عبداللہ عبداللہ، امن کا نقیب؟

اکرام سہگل  جمعرات 1 اکتوبر 2020

افغانستان میں دو دہائیوں میںامریکی عسکری اخراجات کا تخمینہ 822 بلین ہے۔اس میں امریکی محکمہ دفاع، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر ایجنسیاں بھی شامل کی جائیں تو حقیقی رقم کہیں زیادہ ہے۔

2300 امریکی فوجی ہلاک، جب کہ 20660 زخمی ہوئے۔ ان میں وہ شامل نہیں، جواس طویل جنگ کے بعد دوبارہ سماج کا حصہ بننے سے قاصر رہے۔اشرف غنی کے بیان کے مطابق جب سے انھوں نے صدارت سنبھالی ہے، افغان سیکیورٹی فورسزکے 45 ہزار جب کہ ایک لاکھ سویلین قتل ہوچکے ہیں۔ اس تعداد میں طالبان کی ہلاکتیں شامل نہیں۔

افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بعد جب سردار داؤد  نے اقتدار پر قبضہ کیا اور 1973میں افغانستان کے اولین صدر ہونے کا اعلان کیا، تب سے پاک افغان تعلقات میں تناؤ ہے۔کبھی جو خواب لگاکرتا تھا، اب وہ امن قریب ہے۔ فروری2020 میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا، ،موجودہ حکومت کے ساتھ افغان امن کے قیام کے لیے ڈیکلیریشن بھی سائن کر لیا گیا۔ معاہدے کا ڈھانچہ اپنی جگہ، مگر یہ تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کے بغیر اس امن معاہدے تک پہنچ پانا ناممکن تھا۔ پاکستان بھی افغان وار سے اپنا سبق سیکھ چکا ہے۔

ماضی میں پاکستان کے پالیسی سازوں کی جانب سے طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی دوڑ میں پشتون گھڑسواروں پر پیسے اور محنت صرف کرنا سودمند ثابت نہیں ہوا۔ لاکھوں افغان پناہ گزین ہماری معیشت پر بوجھ ہے۔افغان وار کے نتیجے میں پاکستان میں عسکریت پسندی اور اسلحہ بڑھا۔ پاکستان میں بیرونی فنڈنگ سے ، انتہا پسندانہ فکر کو فروغ دیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کا ظہور ہوا۔

پس ماندہ قبائلی علاقوں میں جڑیں پکڑتے خطرے کا ادراک کرنے کے بجائے پاکستانی پالیسی سازوں  نے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جو وقت کی ضرورت تھے۔ ادھر ہماری یکطرفہ پالیسی کی وجہ سے افغانستان کے تاجک اور ازبک عناصر ہم سے دورہوگئے۔

1990 میں گلبدین حکمت یار کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہوگئے۔ حکمت یار نے احمد شاہ مسعود کو الگ تھلگ کر دیا۔ یوں افغانستان میں نئی صف بندی ہوئی۔

بھارت ایک ایسا ملک ہے، جس پر افغان اعتبار کرنے کوتیار نہیں۔ بھارت کی بی جے پی سرکار کی مسلم کش پالیسیاں عیاں ہیںاور وہاں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت کے اجداد کا تعلق افغانستان ہی سے ہے۔ افغانستان نے بھارت کو محض کسی اور کے خرچ پر لڑی جانے والی پراکسی وار کے پلیٹ فورم کے طور پر استعمال کیا۔ پہلے سوویت یونین اور بعد ازاں امریکی خرچ پر لڑی جانے والے جنگوں میں افغانستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

افغانستان میں پشتون تاجک اختلافات کا آغاز 1929میں ہوا۔تاجکوں کے قائد حبیب اللہ کلکانی کو افغان تخت کی اصل طاقت تصور کیا جاتا تھا۔حبیب اللہ کلکانی نے مغربی تصورات کے بے دریغ فروغ کا الزام عاید کرتے ہوئے افغان بادشاہ ،امان اللہ خان کا تختہ الٹ دیا۔بادشاہ سے اختلافات کی وجہ سے کمانڈر ان چیف، نادر شاہ نے جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی۔البتہ اس واقعے کے بعد نادر شاہ نے پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقے میں لشکر منظم کرکے حبیب اللہ کی فوج کو شکست دی۔ کلکانی اور اس کے خاندان کے کئی افراد مارے گئے۔

فاتح لشکر نے تاجک علاقے میں لوٹ مار کی اور کئی مظالم ڈھائے۔ یوںپشتون اور تاجک تنازعے کا جنم ہوا، البتہ اب بہترین وقت ہے ۔ پرانے زخموں پر مرہم رکھے کے لیے موزوں ترین شخص عبداللہ عبداللہ ہیں، جن کی رگوں میںپشتون باپ اور تاجک ماں کا خون دوڑتا ہے۔

90 کی دہائی میں ہماری غیردانش مندانہ افغان پالیسی کی وجہ سے امریکا کو سہولیا ت کی اجازت مل گئی، جس سے پاکستان کی معیشت اور افرادی قوت کو نقصان پہنچا۔ پاکستان اب بھی اس ناکام پالیسی کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔البتہ اب بھی پاکستان کا اتنا اثر ہے کہ وہ افغانستان کے مختلف دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ ایک ہفتے قبل اشرف غنی سرکار اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی پہلی ہی میٹنگ کے بعد یہ بات پھر واضح ہوگئی کہ دونوں فریقین میں اتفاق کے معاملے میں کچھ شہبات موجود ہیں۔طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے ان اختلافات کی سمت اشارہ ہیں۔ مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ طالبان مخالف گروہوں میں بھی منقسم ہے۔

افغانستان میں ہونے والے دونوں انتخابات میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا۔ اشرف غنی دسمبر 2001 میں چوبیس سال بعد، یواین اور ورلڈ بینک میں اپنی ملازمت چھوڑ کر افغانستان لوٹے تھے۔وہ صدرحامد کرزئی کے چیف ایڈوائز  رہے۔ ادھر عبداللہ عبداللہ  شمالی اتحادکے سینئر رکن تھے اور 2001 سے پہلے احمد شاہ مسعودکے مشیر رہے۔ پانچ برس وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ حامد کرزئی سے الگ ہوئے۔ انھوں نے دو بار اشرف غنی کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا۔دونوں ہی موقعوں پر مقابلہ انتہائی قریبی رہا۔ انتخابات اور ووٹوں کی گنتی پر تحفظات کے بنیاد پر انھوں نے نتائج کو رد کرتے ہوئے اپنے طو رپر صدر کا حلف اٹھا لیا تھا۔

2007 سے 2012کے دوران معتبر امریکی تھنک ٹینک ’’ایس ویسٹ انسٹی ٹیوٹ ‘‘(EWI)کی جانب سے “Afghanistan Re-Connected” کے عنوان سے مذاکروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے برسلز اور برلن کے لیے EWIکا ڈائریکٹر نامزد کیا گیا۔ وہاں مجھے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے طویل مکالمے کا موقع ملا۔ دونو ںہی صاحبان کی افغان اور بین الاقوامی ایشوز پر شان دار گرفت ہے۔ البتہ میں نے عبداللہ عبداللہ کو ہمیشہ معتدل، متوازن اور سہل پایا۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ برلن سے دبئی لوٹتے ہوئے عبداللہ عبداللہ میری ساتھ والی نشست پر برا جمان تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ’ آپ نے پاکستان کے ساتھ تعمیری تعلقات استوار کیوں نہیں کیے؟‘ ان کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔ ان کا کہنا تھا،’ اگر ہم چاہیں بھی، تو کیاآپ ہم سے بات کریں گے؟میں چپ رہا۔امن مذاکرات کے ابتدائی متنازع دنوں کے بعد اب عبداللہ عبداللہ پاکستان کے دورے پرآئے ہیں۔ ایک نوجوان ڈاکٹر کی حیثیت سے انھوں نے 85ء میں کچھ عرصے یہاں کام بھی کیا تھا۔ اس دورے سے ہمیں اپنی سابق افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنے اوراسے بہتر بنانے کا نادر موقع ملتا ہے۔

پاکستان ایک پرامن افغانستان کا خواہش مند ہے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور یہ حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ روس اور وسطی ایشیا کے درمیان مرکزی لنک کی حیثیت کا حامل افغانستان اس خطے میں پانی اور توانائی کی پالیسی میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔ سی پیک اور اس کی ایرانی توسیع افغانستان کو اہم شاہ راہ بنا دیتی ہے۔ اگر افغانستان میں امن ہوگیا، تو دو ملین افغان پناہ گزین بھی واپس لوٹ جائیں گے، جس سے پاکستانی معیشت پر بوجھ کم ہوگا۔

افغان امریکا امن معاہدے کے نتیجے میں امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا صدر ٹرمپ کی ‘America first’پالیسی کا تسلسل ہے ۔امریکی فوج اس سے خوش نہیں۔ وہ کچھ دستے پیچھے چھوڑنا چاہیے گی۔ امکان ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھی لڑائی جاری رہے۔ایسے میں کوئی نہیں چاہے گاکہ افغانستان کا موجودہ حکومتی ڈھانچہ ڈھے جائے اور ایک خلا پیدا ہوجائے۔ اس لیے امریکی فوج کے چند دستوں کی موجودگی ضروری ہے۔ اشرف غنی عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں امریکیوں کے لیے زیادہ موزوں ثابت ہوئے۔ اشرف غنی کے مقابلے میں عبداللہ عبداللہ کی زمین میں جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ اشرف غنی آج نہیں تو کل، امریکا لوٹ جائیں گے۔ ایک آزاد حکومت ہی افغانستان اور خطے کے لیے موزوں ہے۔

پاکستان کے پالیسی ساز اس انتہائی اہم اقدام کے لیے تعریف کے مستحق ہیں۔ ہم امن کے ممکنہ نقیب کے طور پر عبداللہ عبداللہ کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔