کراچی حقیقی تبدیلی کا منتظر

ایڈیٹوریل  منگل 29 ستمبر 2020
شہر کی مجموعی ترقی اور فزیکل نشاۃ ثانیہ کے لیے عوام نے 11سو ارب روپے کے خطیر ترقیاتی پیکیج کا خیر مقدم کیا ہے۔ فوٹو: فائل

شہر کی مجموعی ترقی اور فزیکل نشاۃ ثانیہ کے لیے عوام نے 11سو ارب روپے کے خطیر ترقیاتی پیکیج کا خیر مقدم کیا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) پر کام شروع ہوگیا ہے، یہاں وہ سیاسی گفتگو نہیں کریں گے، ہر 15 دن بعد کراچی آیا کروِں گا، میرا آپ سے وعدہ ہے کہ کے سی آر کو مکمل کریں گے، کے سی آر کے معاملے پر وفاق کی حکومت سندھ سے کوئی لڑائی نہیں ہے، ہم حکومت سندھ کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سے دو میٹنگز کی ہیں اور دونوں ہی بڑی کامیاب رہی ہیں، چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی کا ہمارے ساتھ پورا تعاون ہے، حکومت سندھ کے ساتھ مل کر تجاوزات کی نشاندہی کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ریلوے حکام کی پیر کو میٹنگ ہے نقشہ دے دیا جائے گا کہ ریلوے کی تجاوزات کہاں تک ہیں، سپریم کورٹ کا حکم ہے، اسی کی روشنی میں ہم نے تجاوزات کو ختم کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شیخ رشید نے اگلے روز کے سی آر کے شاہ عبداللطیف اسٹیشن پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ریلوے کے اعلیٰ حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔

بلاشبہ موجودہ حکومت کے لیے سرکلر ریلوے کو دوبارہ چلانے کے قابل بنانے کی کوششیں اہل کراچی کے لیے کسی دل خوش کن نوید سے کم نہیں، اس شہر کی تاریخ بھی عجیب ہے، کبھی اسے ایشیا کا خوبصورت ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، اس کی سڑکیں صاف پانی سے دھوئی جاتی تھیں، ایم اے جناح روڈ پر (اس وقت اس سڑک کا نام بندر روڈ ہوا کرتا تھا) دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں، شہر کی طالب علم برادری، خواتین و بچے، محنت کش، سرکاری ملازمین ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے ایک منظم، مربوط اور حادثات سے پاک سسٹم سے جڑے ہوئے تھے۔

سرکلر ریلوے، لیاری کے چاکیواڑا، ٹرام جنکشن سے شروع ہوکر بولٹن مارکیٹ، صدر، سولجر بازار اور کیماڑی تک جاتی تھیں، دوسری طرف کے آر ٹی سی کی سرکاری بسوں کے فلیٹ بھی شہر کے مختلف علاقوں سے عوام کو سفری سہولت مہیا کرتے، ڈبل ڈیکر بسیں بھی کراچی کی سڑکوں پر بڑی شان سے دوڑتی رہیں، یہ بسیں حکومت کو غالباً سوئیڈن، جرمنی اور برطانیہ سے ملی تھیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مناسب نگہداشت اور مینٹینینس کے فقدان کے باعث کرپٹ ٹرانسپورٹ بیوروکریسی کی نذر ہوگئیں۔

پہلے ان کے آٹومیٹک دروازے خراب ہوئے، پھر شیشے چرا لیے گئے، سیٹوں کو خراب کیا گیا، پھر ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت سے ساری بسیں سڑک سے غائب ہوگئیں، کسی وزیر اور ٹرانسپورٹ منسٹری کے ذمے داروں نے عوام کو ان بسوں کی سروس بند ہونے کے اسباب سے آگاہ کرنے کی زحمت نہ کی، یہی مائنڈ سیٹ رفتہ رفتہ کراچی کی انتظامی، سماجی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تاریخ سے کھلواڑ کی دردناک داستان بن گیا۔

آج جب وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کی زبانی سرکلر ریلوے کے ٹریک کی صفائی، تعمیر و مرمت، تجاوزات کے خاتمہ، اسٹیشنوں کی تزئین و آرائش اور کے سی آر کے نئے نقشے کی نقاب کشائی کی خوش خبری سنتے ہیں تو انھیں امید، توقعات اور امکانات کے خدشات بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس تلخ حقیقت سے واقف ہونگے کہ شہر قائد کیوں دور حاضر کے ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم رکھا گیا۔

اور کیا وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا تجارتی حب اور معاشی انجن مواصلات اور نقل و حمل کے جدید تقاضوں اور الیکٹرانک سفری نظام سے کٹا ہوا ہے، کراچی کے سماجی، انسانی معاشی المیے اور کہانیاں بھی الم ناک اور چشم کشا ہونگی۔ اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب کراچی اقدار کی بوقلمونی کا ایک منفرد نظام دنیا کے بڑے شہروں کے سامنے پیش کرتا تھا، یہاں ماضی کے میئرز اور دور حاضر کے بابائے شہر نے شہری ترقیات کے لیے بہت صائب کام بھی کیے مگر بقول شاعر:

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن

مرض عشق کا علاج نہیں

اب شیخ صاحب تشریف لائے ہیں، ان کے پاس سرکلر ریلوے کا ماسٹر پلان ہے، سپریم کورٹ کا عطا کردہ مینڈیٹ ہے، سرکلر ریلوے کے احیا کا معاملہ سنجیدہ ہے، خدا کرے اس منصوبہ کو مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں موجودہ حکومت کامیاب ہو تاہم ارباب اختیار کو کراچی کے مسائل کا پٹارا کھولنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے، مسئلہ صرف سرکلر ریلوے کی حیات نو کا نہیں، ایک مکمل ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم کے اجرا کا ہے، کیونکہ اس عروس البلاد کی بربادی کی کہانی کسی ایک شہزادے کی بے وفائی، بے حسی یا انتظامی نااہلیت نہیں بلکہ کراچی کی اجتماعی تباہی میں سابقہ حکومتوں کے تجاہل عارفانہ کا عمل دخل تھا، شہر کی حساسیت سے لاتعلق حکمرانوں نے ایڈہاک ازم سے کام لیا، شاید کسی کو اس شہر سے دلی پیار نہیں تھا، اور وقت کی سفاکی نے اس حقیقت کو ثابت بھی کیا ہے۔

دوسری طرف پیر تسمہ پا کی طرح اقتدار اور وسائل پر قابض بیوروکریسی نے ہر سیاست دان کے ساتھ اس کی مرضی اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ڈیل کیا، کراچی کو جمہوریت کے نام پر ایک ایسا ورثہ ملا جس میں عوام کی امنگیں، آرزوئیں اور خواب چکنا چور ہوئے، بات 1947 سے شروع کی جائے تو اس افسانہ کی اٹھان اور اڑان شاندار تھی، جس کا تذکرہ ابتدائی سطور میں ہوچکا، لیکن آج صورتحال کئی عرصہ پر محیط انتظامی، سیاسی، سماجی، معاشی انحطاط اور مسلسل زوال کی ہے۔

کوئی سیاستدان اس حقیقت پر بات نہیں کرتا کہ ایک بندہ نواز شہر کو کس کی نظر لگ گئی، کیا بات ہے کہ سال ہا سال کے سیاسی، لسانی اور مذہبی تفرقے، دہشتگری، جمہوری چپقلش اور نظریاتی کشمکش میں عشرے گزارنے والے شہر میں سیاسی تہذیب کو کھلی شکست ہوئی، سیاسی مکالمہ زمین بوس ہوا، انسان دوستی نے خود کشی کی، سماجی اور معاشی ناکامیوں نے کراچی کا راستہ کیسے ڈھونڈ لیا، آج سارے اسٹیک ہولڈرز باہم دست و گریباں ہیں، اشرافیہ، سرمایہ دار طبقہ، شہر کے قدیم رہائشی، ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے محنت کش گھرانے اس کراچی کے کلچر کو ترستے ہیں جس کی خوشبو انھیں دور دراز سے کھینچ کر شہر قائد تک لے آئی تھی، اس شہر کا دانشور اداس ہے۔

غربت اور کورونا کے مارے لوگ کراچی کی محبت میں مارے گئے، گزشتہ بارشوں میں شہر ڈوب گیا، کیونکہ سیوریج کی لائنیں ناکارہ ہوگئیں، کوئی حکومت ذمے دار وںکا احتساب نہیں کرسکی، شہر سے وابستگی، محبت اور سپردگی کے فطری جذبات نہ ہوں تو شہر کی حالت بدنصیب کراچی جیسی ہی ہونی تھی، یہ ’’عالم میں انتخاب ‘‘جیسا حسین چہرہ تھا اسے بری حکمرانی کے تسلسل نے اجاڑ کر رکھ دیا۔ آج ہر طرف غیر قانونی عمارتیں ہیں۔

مخدوش عمارتیں جن کے منہدم ہونے کی داستانیں لہو رلاتی ہیں، بلڈنگوں، پلوں کی تعمیر کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے ہر احتساب سے بالاتر، پارک فروخت ہو جاتے ہیں چائنا کٹنگ ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں نئی بسیں سڑکوں پر نہیں لائی جاتیں، تجاوزات کا جنگل پھیلتا جاتا ہے، کوئی پکڑ نہیں ہوتی، پھر اچانک مکان گرائے جاتے ہیں۔ لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں، انصاف تو یہ ہے کہ جنہوں نے پیسے لے کر تجاوزات قائم کیں، ان کے اصل ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، بے خانماں ہونے والوں کو ڈی ٹائپ کوارٹرز جیسی کالونیاں بنا کر دی جائیں، تجاوزات میں ملوث بے لگام مافیاؤں کی گردن ناپی جائے۔

شیخ رشید نے کہا کہ میں نے ابھی ملیر، مچھر کالونی کا دورہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 10.5ارب روپے ہم کے سی آر پر خرچ کرنے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں ہم 1.8 ارب روپے خرچ کریں گے، حکومت سندھ سے ہمارا پورا تعاون ہے۔ انھوں نے کہا کہ24 پل حکومت سندھ نے بنانے ہیں۔

سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ کے سی آر ٹریک کو بحال کیا جائے، جو لوگ بے دخل ہوں گے حکومت سندھ اور سید مراد علی شاہ سے درخواست کی ہے ان لوگوں کی رہائش کے لیے انتظامات کریں۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ کراچی کے لوگوں کے لیے جس طرح سپریم کورٹ کا جذبہ ہے اسی طرح مرکز اور صوبے کے اندر بھی یہی جذبہ ہو تاکہ کے سی آر وجود میں آجائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو سرکلر ریلوے کا تحفہ دیتے ہوئے کئی دوسرے کام بھی جو ’’غالب خستہ کے بغیر بند ہیں‘‘ وہ جلد شروع کیے جائیں، شہر قائد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت ہے، صارفین پریشان ہیں، مہنگائی اور بیروزگاری نے کراچی کا کچومر نکال دیا ہے، عوام کو کورونا، بارش، اسٹریٹ کرائم اور روڈ حادثات نے مضمحل کر رکھا ہے، آج کا کراچی کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں، کبھی یہ شہر مشترکہ مفادات، انسانیت اور جمہوریت کے حوالہ سے پہچانا جاتا تھا، آج اسے مکمل شہری میکانزم اور ایک مربوط عوام دوست سیاسی معاہدہ عمرانی اور وسیع تر سماجی خیر اندیشی اور استحکام پر مبنی گلوبل معیشت کی ضرورت ہے، کراچی کو انصاف چاہیے، اسٹیک ہولڈرز کو تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔

شہر کی مجموعی ترقی اور فزیکل نشاۃ ثانیہ کے لیے عوام نے 11سو ارب روپے کے خطیر ترقیاتی پیکیج کا خیر مقدم کیا ہے جس کے کراچی کے تقریباً 3 کروڑ شہری منتظر ہیں، یہ رقم بلاتاخیر شفافیت کے ساتھ منصوبوں پر خرچ کی جائے، کراچی کے عوام سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی سے اکتا چکے ہیں، انھیں جمہوریت کے کشکول سے اتنا تو ملے کہ وہ اپنے خوابوں کو مزید ریزہ ریزہ ہونے سے بچا لیں اور کراچی کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔ کہیں ان کی نئی شناخت یہ نہ ہو کہ ؎

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔