سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس کی تعمیر 4 سال سے التوا کا شکار

عبدالرزاق ابڑو  منگل 29 ستمبر 2020
سیکریٹریٹ کے اطراف روزانہ سیکڑوں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، ان میں سیکریٹریٹ ملازمین کو لانے والی بسیں بھی شامل ہیں۔ فوٹو: فائل

سیکریٹریٹ کے اطراف روزانہ سیکڑوں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، ان میں سیکریٹریٹ ملازمین کو لانے والی بسیں بھی شامل ہیں۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  حکومت سندھ کے تمام محکموں اور ذیلی اداروں کے دفاتر اور پارکنگ کے قیام کے لیے شروع کردہ میگا منصوبہ سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس انتظامی بے ضابطگیوں اور کرپشن کے باعث گزشتہ 4 سال سے التوا کا شکار ہے۔

ایک طرف منصوبے کی لاگت بڑھتی جارہی ہے تو دوسری جانب حکومت سندھ کے جانب سے پرائیویٹ عمارتوں میں قائم دفاتر پر ہر ماہ کرائے کی مد میں کروڑوں روپے کی ادائیگیاں جاری ہیں، منصوبے کے تحت سندھ ہائی کورٹ کے دائیں اور بائیں طرف سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس 7 اور 8 کے نام سے دو سیکریٹریٹ تعمیر ہونے ہیں جو مجموعی طور پر 10عمارتوں پر مشتمل ہونگے۔

ان میں دو عمارتیں 15، 15 فلور پر مبنی ہونگی جبکہ بقیہ 8 عمارتیں گراؤنڈ پلس 5 فلور کی بنیں گی، مجموعی طور پرسندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس منصوبے کی ابتدائی لاگت 9 ارب 40 کروڑ روپے تھی جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے، سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس کے منصوبے میں ایک ہزار سے زائد کاروں کے لیے پارکنگ کی تعمیر اور دیگر سہولیات بھی شامل ہیں۔

مذکورہ منصوبے کی منظوری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ نے 5 اپریل 2012 کو دی تھی جبکہ نومبر 2012 میں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی منظوری سے مذکورہ منصوبے کو پی ایس ڈی پی (پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام) میں شامل کرکے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بجٹ مختص کرنا شروع کردیا گیا۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس نمبر 7 پر جون 2019 تک 1056 ملین روپے خرچ کیے گئے، جبکہ اسی عرصے تک سندھ سیکریٹریٹ نمبر 8 پر 210 ملین روپے کے اخراجات کیے گئے، تاہم انتظامی بے ضابطگیوں کی شروعات 2014 میں منصوبے کے پہلے ٹینڈر سے ہی ہوگئی۔

محکمہ ورکس اینڈ سروسز  کے افسر اور چیف انجنئر بلڈنگس حیدرآباد اختر حسین ڈاوچ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سندھ سیکریٹریٹ نمبر 7 کے بیسمنٹ اور 15 فلور کی عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ یونائیٹڈ کنسٹرکشن کمپنی کو دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق اس عمل میں سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں گل برادرز کے نام سے سب کنٹریکٹر کو شامل کرنا، انشورنس گارنٹی کی اجازت دینا، موبلائیزیشن ایڈوانس اور سیکیوئرڈ ایڈوانس کی مد میں کنٹریکٹر کو کی گئی ادائیگی وصول نہ کرنا شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق کنٹریکٹر نے 374ملین روپے کا کام کیا لیکن اس وقت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر 678 ملین روپے کے اخراجات کرچکے تھے جن میں 150 ملین روپے سے زائد موبلائیزیشن الاؤنس اور 153 ملین روپے سے زائد کی رقم سیکیوئرڈ ایڈوانس کی مد میں اد کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اسی طرح گراؤنڈ پلس 5 فلور کی دو عمارتوں کی تعمیر کا ٹھیکہ دینے کے لیے دو کمپنیوں کے جعلی انضما م کو قبول کیا گیا اور یہ کام گل کنسٹرکشن کمپنی کو دیا گیا جس نے پری کوالیفکیشن میں کوالیفائی ہی نہیں کیا تھا۔ تاہم کمپنی نے 20 جنوری 2017 کوکام کا آغاز کیا جو بعد میں موبلائیزیشن ایڈوانس اور سیکیوئرڈ ایڈوانس کے تنازعے کے باعث روک دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کامران آصف نے کنٹریکٹرز کو کام مکمل نہ ہونے کے باوجود بینک سیکیورٹی کی رقم واپس کردی،رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ گل کنسٹرکشن کمپنی کو دیئے گئے تمام کام منسوخ کیے جائیں، رپورٹ میں اس وقت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کامران آصف کے خلاف قانونی کارروارئی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ایکسپریس کی جانب سے جب تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اختر ڈاوچ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور اپنی سفارشات سیکریٹری ورکس اینڈ سروسز کو جمع کرادی ہیں،یہ رپورٹ ستمبر 2019 میں جمع کرائی گئی، موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر غلام شبیر ڈیپر کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔