بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے نئے وی سی چارج لینے سے گریزاں

صفدر رضوی  پير 28 ستمبر 2020
ڈاکٹر فتح محمد چارج سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ترجیح زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام ہے، ذرائع ۔  فوٹو : ایکسپریس

ڈاکٹر فتح محمد چارج سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ترجیح زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام ہے، ذرائع ۔ فوٹو : ایکسپریس

 کراچی: بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے تاحال چارج نہیں سنبھالا۔ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری کی تقرری کے نوٹیفکیشن کو تقریبا 2 ہفتے گزر چکے ہیں مگر وہ چارج لینے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔

ذرائع بتاتےہیں کہ وہ لیاری یونیورسٹی کا چارج سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’’ایکسپریس‘‘ کو وائس چانسلر تلاش کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ دوران انٹرویو بھی ڈاکٹر مری نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام ہے اور وہ مذکورہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی آسامی کے امیدوار بھی ہیں۔  یاد رہے کہ لیاری یونیورسٹی میں  ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن 16 ستمبر کو جاری ہوا تھا جبکہ سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ نئے سربراہ کی تقرری کے نوٹیفکیشن کے باوجود ان کی جانب سے چارج نہ لینے کے سبب یونیورسٹی تو آرہے ہیں تاہم صرف روز مرہ کے امور کی نگرانی کررہے ہیں۔  ڈاکٹر فتح محمد مری اس وقت وفاقی ایچ ای سی کے ملازم ہیں اور ایچ ای سی کے قائم مقام ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کا چارج بھی ان ہی کے پاس ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اس حوالے سے جب ڈاکٹر فتح مری سے رابطہ کیا تو انھوں نے رواں ماہ چارج نہ لینے کی اطلاع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایچ ای سی میں سینئر پوسٹ پر ہیں اور کئی ایک اسائنمنٹس پر کام کررہے ہیں لہٰذا فوری طور پر یونیورسٹی کا چارج نہیں لے سکتے،  انھیں یونیورسٹی کا چارج لینے میں کم از کم 2 یا پھر 4 ہفتے مزید لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سن 2011 میں قائم ہونے والی لیاری یونیورسٹی حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے سبب انتظامی اور تدریسی زبوں  حالی کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے سینیٹ کا اجلاس 6 سال جبکہ فیصلہ ساز اور بااختیار ادارے سینڈیکیٹ کا اجلاس ڈیڑھ سال سے نہیں ہوا ہے جس کے سبب یونیورسٹی میں کلیدی عہدوں پرنئی تقرریاں اور اساتذہ کی ترقیاں  رکی ہوئی ہیں۔ سینیٹ کا اجلاس آخری بار یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر آر اے شاہ کے دور میں سن 2014 میں ہوا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تقریباً چار برسوں میں ایک بار بھی خود سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کے لیے تیار ہوئے اور نہ ہی اجلاس کے انعقاد کی اجازت دی جس کے سبب گذشتہ 6 برسوں میں ایک بار بھی یونیورسٹی کا بجٹ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا،  2019 کے وسط میں اراکین سینڈیکیٹ میں سے اکثر کی مدت پوری ہوگئی اور یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ ٹوٹ گئی۔  نئی سینڈیکیٹ کی تکمیل کے لیے مختلف عہدوں پر اراکین کی نامزدگیاں وزیر اعلی سندھ کو کرنی ہیں۔  یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ ایک سال میں تین بار سمری بھجوانے کے باوجود سینڈیکیٹ کے نئے اراکین کی نامزدگیاں نہیں ہوسکیں۔

سنڈیکیٹ مکمل نہ ہونے سے یونیورسٹی کا سلیکشن بورڈ نامکمل ہے اور سلیکشن بورڈ کی عدم موجودگی کے سبب اساتذہ کی ترقیاں ہوپارہی ہیں نہ ہی نئی تقرریاں کی جارہی ہیں۔ لیاری یونیورسٹی میں اس وقت مستقل رجسٹرار، ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ سیل، کنٹرولر آف ایگزامینیشن اور دیگر اہم اسامیاں بھی خالی ہیں۔

تدریسی شعبوں کا بھی برا حال ہے۔ یونیورسٹی کے 7 میں سے کسی ایک شعبے میں بھی پروفیسر موجود نہیں نہ ہی کوئی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔ یونیورسٹی کے مالی معاملات چلانے کے لیے سندھ حکومت نے سلیکشن کے ذریعے سندھ یونیورسٹی جامشورو کے جس افسر کو لیاری یونیورسٹی کا ڈائریکٹر فنانس مقرر کیا تھا انھوں نے یونیورسٹی آکر اس عہدے کا  چارج ہی نہیں لیا۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے اس صورتحال پر موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ سے جب  رابطہ کیا تو انھوں نے ان حالات کے بارے میں تبصرے سے انکار کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔