نواز شریف کی خاموش سیاست

محمد سعید آرائیں  جمعرات 1 اکتوبر 2020
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

طویل عرصے کی خاموشی کے بعد ماضی میں 3بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے اپوزیشن کی اے پی سی سے غیر متوقع طور جو خطاب کیا، اس سے ان کی سیاست ملک میں ایک بار پھر بلکہ دوبارہ حاوی ہوگئی اور یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت نے اپنی غیر ضروری ’’دانش مندی‘‘ سے اتنی چمکا دی جتنی نواز شریف کی اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن بھی نہیں چمکا سکی تھیں۔

سالوں سے نواز شریف کی سیاست ختم ہو جانے کے دعوے کرنے والے وزیر شیخ رشید احمد کو نواز شریف کی سیاست کا صفحہ نہ جانے کہاں سے نظر آگیا اور انھیں اپوزیشن کی کامیاب اے پی سی میں نواز شریف کے خطاب کے بعد کہنا پڑا کہ نواز شریف نے اپنی سیاست کا صفحہ پھاڑ دیا ہے۔ حکومت کے وزیروں نے اے پی سی کی 26 قراردادوں پر توجہ دینے کی بجائے اپنا سارا زور نواز شریف کی تقریر پر لگا دیا ہے جو حکومتی حلقوں کے نزدیک انتہائی غیر مناسب مگر اپوزیشن کے نزدیک بالکل درست تھی جس پر نواز لیگ کے رہنما پوچھ رہے ہیں کہ حکومت بتائے کہ نواز شریف نے کیا غلط کہا ہے۔

اے پی سی کے دوسرے دن وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اے پی سی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش تھی اور نواز شریف نے بھارتی ایجنڈے کو فروغ دیا اور لندن میں بیٹھے مفرور شخص کی تقریر پر بھارتی میڈیا زہر اگل رہا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر اپوزیشن کی قراردادوں کا جواب دینے کے لیے چار اہم وفاقی وزیروں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اپوزیشن کی قراردادوں سے زیادہ اہمیت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر کو دی جو حکومت کے نزدیک انتہائی نامناسب تھی۔

وفاقی وزرا نے نواز شریف کی تقریر پر سخت تنقید کی اور اے پی سی کی تمام قراردادوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کیوں مستعفی ہوں؟ وہ قائم رہیں گے اور کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ وزرا کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تقریر اور اے پی سی نے ملک اور جمہوریت کی کون سی خدمت کی ہے اور اپوزیشن کو جمہوریت کا نہیں اقتدار کا درد ہے۔

حکومتی حلقوں کا یہ کہنا ان کے نزدیک درست ہے کہ شدید بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر جانے والے نواز شریف خود ایکسپوز ہوگئے ہیں کہ وہ بیمار نہیں تندرست ہیں اور ان کا 54 منٹ کا خطاب ثبوت ہے کہ انھوں نے ملک سے بیماری کے بہانے باہر جاکر سیاست شروع کر رکھی ہے۔ وہ سیاسی رابطے بھی کر رہے ہیں مگر تندرست رہنے کے بعد بھی ملک میں واپس نہیں آرہے۔

نواز شریف ایک روز بھی اسپتال میں داخل نہیں رہے اس لیے انھیں وطن واپس آ کر اپنی سزا مکمل اور عدالتوں میں اپنی اپیلوں کا سامنا کرنا چاہیے اور باہر بیٹھ کر اداروں پر حملے اور بھارت کو خوش نہیں کرنا چاہیے۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ وفاقی حکومت نے خود نواز شریف کو باہر بھیجا اور حکومت ہی مفرور نواز شریف کو لندن سے ملک واپس بلانے کی ذمے دار ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سزا یافتہ قیدی نواز شریف کے باہر جانے کے حق میں نہیں تھے جس کا بقول شیخ رشید وزیر اعظم کو پچھتاوا ہے مگر وہ اب نواز شریف کو وطن واپس نہیں لاسکتے البتہ حکومت کوشش ضرور کر رہی ہے۔نواز شریف ایک کیس میں سزا یافتہ اور پہلے کیس میں ضمانت پر ہیں۔

انھیں سزا دینے والا متنازعہ جج اپنی برطرفی کی سزا بھگت رہا ہے جس کی سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل زیر سماعت ہے اور اصولی طور پر انھیں واپس آ کر اپنی اپیلوں میں عدالتوں میں پیش ہوکر عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے مگر اب نواز شریف کی سیاست یہ ہے کہ وہ ملک واپس نہ آئیں اور وطن میں قید رہنے کی بجائے لندن کی آزاد فضاؤں میں اپنا علاج کراتے رہیں جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور ڈاکٹر انھیں آنے نہیں دیں گے۔

نواز شریف کو کیا ضرورت ہے کہ وہ پاکستان آکر قید میں اپنی عمر گزاریں، سیاست تو وہ باہر رہ کر ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔ ان کی خاموش سیاست تو کسی مصلحت کے باعث لندن جانے کے بعد سے ہی جاری تھی، جسے اے پی سی میں زبان مل گئی ہے جس نے حکومت کو نواز شریف کی بولتی سیاست کا جواب دینے پر مجبور کردیا ہے مگر ان کے جواب پر نواز شریف نہیں حکومتی حلقے ہی مطمئن ہیں کیونکہ حکومتی تردیدوں کو مخالف تسلیم ہی نہیں کرتے تو نواز شریف کے پاس اب اپنی سیاسی خاموشی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ وہ حکومت کی خواہش کی تعمیل کریں اور آ کر قید ہو جائیں۔ وہ مفرور اور قیدی کیسے بنے، ملک میں ہی نہیں باہر والوں کو بھی پتا ہے۔

ان کی سزا کی حقیقت حکومتی حامیوں کے سوا سب کو پتا ہے مگر سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں ،کیوں یہاں سچ نہیں صرف جھوٹ برداشت کیا جاتا ہے مگر سچ اور حقائق دیر سے ہی آشکار ہوتے ہیں جو ہوکر رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔