کراچی کے حقوق کیلئے سیاسی جماعتوں کے احتجاجی مارچ اور جلسے

عامر خان  بدھ 30 ستمبر 2020
عدالت نے شواہد کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنایا ہے تاہم جن حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر تحفظات سامنے آرہے ہیں۔فوٹو : فائل

عدالت نے شواہد کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنایا ہے تاہم جن حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر تحفظات سامنے آرہے ہیں۔فوٹو : فائل

 کراچی:  کراچی کو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔

فی الحال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پیپلزپارٹی کی درخواست پر بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کا کام روک دیا ہے تاہم شہر کی اسٹیک ہولڈرز سمجھے جانے والی جماعتیں مختلف عوامی اجتماعات منعقد کرکے شہریوں کو اپنا ہونے کا احساس دلارہی ہیں ۔ اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کی جانب سے اجتماعات دیکھنے میں آئے۔

جنہیں عوام کی شرکت کے لحاظ سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ”کراچی مارچ” میں ایک مرتبہ پھر نئے صوبے کی باز گشت سنائی دی گئی اور پارٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا کہ  شہر ی سندھ صوبہ، متر وکہ سندھ صوبہ یا جنو بی سندھ صوبہ اب بن کر رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم صوبے کیلئے جمع ہوئے ہیں اور صوبہ لیکر رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ  پاکستان بچانے کی ضمانت پاکستان بنانے والو ں کی اولادوں کے پاس ہے اور انکی آبادی کو آدھا گنا گیا ہے، خیرپور اور دادو کے لوگ کر اچی پر راج نہیں کر سکتے، کر اچی والو ں کو ان کا حق حکمرانی دینا ہوگا۔ادھر جماعت اسلامی نے اپنے حقوق کراچی مارچ میں 14اکتوبر کو ملک گیر سطح پر یوم حقوق کراچی منانے اور 15,16,17اکتوبر کو کراچی بھر میں حقو ق کراچی تحریک کے مطالبات کی منظوری کے لیے عوامی ریفرنڈ م کرانے کا اعلان کردیا ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنماؤں سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن  کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ کراچی کے عوام کے حقوق کے حصول کے لیے وزیر اعلی ہاؤس یا سندھ اسمبلی کا گھیراؤ بھی کیا جا سکتا ہے، عروس البلاد کراچی اور اس کے تین کروڑ عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے،کراچی کے عوام کے مسائل کے حل اور آئینی وقانونی اور جائز حق کے حصو ل کی جدوجہد جاری رہے گی۔

دوسری جانب شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی بدقسمتی ہے کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں تک بدامنی کا شکار رہا اور اس کے بعد جب امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی تو اندازہ ہوا کہ شہر کا بنیادی انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ ماضی میں کراچی صرف اپنی بدامنی کی وجہ سے خبروں میں رہتا تھا۔ شہر کی اسٹیک ہولڈرز جماعتوں اور بارہ سال سے صوبے میں برسراقتدار پاکستان پیپلزپارٹی نے شہریوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے آج ملک کا سب سے بڑا شہر مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ جب تک ایک بااختیار بلدیاتی حکومت کا قیام نہیں ہوتا ہے۔

اس وقت تک مسائل حل ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم کا اعلان کردہ گیارہ سو ارب روپے کا پیکج بھی محض اعلان ہی محسوس ہو رہا ہے اور اگر اس پر عملدرآمد ہو بھی جاتا ہے تو چند سال بعد مسائل پھر سراٹھانا شروع ہو جائیں گے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ مردم شماری کے نتائج ہیں۔ تمام آزاد ذرائع اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت شہر کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہے لیکن اس کے لیے جن بھی پیکجز کا اعلان ہوتا ہے وہ اس کی اصل آبادی کو نظرانداز کرکے کیا جاتا ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی ماضی میں شہر کراچی پر راج کرتی رہی ہیں۔

ان دونوں کے پاس شہر کی بلدیاتی حکومتیں بھی رہی ہیں۔2002 سے 2008 تک کے عرصے کو ترقیاتی کے کاموں کے حوالے سے آئیڈیل قرار دیا جا سکتا ہے جب جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان  اور ایم کیو ایم کے اس وقت کے ناظم سید مصطفی کمال کے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے لیکن اس کے بعد شہر کی قسمت ایک مرتبہ سوگئی۔ان دونوں جماعتوں کی جانب سے اب سڑکوں پر کراچی کے حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان احتجاجی مظاہروں کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیراعظم عمران خان کو قرار دے دیا ہے۔کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں قومی سلامتی کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ہوئی ، شیخ رشید کا غیر ذمہ دارانہ بیانیہ معاملات کو متنازعہ بنا رہا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی گرفتار ی کی مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے وابستہ سیاست دانوں کو نوٹس بھیجنا اور گرفتار کرنا عمران خان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ وفاقی حکومت فی الفور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو رہا کرے۔

پارٹی چیئرمین کی طرح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی وفاقی حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ میں لاکھوں متاثرین بارش کی کوئی مدد نہیں کی، وفاقی حکومت کا رویہ سندھ دشمنی پر مبنی ہے۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کے غم  دوبارہ تازہ ہوگئے ہیں۔ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج مجرم عبد الرحمان عرف بھولا اور مجرم زبیر چریا کو 264 مرتبہ دونوں کو سزائے موت، 4 مجرموں کو سہولتکاری اور اعانت جرم میں عمر قید کی سزا سناتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزمان حماد صدیقی اور علی حسن قادری کے تاحیات ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے جبکہ خصوصی عدالت نے ایم کیو ایم رہنما اور سابق صوبائی وزیر عبد الرف صدیقی سمیت 4 ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے۔

اس فیصلے پر ایم کیو ایم پاکستان کا ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ رؤف صدیقی کی بریت سے ثابت ہوگیا کہ اس واقعہ سے ان کی جماعت کا کوئی تعلق نہیں تھا تاہم وہ یہ بھول گئے سزائے موت پانے والے دونوں مجرم ان کی سابق جماعت کے ہی کارکن ہیں۔ادھر سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کا فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیاجانتی ہے کہ اس سانحہ میں کون کون ملوث ہے، سب کو پکڑا جائے۔ جن ملزمان کو سزائے موت ہوئی ہے ان کو بلدیہ فیکٹری کے سامنے سرعام پھانسی دی جائے۔ ہمیں انصاف چاہیے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ بلدیہ ملک میں رونما ہونے والے افسوسناک سانحات میں سے ایک ہے۔عدالت نے شواہد کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنایا ہے تاہم جن حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر تحفظات سامنے آرہے ہیں۔امکان ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔