آفریدی کا تاریخی جملہ اورہماری فیلڈنگ

سلیم خالق  پير 12 اکتوبر 2020
’’60 سال سے پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ ٹھیک نہیں ہوئی اب کیا ہوگی‘‘

’’60 سال سے پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ ٹھیک نہیں ہوئی اب کیا ہوگی‘‘

’’60 سال سے پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ ٹھیک نہیں ہوئی اب کیا ہوگی‘‘

شاہد آفریدی نے چند برس قبل یہ تاریخی جملہ کہا تھا، یہ چند سطور ہماری کرکٹ کا مکمل احاطہ کرتی ہیں، جب سے میں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کی یہی دیکھا کہ ہماری ٹیم فیلڈنگ میں پیچھے ہونے کی وجہ سے بڑا نقصان اٹھاتی تھی، کئی جیتے ہوئے میچز بھی اسی وجہ سے گنوائے، پھر وہ وقت آیا جب نوجوان کرکٹرز کو فیلڈنگ کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور وہ محنت کرنے لگے جس کی وجہ سے قومی ٹیم کے لحاظ سے تو بہتری ضرور آئی ہے، البتہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اس شعبے کے معیارکا اندازہ آپ کو قومی ٹی20 کپ سے ہو گیا ہوگا۔

فیلڈرز ہاتھوں کے کیچز ڈراپ کر رہے ہیں، سیدھی گیندوں کو نہیں روک پا رہے،سندھ کی ٹیم ناقص فیلڈنگ میں سب سے آگے ہے،بطور کمنٹیٹر یہ سب کچھ دیکھ کر وسیم اکرم سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’میں اگر کوچ ہوتا تو ہر کھلاڑی کو ایک، ایک ٹوکرا پکڑا دیتا‘‘ بظاہر یہ ایک طنز ہے لیکن اس میں ایک تلخ حقیقت چھپی ہے،اس سے اندازہ ہوگیا کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار کتنا پست ہو چکا، جب ناقص فیلڈنگ کا سلسلہ جاری تھا عین اسی وقت سویرا پاشا ہائی پرفارمنس سینٹر کے فیلڈنگ کوچ عتیق الزماں کا انٹرویو کر رہی تھیں۔

جنھوں نے پوائنٹس سسٹم سمیت مختلف تبدیلیوں سے فیلڈنگ میں بہتری لانے کے دعوے کیے، البتہ سچ بتاؤں مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ کر سکیں گے اس شعبے میں بہتری کوئی کھلاڑی خود ہی لا سکتا ہے، بڑے سے بڑا کوچ صرف رہنمائی ہی کرے گا عمل تو اسی کو کرنا ہے، ماضی میں پی سی بی جونٹی رہوڈز کو لے کر آیا کیا فائدہ ہوا؟ انضمام الحق نے تو جانے سے ہی انکار کر دیا تھا، شاداب خان جیسے کھلاڑی اگر اچھے فیلڈر ہیں تو اس میں ان کی محنت شامل ہے۔

بدقسمتی سے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے کئی کھلاڑیوں کی فٹنس بھی ٹھیک نہیں لگتی،کیا اس فٹنس کے ساتھ شرجیل خان یا اعظم خان جیسے کرکٹرز انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟ قومی ٹورنامنٹ یو ٹیوب کے ذریعے دنیا بھر میں دکھایا جا رہا ہے، پی سی بی نے ورلڈکپ جیسی ہائپ بنائی مگر جب لوگ کھیل کا معیار دیکھتے ہوں گے تو یہی خیال ان کے ذہن میں آتا ہوگا کہ پاکستان میں نیا ٹیلنٹ موجود نہیں ہے،خراب فیلڈنگ کی وجہ فٹنس مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔

بورڈ نے باتیں بڑی کیں مگر صاف ظاہر ہوگیاکہ کئی کرکٹرز معیار پر پورا نہیں اترتے، جب کوئی جھک ہی نہیں سکتا تو گیند کیسے روکے گا،کیچ پکڑنے کیلیے دوڑ کر کیسے آگے جائے گا،بورڈ ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اربوں روپے پھونک رہا ہے لیکن جب تک مسائل کی جڑ تک نہ پہنچے کیا فائدہ ہوگا،آپ کو سب سے پہلے ہر ٹیم کے ساتھ جینوئن فیلڈنگ کوچ کا تقرر کرنا چاہیے جو صرف سیزن کے دوران ہی نہیں فراغت کے دنوں میں بھی کھلاڑیوں کو ایک پلان دے اور ان پر نظر رکھے، فیلڈنگ کلچر لائیں، بڑے سے بڑا بیٹسمین یا بولر جو بھی ہو اسے فیلڈنگ میں بھی ماہر ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، ہر ٹورنامنٹ سے پہلے کھلاڑیوں کا اصل فٹنس ٹیسٹ لیں یہ نہ ہو کہ جو پسند ہے اس کیلیے الگ معیار بنائے جائیں جیسا کہ اکثر عماد وسیم کے معاملے میں ہوتا ہے، ان فٹ کرکٹرز ڈومیسٹک کرکٹ سے باہر ہوئے تو معیار خود بخود بہتر ہو جائے گا، بہت سے سینئرز یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کوئی ٹیم سے نہیں نکال سکتا یہ سوچ تبدیل کرنا ہوگی، فٹنس پر چند بڑے ناموں کو باہر کیا تو باقی خود سمجھ جائیں گے،آپ ڈومیسٹک کرکٹ اسٹار اسپورٹس پر دکھا دیں۔

بڑے سے بڑے کمنٹیٹرز لے آئیں لیکن میدان میں جب کھیل ہی معیاری نہ ہو تو کیا فائدہ، کوریج وغیرہ ضرور کریں مگر پہلے پروڈکٹ کو بھی معیاری بنائیں، برطانوی سی ای او وسیم خان اپنے ملک سے محمد زاہد، عتیق الزمان،ثقلین مشتاق کو لے آئے اور وہیں ندیم خان سے بھی ان کا تعلق قائم ہوا تھا تو اب  نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں، محمد یوسف تو خیر بڑے بیٹسمین تھے بورڈ نے تو ٹی وی پر تنقید کرنے والے 1،2 میچ کھیلنے والوں کو بھی نوکریاں دے دیں، موجودہ بورڈ کا میڈیا ڈپارمنٹ ہر ایونٹ سے پہلے اور بعد میں ایسی ہائپ بنا دیتا ہے کہ لوگوں کی توقعات آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں مگر پھر میچ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے، حالیہ ٹورنامنٹ سے قبل بھی وسیم خان نے بڑے بڑے دعوے کیے مگر وہ غلط ثابت ہوئے چاہے وہ ٹی وی کوریج یا انتظامات کے حوالے سے جو بھی ہوں،آپ بڑھکیں مارنے کے بجائے کام پر توجہ دیں۔

اچھے اقدامات ہوئے تو کسی سے کہہ کرتعریفیں نہیں کرانا پڑیں گی لوگ خود مجبور ہو جائیں گے، توازن بھی برقرار رکھنا چاہیے، نئے نئے بچوں کو ایک میچ میں اچھی کارکردگی کے بعد ہیرو بنا کر پیش کیا گیا وہ بیچارے انہماک کھو بیٹھے جس سے تسلسل برقرارنہ رہ سکا،بدقسمتی سے موجودہ بورڈ کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کیلیے کچھ موجود نہیں، مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر دوستوں کی مدد سے خود کو تاریخ کا سب سے اچھا کرکٹ بورڈ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

میری بات پر یقین نہیں تو آپ کسی نیوٹرل شخص سے پوچھ لیں سب یہی کہیں گے کہ انھوں نے ایسا پی سی بی آج تک نہیں دیکھا، خیر اب بھاری تنخواہوں پر آپ نے مرضی کے کوچز رکھ لیے، کوئی آپ سے پوچھنے والا نہیں ہے تو کارکردگی بھی سامنے آنی چاہیے، ڈومیسٹک کرکٹ کا سسٹم بدل دیا تو اب بہتری بھی نظر آنی چاہیے،4،5 سال انتظار کا لالی پاپ دے کر لوگوں کو چپ نہ کرایئے گا،آپ نے سسٹم بدل دیا، کوچز بدل دیے، اسٹاف بدل دیا، اکیڈمی بدل کر ہائی پرفارمنس سینٹر بنا دی، اب بھی اگر کوئی بہتری نہ آئی تو پھر لوگ یہی سمجھیں گے کہ خامی ملکی کرکٹ میں نہیں آپ میں ہے اور اب آپ کو ہی بدل دینا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔