بُک شیلف

بشیر واثق / غلام محی الدین  اتوار 20 ستمبر 2020
جانیے دلچسپ و عجیب کتابوں کے احوال۔فوٹو:فائل

جانیے دلچسپ و عجیب کتابوں کے احوال۔فوٹو:فائل

(تبصرہ نگار: بشیر واثق)
تسہیل البیان فی تفسیر القرآن ( جلد اول)
مصنفہ: شکیلہ افضل، ہدیہ: 500 روپے
ملنے کا پتہ:637-J-11 محمد علی جوہر ٹائون، لاہور

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے جو حضور اکرمﷺ کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے قیامت تک کی رہنمائی اس میں عطا فرما دی ہے، اس لئے ہر مسلمان کے لئے اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اسے اپنے لئے مشعل راہ بنا سکے۔ زیر نظر کتاب قرآن فہمی کو آسان بنانے کے لئے تدوین کی گئی ہے، عاصمہ غنی کہتی ہیں

’’ مولفہ اپنی ساری محنت و کوشش کو اپنے جیسی گھریلو خواتین کیلئے آسانی سے قرآن سمجھنے اور استفادہ کیلئے شائع کرانے کاجذبہ رکھتی ہیں تاکہ معمولی تعلیم یافتہ خاتون بھی کم وقت میں آسانی سے قرآن کی بنیادی تعلیمات سے آشنا ہو جائے، کلام الہیٰ سے واقفیت حاصل ہو جائے اور زندگی کائنات کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق گزارنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ مولفہ کی اس مخلصانہ جدوجہد کو قبول کرے، لوگ اس مقصود کو حاصل کر لیں ۔ ‘‘ محترمہ شکیلہ افضل نے ’’ تسہیل البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں قرآن پاک کے پہلے گیارہ پاروں کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی ہے۔ ترجمہ اور تفسیر بہت سلیس اور عام فہم زبان میں کیا گیا ہے ۔

ہر آیت کے ساتھ اس کا بامحاورہ ترجمہ اور آگے خلاصہ تفسیر ہے ۔آسانی کیلئے ذیلی سرخیاں دی گئی ہیں، ان ذیلی سرخیوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے تاکہ اگر کسی کو خاص عنوان کی تلاش ہو تو اسے آسانی رہے۔آخری صفحہ پر سرٹیفیکیٹ کی کاپی بھی شائع کی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب کو اغلاط سے مبراء شائع کرنے کے لئے مکمل کاوش کی گئی ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

افسانہ حجاز
مصنف: عبدالغفور، قیمت:3500 روپے، صفحات: 240
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل بینک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ

سفر حج کی روداد متعدد لکھاریوں نے تحریر کی، سب کا انداز بھی جدا ہے، مگر عجب بات یہ ہے کہ حج کی روداد پڑھنے کا مزہ ایک سا آتا ہے۔ مکہ اور مدینہ سے محبت اور دلی لگائو مسلمان کو ہر اس روداد کو ذوق و شوق سے پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے جس کا تعلق ان دو مقدس مقامات سے ہو، یہی جذبہ لکھنے والوں میں بھی کارفرما ہوتا ہے گویا قاری اور لکھاری اس حوالے سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں اور محبت کے سمندر میں بہے چلے جاتے ہیں۔ مصنف نے بھی اپنا سفرنامہ حج ایسے ہی ذوق و شوق سے لکھا ہے۔

علامہ عبدالستار عاصم کہتے ہیں ’’ یہ کتاب سفرنامے کے ساتھ ساتھ عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرنے والوں کے لیے ’’ گائیڈ بک‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک حاجی کو گھر سے حجاز مقدس تک کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان مشکلات کا حل کیا ہے ان کی بڑی خوبصورتی سے راہنمائی کی گئی ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک مذہبی فریضہ کے ساتھ ساتھ ادبی خدمت بھی ہے۔‘‘ اسی طرح تفاخر محمود گوندل کہتے ہیں ’’ جناب عبدالغفور نے مظہر جلال کبریا بیت اللہ شریف اور مظہر جمال مصظفٰےﷺ مدینہ شریف میں حاضری کے دوران جس عالم وجد میں غوطہ زنی کرتے ہوئے اپنے تاثرات رقم کیے ہیں اس کی داد میرے امکان میں نہیں اور پھر واقعات کی ترتیب و تدوین اس خوبصورتی اور نظم کے ساتھ ضبط تحریر میں لے آئے ہیں کہ قاری عالم ازخود رفتگی میں خود کو انھی مقامات پر موجود تصور کرتا ہے۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

یادوں کے جنازے
مصنف: سعداللہ جان برق، قیمت:3500 روپے، صفحات:772
ناشر:قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ ،
والٹن روڈ ، لاہور کینٹ(0300 0515101)

اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرنا کہنے کو تو بہت آسان دکھائی دیتا ہے مگر اصل میں یہ سب سے مشکل کام ہے کیونکہ زندگی کی راہگزر میں آنے والے اتار چڑھائو کو بلاکم و کاست بیان کرنا انتہائی مشکل ہے، بہتوں کی پردہ داری مانع ہوتی ہے۔ تاہم اگر کوئی بڑا آدمی اس خارزار میں آبلہ پائی کرتا ہے تو اس کی آپ بیتی کا ہر ورق دوسروں کے لئے مشعل راہ ہوتا ہے۔ قاری کو تجسس ہوتا ہے کہ یہ شخصیت اتنے اہم مقام تک کیسے پہنچی اور اسے اس میں کیا مشکلات پیش آئیں اور وہ اپنی زندگی کو کس ڈھب پر گزارے کہ زندگی میں اپنا من چاہا مقام حاصل کر سکے۔ سعداللہ جان برق صاحب بھی اپنی تحریروں کی وجہ سے ہردلعزیز ہیں اور ہر کوئی ان کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔

ان کی تحریر کی ادبی چاشنی، سلاست اور بے ساختگی قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے، اور پھر اس میں پایا جانے والا طنز و مزاح تحریر کی شان اور بڑھا دیتا ہے ۔ ’’یادوں کے جنازے ‘‘ میں انھوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو بڑے شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے، ان کا انداز بیان دل کو چھو لینے والا ہے، قاری تحریر کے بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، معلومات کا ایک خزانہ ہے جو وہ دونوں ہاتھوں سے لٹاتے چلے جاتے ہیں، یہی چیز انھیں منفرد کرتی ہے۔ ادب میں خاصے کی چیز ہے، قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔ مجلد کتاب کو منفرد ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

پہلی پیشی
مصنف: ناصر بشیر، قیمت:300 روپے، صفحات:176
ناشر:کتاب ورثہ، غزنی سٹریٹ،اردو بازار، لاہور (0333 4377794)
بلاوا اور پیشی دونوں الفاظ سننے میں تو ایک جیسے ہیں مگر غور کریں تو معانی بدل جاتے ہیں ۔ بلاوا ہمیشہ محبت سے ہوتا ہے مگر پیشی میں خطاواری کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ ناصر بشیر صاحب نے ان الفاظ کا خوب استعمال کیا ہے اور حضور اعلیٰﷺ کے حضور حاضری کو ادب سے پیشی کہا ہے، ورنہ نبی رحمتﷺ کے ہاں سے تو ہمیشہ بلاوا ہی آتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

ناصر بشیر صاحب نے اپنے عمرے کی روداد بھی کیا خوب انداز میں بیان کی ہے کہ قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ’’ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ناصر بشیر زیادہ اچھے شاعر ہیں یا نثر نگار ۔۔۔ غزل میں تو انھوں نے اپنا نقش جمایا ہی تھا، نظم میں انھوں نے مولانا ظفر علی خان کی پیروی کر کے دکھا دی ہے۔ وہ مشکل سے مشکل زمین میں بڑی آسانی اور روانی کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں ۔ انھوں نے دو برس پہلے رمضان المبارک کے مہینے میں ہمارے اخبار میں ہر روز نعت لکھ کر دربار رسالت ﷺ میں حاضری کی سعادت حاصل کی، اور پھر روداد سفر ایک نئے جذبے اور شوق سے لکھ ڈالی ۔ اس سفر نامے کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ سے گواہی ملتی ہے کہ یہ ایک مقدس سفر کا کوئی روایتی روزنامچہ نہیں ہے۔ اسے بجا طور پر ایک زندہ اور شگفتہ روداد کہا جا سکتا ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی اور ان کے دلوں میں وہ آتش بھڑکا دیتی ہے جو دیار رسولﷺ میں جا کر ہی سرد ہو سکتی ہے ۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

دہشت گردی سے ٹی وی تک
مصنفین : قیصر عباس، فاروق سلہریا

پاکستانی ذرائع ابلاغ اپنی آ زادانہ روش، مزاحمت اورصحافت پر عائد پابندیوں کے لئے دنیا بھرمیں پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ ستر سال کے دوران ملکی میڈیا مسلسل دباو کا شکار رہے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر عباس اور فاروق سلہریا کی مدون کردہ نئی کتاب اس کہانی کو نئے تحقیقی زاویوں سے پیش کررہی ہے۔ اکیڈیمک کتابیں شائع کرنے والے معرو ف بین الاقوامی اشاعتی ادارے روٹلیج کے زیراہتمام شائع ہونے والی یہ نئی تصنیف’’ فرام ٹیرر ازم ٹو ٹیلی وژن: ڈائنا مکس آف میڈیا، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی ‘‘ دہشت گردی سے لے کر میڈیا کے جہادی پروگرام ، آزادی اظہار، ٹی وی ٹاک شوز میں کشمیر کی کوریج، ملالہ یوسف زئی اور مختاراں مائی کی بین الاقوامی شبیہہ ، قومی اخبارات میں بلوچستان کی کوریج، سوشل میڈیا میں خواتین صحافیوں کی ہراسگی، اسامہ بن لادن اور میڈیا،آسکر انعام یافتہ پاکستانی ڈاکومنٹری اور دوسرے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ تصنیف نہ صرف صحافیوں اور میڈیا کے مسائل بلکہ ریاست اور ذرائع ابلاغ کے کردار کا تجزیہ اکیسویں صدی کے سماجی پہلووں کے حوالے سے کرتی ہے۔ تصنیف کے مدیرڈاکٹر قیصرعباس امریکہ میں ماہر ابلاغیات ہیں اور امریکی یونیورسٹیز میں پروفیسر اور اسسٹنٹ ڈین رہ چکے ہیں ۔ مدیرِمعاون فاروق سلہریا بھی پاکستان کے صحافی ہیں جو لندن سے ڈاکٹریٹ کے بعد اب بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ دونوں نے کتاب کے تمہیدی باب میں ملک میں ذرائع ابلاغ کے ارتقا کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے میڈیا، ریاست اور سماج کے باہمی تعلق پر ایک نئی تھیوری تشکیل دی ہے جو اس تصنیف کا نظریاتی جواز بھی ہے۔

کتاب میں پاکستان ، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے پاکستانی میڈیا کے محققین اور صحافیوں نے ان متنوع موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جن پر ابھی تک تحقیقی کام نہیں ہوا۔ ان مصنفین میں دونوں مدیروں کے علاوہ فوزیہ افضل خان، فیض اللہ جان، عافیہ شہربانو ضیا، عائشہ خان، امیر حمزہ مروان، حیافاطمہ اقبال اورعدنان عامر شامل ہیں۔ کتاب میں ملک کے تین سینئر صحافیوں اور دانشوروںآئی اے رحمان، ڈاکٹر مہدی حسن اور ڈاکٹر ایرک رحیم کے انٹرویو بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک میں صحافیوں کے مسائل اور آزادی اظہار پر اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں دانشورانہ تجزیے پیش کئے ہیں ۔ تصنیف کو ملک کے ان چارصحافیوں۔۔۔ مسعود اللہ خان، ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی اور اقبال جعفری۔۔۔ کے نام معنون کیا گیا ہے جنہیں جنرل ضیاکے آمرانہ دور میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ان تمام دانشوروں اور صحافیوں کو خراج عقیدت کا استعارہ بھی ہے جنہوں نے آزادی اظہار کے لئے قربانیاں دی ہیں۔

 

افتخار تفاخر
مصنف: تفاخر محمود گوندل، قیمت:3500 روپے، صفحات:207
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ والٹن روڈ، لاہور کینٹ
مدح سرائی کے معنی ہیں کسی کی تعریف کرنا، گن گانا یا کسی کی خوبیوں کو بیان کرنا، مگر اس میں انصاف کرنا ذرا مشکل کام ہے۔ تفاخر محمود گوندل کو مدح سرائی کرنے میں جو ید طولیٰ حاصل ہے وہ بہت کم لکھاریوں کو نصیب ہوا ہے، کیونکہ وہ گفتار کے ساتھ ساتھ تحریر کے بھی غازی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے پروفیسر سید افتخار حسین شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، ان کے شب و روز بیان کئے ہیں، ان کی مہربانیاں اور عنائتیں نثر میں پیش کی ہیں، مگر اس میں بھی شاعری کا سا انداز غالب ہے ۔

لکھتے ہیں ’’میں اپنے ان محسوسات و مشاہدات کو ضبط تحریر میں لایا ہوں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ اگر کوئی ’’افتخار تفاخر‘‘کو ناقابل تردید حقائق کی ترجمانی سمجھتا ہے تو یہ اس کا ظرف ہے اور اگر کوئی اسے داستان خوشامد قرار دیتا ہے تو اسے ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے یا اس کی اپنی سوچ ہے۔

ہر کسی کو بے لاگ رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘پروفیسر ہارون الرشید تبسم کہتے ہیں ’’افتخار تفاخر‘‘ انسان شناسی کی ایک اہم مثال ہے۔ تفاخر محمود گوندل نے اپنی رفاقت کے تناظر میں ممتاز ماہر تعلیم سید افتخار حسین شاہ کی منفرد انداز میں سوانح عمری تحریر کر کے اردو نثر میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔‘‘ اس کتاب کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے اسے ضبط تحریر میں لانے سے قبل متعلقہ شخصیت سے اجازت لی جو انھوں نے کافی غورو خوض کے بعد دی، شاید وہ اپنے گن عیاں ہونے سے بچنا چاہتے ہوں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب پرنٹنگ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

The Holy Quran A Continuous Miracle

قرآن حکیم انسان کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سب سے مستند سرچشمہ ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جو کسی شک و شبہ کے بغیر دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، اس کلام کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ یہ رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کی رہنمائی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انسانی ارتقا کا سفر قرآن پاک کی حقانیت پر گواہی دیتا چلا آرہا ہے حالانکہ گزرتا ہوا وقت افکار و نظریات کی حالات اور ادوار کے ساتھ موافقت اور موزونیت کو متاثر ضرور کرتا ہے۔ قرآن پاک اللہ کی آخری کتاب ہے جو قیامت تک کے لئے ہر دور کے سوالات کا جواب دینے کی قدرت رکھتی ہے۔

زیر نظر کتاب The Holy Quran A Continuous Miracle  پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرام چودھری کی ایسی کاوش ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر قرآن کے اسی معجزاتی وصف کو موضوع بنایا ہے۔ یعنی قرٓن پاک کی انسانی زندگیوں کے ساتھ مطابقت ا ور مناسبت کا آج بھی وہی عالم ہے جواس کے نزول کے وقت تھا اور یہی صورت اُس لمحے تک قائم رہے گی جوکہ اِس کائنات کا لمحۂ اختتام ہوگا۔پروفیسر محمد اکرام چودھری پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں اور اب سب سے سینئر پروفیسر کے طور پر ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی عربی، انگریزی اور اُردو زبانوں میں تحقیقی اور تجزیاتی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

انہوں نے اپنی اس کتاب میں قرآن کریم کے اِس خیرت انگیز پہلو کو اپنا موضوع بنایا ہے کہ اس کلام کے اندر جو الفاظ ا ور اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے اس قدر جامع اور اپنے مضمون کے ساتھ موزونیت رکھتی ہیں کہ عربی زبان کے الفاظ میں وارد ہونے والی معنوی وسعت اور تنوع کا کوئی اثر قرآن پاک پر نہیںہوتا۔بلکہ قرآن پاک کی زبان کی جامعیت تمام تغیر و تبدل پر مکمل طور پر حاوی چلی آرہی ہے۔

مصنف نے کتاب کو 13ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب قرآن پاک پڑھنے والوں کے لیے ہدایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں قرآن کریم کے نزول سے لے کر کتاب کی صورت میں مجتمع کرنے کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ تیسرے باب میں اس اہم نقطے پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قرآن فہمی کے لئے حدیث کیوں ضروری ہے۔ چوتھے باب میں اہم قرآنی موضوعات کا ذکر ہے۔پانچویں باب میں قرآن حکیم کی زبان‘ تراجم اور مختلف لہجوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چھٹے باب میں قرآن پاک کے حوالے سے اس نئی جہت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ زبان میں ارتقا اور معنوی وسعت اور تنوع کیونکر اس عظیم کتاب پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ ساتویں باب میں قرآن پاک اور انسانی اخلاقی تقاضوں کا تذکرہ ہے۔

آٹھویں باب کا عنوان ہے ’’قرآن پاک تضادات سے مکمل طور پر پاک ہے۔‘‘ نویں باب میں تعلیم اور مدرسوں کے نظام کے بارے میں قرآنی دانش کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اس حوالے سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ دسویں باب میں ایک نہایت اہم موضوع زیر بحث لایا گیا ہے یعنی ’’قرآن حکیم اورمستشرقین‘‘۔ اگلے باب کا موضوع ہے ’’قرآن کریم اور فطری مظاہر۔‘‘ بارہویں باب کو سماجی مسائل اور قرآن حکیم کے موضوع کے تحت منظم کیا گیا ہے جبکہ تیرہواں باب متفرقات کے عنوان کے تحت ہے۔

یہ کتاب بجا طور پر ڈاکٹر اکرام چودھری کی نہایت مفید کاوش ہے جو نئے پہلوؤں کے ساتھ قرآن حکیم کے مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ بھی قرآن پاک کا عظیم اعجاز ہے کہ رہتی دنیا تک اسے سمجھنے اور اس سے فیض حاصل کرنے کے نئے پہلو اُجاگر ہوتے رہیںگے۔ اس کتاب کے مطالعہ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بالخصوص اُردو اور بعدازاں دیگر زبانوں میں تراجم شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کتاب کو بزم اقبال 2کلب روڈ لاہور فون99200851 نے شائع کیا ہے۔ پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ قیمت 800روپے ہے۔(تبصرہ نگار: غلام محی الدین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔