں خاندان کا تصور ہماری طرح نہیں۔ خاندانی اقدار نہ ہونے کے باوجود حکومتی تحفظ موجود ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں اسلامی معاشرہ بھی ہے اور خاندانی اقدار بھی، اس کے باوجود سنگل پیرنٹ، طلاق یافتہ، بیوہ یا بڑی عمر کی خواتین کو معاشرے میں جس قسم کے اذیت ناک رویوں کا سامنا ہے، وہ ہماری تنگ نظری کی مثال ہے۔

شادی کی عمر گزر جانا یا گزار دینا بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ شادی کی عمر سے متعلق ہمارے ہاں مفروضات کو روایات کی زنجیریں بنادیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ’شادی کی عمر‘ کا پیمانہ لڑکیوں کےلیے زیادہ ضروری بنادیا گیا ہے۔ لڑکا چاہے ’انکل‘ کی عمر کو پہنچ جائے لیکن لڑکی، لڑکی ہی مطلوب ہے، آنٹی نہیں۔ ’شادی کی عمر‘ جس طرح ہمارے ہاں موضوعِ بحث اور رشتے جڑنے اور ٹوٹنے کا لازمی حصہ بن گئی ہے، اس کا دین میں بھی کچھ تذکرہ ہے؟

ترجمہ: اور اپنے میں سے مجرّد لوگوں کا نکاح کرادو۔ سورۃ النور: 32)

یعنی، دین تو چاہتا ہے کہ معاشرے کا کوئی مرد بغیر بیوی کے اور کوئی عورت بغیر شوہر کے نہ رہے۔ اسی لیے مجرّد (بےزوج) لوگوں کے نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو وہ اس حکم کی پابند ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کےلیے نکاح کی سہولیات فراہم کرے۔ حکومت ’’مدینے کی ریاست‘‘ نہ بن سکے تو معاشرے اور خاندان کی ذمے داری ہے کہ وہ نکاح کے اسلامی طریقوں کو رواج دے۔ اس کی سہولیات فراہم کرے اور اس کی رکاوٹیں دور کرے تاکہ کوئی شخص بے نکاح نہ رہے۔

عہدِ نبویؐ اور عہدِ صحابہؓ کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ اس زمانے میں بہت آسانی سے نکاح ہوجایا کرتے تھے۔ جنگوں کے نتیجے میں ایک عورت بار بار بیوہ ہوجاتی تھی۔ اس کے باوجود اس کے اگلے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی تھی۔ اسی طرح ایک عورت کو طلاق ہوجاتی تھی تو آسانی سے اس کا دوسرا نکاح ہوجاتا تھا۔ اس دور میں زوجین کی عمروں میں فرق کے باوجود آسانی سے نکاح ہوجاتے تھے۔ زیادہ عمر کی عورت کا نکاح نوجوان مرد سے ہوجاتا تھا۔ اسی طرح کم عمر کی عورت کا نکاح زیادہ عمر کے مرد کے ساتھ ہوجانا معاشرے کے معروف طریقے تھے۔

کبھی سوچا ہے اسلامی معاشرے کے یہ معروف طریقے ہمارے ہاں اجنبی کیوں بنتے جارہے ہیں؟ اسلام نے مرد کو قوام، خاندان کا سربراہ بنایا ہے تو خاندانی معاملات بھی مردوں کی سرپرستی میں انجام پاتے تھے۔ آج عام مشاہدہ ہے کہ نئے خاندان کی بنیاد رکھنے کے ہی معاملے میں مرد کتنے سہل پسند بن گئے ہیں۔ شادی کےلیے اپنا تصوراتی پیکر گھر والوں کے حوالے کرکے انتظار میں وقت گزارتے رہتے ہیں۔ کتنے مرد ہیں جو امی بہنوں سے اس سلسلے کا فیڈ بیک بھی پوچھنے کی زحمت کرتے ہیں؟ اماں، بہنیں گھر گھر، سائٹ در سائٹ کتنی ہی لڑکیوں کو مسترد کرتی پھریں، کتنے لوگ اس کو ڈسکس کرتے ہیں؟ کتنے لڑکوں اور ان کی ماں بہنوں کو خیال ہے کہ ان کا یہ ظالمانہ عمل کتنی لڑکیوں کو ڈپریشن اور خودکشی پر مجبور کررہا ہے؟

ایک صاحب کےلیے دلہن کی تلاش میں ان کی اماں بہنوں نے اکیاسی لڑکیاں مسترد کردیں۔ بیاسیویں لڑکی کی باری میں لڑکے کو پتا چلا تو وہ اس ظلم کے خلاف ڈٹ گیا اور وہیں شادی ہوئی۔

ایسے واقعات معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ایسی ہی خوبصورت مثال سوشل میڈیا پر سامنے آئی تو لگا روایات کے کیچڑ میں پھول مہک اٹھا۔ یہ ایک خوبصورت پڑھے لکھے نوجوان شہباز کی کہانی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لڑکے اپنی مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ رشتوں کے انبار ہوتے ہیں ان کے سامنے۔ میری نظر سے اس کی پوسٹ گزری تو اس عظیم کامیابی کےلیے پہلا خیال یہی آیا کہ لڑکا باہمت ہوگا۔ پھر یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اصل کردار لڑکے کا ہے۔ خاندان کی، اپنے سے بارہ سال بڑی اور طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کا فیصلہ روایات کے جامد ماحول میں آسان نہیں ہوتا۔ شہباز نے نیک نیتی کے ساتھ اس جمود پر ضرب لگانے کی کوشش کی تو کامیابی بھی اس کا نصیب بنی۔ شادی کے تمام مراحل میں اس کی نیک نیتی، مثبت سوچ اور ارادے کی مضبوطی ہی اصل مددگار رہے۔ لڑکی کے سماجی تمسخر اور باتیں سننے جیسے خدشات تھے۔ مگر شہباز کی حقیقت پسندی نے اسے اعتماد دیا اور رضامندی پر آمادہ کیا۔ ایسے لڑکوں کی ماں بہنوں کے جتنے بھی ’’ارمان”‘‘ ہوں، کم ہیں۔ شہباز کی مضبوطی اور ثابت قدمی نے ان کے ارمانوں کے قبلے کو درست کیا۔ یہاں تک کہ معاشرتی معیار کے لحاظ سے ایک ’بے جوڑ‘ لڑکی ان کے گھر کی پسندیدہ دلہن بننے کی حق دار ٹھہرگئی۔ اس فیصلے سے لڑکی اور لڑکی کے گھر والوں کے چہروں پر خوشیوں کی واپسی شہباز کی خوشی اور اطمینان کا باعث بن گئی۔ صرف اس لیے کہ اس کے پیشِ نظر آخرت بھی تھی۔ اس کا اعتماد ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو نہیں بھولتا۔ اس کا اجر اسے ضرور ملے گا۔

شہباز کے مطابق ہمارے معاشرے کی بدحالی میں قصور یہاں کے رہنے والوں کا ہی ہے۔ ہمارے ہاں آخرت کو نظرانداز کرکے صرف دنیا اور دنیا کے فائدوں ہی کو معیار بنادیا گیا۔ نیکی، اسلامی احکام، دین کے طریقے ہماری دروس کے حصے بن کر صرف سننے کے ثواب کا ذریعہ بنادیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اسلام وہ سمجھا جاتا ہے جس کی تبلیغ ہوتی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة، جہاد۔ عمل کی تیاری اور اسی کی مشقیں ہیں۔ یہ ہمیں نہیں معلوم، اس لیے کہ عملی نمونے سامنے نہیں۔ اسلام کی روح انسانیت، اخلاقیات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہمارے علما دروس میں اپنی اور اپنے زمانے کی مثالیں کیوں سامنے نہیں لاتے؟ میرے نبی پاکؐ درس دیتے تو مثال کےلیے سامنے ان کے عمل کے طریقے ہوتے تھے۔ اس لیے کہ انسانی فطرت ہے وہ سننے سے زیادہ دہکھنے کا اثر لیتا ہے۔ آپؐ کی عملی مثالوں کے باعث اس وقت معاشرے میں بھی عملی مسلمان تھے۔

شہباز اپنی سوچ اور مثال کو اپنے خاندان اور معاشرے میں عام کرکے جامد اسلامی روایات کو متحرک کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھرپور خوشیاں اور کامیابیاں نصیب فرمائیں۔

معاشرے کو قاتل روایات کے جال سے آزاد کرانے کےلیے کرگسوں کی نہیں ’’شہبازوں‘‘ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ہاں تو پھر کون کون شہباز بننے کی ہمت کررہا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔