گھر کی سرسبز ’چھتیں‘

نسرین اختر  منگل 13 اکتوبر 2020
درجۂ حرارت بہتر کرنے کا یہ عمل ’کچن گارڈننگ‘ کا کام بھی دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

درجۂ حرارت بہتر کرنے کا یہ عمل ’کچن گارڈننگ‘ کا کام بھی دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

ماحولیاتی آلودگی نے انسانی صحت پر کافی اثرات ڈالے ہیں۔ خاص طور پر گنجان آباد علاقوں میں جہاں فضا میں آلودگی بڑھتی جارہی ہے اور درختوں اور پودوں کا شدید فقدان ہے۔

اس مسئلے کے پیش نظر آج کل ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی نئی بنائی جانے والی عمارتوں میں چھتوں پر باغ بانی، رووف ٹاپ گارڈننگ اور فارمنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف نئی بننے والی عمارتوں کی خوب صورتی میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔

چھتوں پر باغبانی سے موسمی اثرات میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

شہری علاقوں میں جہاں سورج کی تپش، کنکریٹ کے استعمال سے چھتوں پر اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، تو اس کو کم کرنے کے لیے چھتوں پر باغ بانی کے فروغ سے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چھتوں پر باغبانی سے ماحول میں نہ صرف اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ گنجان آباد علاقوں میں صاف ماحول بھی میسر آجاتا ہے۔ جس سے انسانی صحت اور مزاج میں بھی بہتری نظر آتی ہے۔

اس کے ساتھ چھتوں پر باغ بانی سے کسی حد تک ہماری گھریلو ضرورتیں بھی پوری ہو سکتی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے، تو چھتوں پر باغ بانی کے کا شوق یا طریقۂ کار نیا نہیں ہے۔ تاریخ میں اس طریقۂ کار کے ثبوت 600 قبل مسیح کی رومن تاریخ اور گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں مسلم دور حکومت میں بھی موجود ہیں۔ جب چھتوں پر سبزیوں کی کاشت بھی کی جاتی تھی، جس کے لیے آب پاشی کا بھی انتہائی جدید اور معقول بندوبست کیا گیا تھا۔

اس مقصد کے لیے چھتوں کی منڈیروں پر گملوں اور ناکارہ برتنوں میں کئی قسموں کے پودے لگانے کا رواج کئی علاقوں میں عام تھا جن میں عام طور پر تلسی، گیندہ، دھنیا، پودینہ، مرچ، ٹماٹر، پیاز اور دوسرے آسانی سے اگنے والے پودے اور بیلیں اگائے جاتے تھے۔

ان سے نہ صرف کچی چھتوں کی منڈیروں کو مضبوطی ملتی تھی، بلکہ قدرتی خوب صورتی بھی ملتی تھی اور یہ نہ صرف ایک دو گھروں بلکہ ہر اس گھر میں لگائے جاتے تھے، جو باغ بانی کا شوق رکھتے تھے۔ چھتوں کی منڈیروں پر گملوں اور ناکارہ برتنوں میں پودے لگانا پورے ملک میں عام بات تھی۔ پھر جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی منڈیروں کا تصور بھی ختم ہو گیا اور عمارتوں کے جنگل میں زمین تنگ ہوتی گئی۔

ایسے میں چھتوں پر گملوں اور ناکارہ برتنوں میں پودے اگانے سے کافی حد تک باغ بانی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ چھتوں پر باغ بانی اب باقاعدہ ایک آرٹ اور بلڈنگ کنسٹریکشن کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے۔

چھتوں پر باغ بانی کے حوالے سے پودوں کا انتخاب بھی اہم ہے۔ اس وقت پاکستان میں پودوں کی نرسریوں میں بہت سارے ایسے اقسام کے پودے آسانی سے دست یاب ہیں، جن کو گملوں میں لگا کر خوب صورتی کے ساتھ ساتھ فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پودوں کے انتخاب کے دوران سب سے ہم بات یہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ آپ کے پاس دست یاب جگہ کتنی ہے اس کی مناسبت سے پودوں کا انتخاب کریں۔

اگر جگہ کم ہے تو ایسے پودے منتخب کریں، جن کو زیادہ جگہ کی ضرورت نہ ہو۔ پودوں اور گملوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں۔ لیموں، سیب، مالٹا، انگور اور دیگر کئی اقسام کے پھلوں کے ایسے پودے بھی دست یاب ہیں، جن کو گملوں میں آسانی سے لگاکر کہیں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ سبزیوں میں ٹماٹر مرچ ، دھنیا، پودینہ، بینگن ، بھنڈی، توری، کریلا، کدو، گاجر، مولی، مکئی اور دوسری کئی اقسام کی سبزیاں آسانی سے اگائی جا سکتی ہیں۔ سبزیاں اگاکر اپنے گھر کے کچن کی ضرورت کو کسی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔

چھت پر باغ بانی کوئی مشکل عمل نہیں ہے۔ بس پودوں کو مناسب مقدار میں سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ پانی اور کھاد وغیرہ دی جانی چاہیے۔ آرائشی پودے لگاکر بھی اپنے گھر کے ماحول کو خوب صورت بنایا جا سکتا ہے۔ مارکیٹ میں ایسے میٹریل اور اشیا دست یاب ہیں، جن سے آسانی کے ساتھ بغیر کسی نقصان کے چھتوں پر خوب صورت باغ بنائے جا سکتے ہیں، جن میں مناسب سائز کے پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ چھت پر پودوں کے لیے جو گملے یا کیاریاں بنائی جائیں، ان میں فالتو پانی کے نکاس کا ایسا نظام ہو کہ نہ تو وہ کیاری یا گملے میں رہ جائے اور نہ ہی وہ چھت کو نقصان پہنچا سکے۔ یہ بہت ضروری ہے۔

گملوں اور کیاریوں کو چھت پر اس انداز سے رکھا جائے کہ چھت سے اس کے پیندے کی اونچائی کم از کم تین انچ ہو، تاکہ زیادہ پانی آسانی سے گملوں سے خارج ہو سکے اور چھت پر ٹھیرے بھی نہ۔ اس طرح سے چھت کی سطح بھی خشک رہے گی اور چھت ٹپکنے یا عمارت کو پانی سے نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی نہ ہوگا۔ اس طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ مٹی کے ساتھ گملوں کا وزن اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس بات کے پیش نظر چھت کی مضبوطی کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ پودوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں، تاکہ ان کی نشوونما کا عمل متاثر نہ ہو۔ روشنی، پانی اور کھاد کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ مناسب وقفے سے گملوں اور کیاریوں میں گوڈی کرنی چاہیے۔ چھت پر دیواروں کے ساتھ ساتھ اگر پودوں کے لیے جگہ بنالی جائے اور درمیان میں اٹھنے بیٹھنے کی جگہ سلیقے سے بنالی جائے، تو یہ ایک اچھی جگہ بن جائے گی۔ چھتوں پر پودے، بیلیں اور سبزیاں اگانے سے نہ صرف اپنے گھر کے کچن کی ضرورت کسی حد تک پوری کی جا سکتی ہے، بلکہ موسم کی شدت کو بھی کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

تعمیراتی ادارے اور پودوں کی نرسریوں والے عمودی باغ بانی کے فروغ کے لیے کام کیا ہے اور ایسی دیواریں متعارف کروائیں ہیں جن میں عمودی طریقے سے سبزیاں اور پھل کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ اب ایسی ویب سائٹس بھی موجود ہیں، جن کی بدولت تھوڑی سی تلاش کے بعد چھتوں پر باغ بانی اور فارمنگ کے بارے میں بہت ساری معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ چھتوں پر باغ بانی ایک اچھا تصور ہے، ہمارے ملک میں موسمی حالات کے پیش نظر شہروں میں چھتوں پر باغ بانی اور فارمنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔