- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
گندم بحران، حکومت انڈونیشیا کی طرح زرعی مارکیٹ پر کنٹرول کم کرے
اسلام آباد: گذشتہ ہفتے انڈونیشیا کی پارلیمان نے تاریخی قوانین منظور کرتے ہوئے زرعی مارکیٹ پر حکومتی کنٹرول کم کردیا، اپنی غذائی تجارت کھول دی اور اس میں نجے شعبے کا کردار بڑھا دیا۔ انڈونیشیا کی طرح پاکستان بھی گنجان آباد ملک ہے اسی لیے زرعی پالیسیوں کا کسانوں اور عوام کے لیے غذائی تحفظ ( فوڈ سیکیورٹی ) پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
انڈونیشیائی پارلیمان کے منظور کردہ نئے قوانین کے تحت کسانوں کو سپورٹ اور مقامی زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں نرم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ درآمداتی زرعی اجناس پر سے جرمانے ختم کردیے گئے ہیں گرچہ ملکی ضروریات کے لیے کافی اسٹاک ہی موجود کیوں نہ ہو۔ انڈونیشیا نے اب ہارٹیکلچر، لائیواسٹاک اور جانوروں کی مصنوعات کی درآمد کی بھی اجازت دے دی ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انڈونیشیائی عوام کو روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آئیں گے۔
پاکستان کو بھی انڈونیشیا سے سبق لیتے ہوئے قوانین پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ رواں سال میں پاکستان نے پہلے گندم کو اضافی خیال کرتے ہوئے برآمد کردیا اور پھر قلت ہونے پر گندم درآمد کی جارہی ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن تین بار ٹینڈر جاری کرنے میں ناکام رہی۔
اس دوران گندم کی عالمی قیمتیں اوپر چلی گئیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ سرکاری گوداموں میں موجود گندم بھی اجرا کے لیے حکومتی اجازت کی منتظر ہے۔ کسانوں کیلیے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے سے لیکر اس کی خریداری، ذخیرہ کاری، خریدوفروخت، اور ذخائر کے ریلیز ہونے تک ہر مرحلے پر حکومتی اجازت درکار ہوتی ہے تو پھر مافیا کو الزام دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پورے عمل میں وزارتیں اور بیوروکریسی ملوث ہوتی ہے جو غلطیاں کرتی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ کسانوں اور صارفین کے تحفظ کیلیے یہ سخت کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے۔ مگر یہ خیال غلط ہے۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے بجائے کسانوں اور صارفین کو فیصلوں کا اختیار دے دینا چا ہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔