سرکاری پیسے کا ذاتی استعمال

محمد سعید آرائیں  جمعرات 29 اکتوبر 2020
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ حکمرانوں نے سرکاری پیسے کو ذاتی سمجھ کر بانٹا۔ حکومت کی مالی حالت اسی وجہ سے خراب ہے۔ یہ رقم الیکشن اسسٹنٹ کی غرض سے بانٹی گئی جب کہ پیسہ سرکار کا ہوتا ہے، حکمرانوں کا ذاتی نہیں ہوتا۔ حکومت کا پیسہ پھینکنے کے لیے نہیں ہوتا اور صرف مخصوص اداروں کے ملازمین کو ہی سہولت نہیں دی جا سکتی۔

علاوہ ازیں نیب نے سابق حکمران اور متعدد سرکاری افسروں کے خلاف غیر قانونی طریقے سے 73 گاڑیاں خریدنے ان کے غلط استعمال اور اپنوں کو نوازنے کے لیے قومی خزانے کو 1952-74 ملین روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں ایک اور ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ، پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان، (ن) لیگ کے دو سابق وزیروں سمیت بے شمار سرکاری افسران کے خلاف بھی نیب نے اربوں روپے کے غیر قانونی استعمال اور غیر قانونی اقدامات کی تحقیقات کی منظوری دی ہے۔

نیب نے متعدد نئے ریفرنس بھی ان لوگوں کے خلاف دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اب اپوزیشن کو کوئی رعایت نہیں ملے گی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے بھی حکومت کو ایک ماہ میں 120نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا حکم دے دیا ہے اور نیب کورٹس کو مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سننے، جلد فیصلے کرنے اور غیر ضروری التوا نہ دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حکومت کا یہ حال ہے کہ ملک میں مستقل سیکریٹری قانون موجود نہیں اور وزیر اعظم بھی چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتیں بھی جلد فیصلے کریں مگر حکومت خود اس سلسلے میں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ عدالتوں اور ججوں کی کمی اور سہولیات نہ ہونے سے عدالتوں پر لاکھوں مقدمات کا بوجھ ہے جس کی فکر سپریم کورٹ کو تو ہے مگر حکومت کو نہیں ہے۔

نیب کے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں سال ہا سال سے فیصلوں کے منتظر ہیں کیونکہ بوجوہ پراسیکیوشن جلد مکمل نہیں ہوتی۔ نیب کے ملزمان کئی سال سے جیلوں میں ہیں جن کے خلاف عدالتوں سے جلد فیصلے کرانے میں دلچسپی سیاسی بیانات تک محدود ہے اور نئے ریفرنسز مزید داخل کیے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج عمر عطا بندیال نے قرار دیا ہے کہ نیب ملزمان کا طویل عرصے تک حراست میں رکھا جانا ناانصافی ہے جس کے خاتمے کے لیے اصول وضع کرنا ہوں گے تا کہ فیصلے جلد ممکن ہو سکیں۔

سپریم کورٹ کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ سرکاری رقم کو ذاتی مال سمجھ کر بانٹا گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی مالی حالت خراب ہے۔ عدالتوں میں سابق حکمرانوں اور سرکاری افسروں پر کھربوں روپے کی کرپشن کے نیب کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور نیب کے بقول اس نے اب تک466 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔

نیب میں بھی سہولیات، پراسیکیوٹرز اور عملے کی کمی ہے اور اس کی مالی ضروریات بھی ناکافی ہیں جو حکومت پوری نہیں کر رہی اور اس سلسلے میں اٹارنی جنرل کی وزیر اعظم سے صرف میٹنگز ہو رہی ہیں حکومت کرپشن مقدمات کے جلد فیصلے تو چاہتی ہے مگر ضروریات پوری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کے دوران کرپشن روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ قومی خزانہ بے دردی سے لٹایا جاتا ہے۔ غیر قانونی ٹھیکے دیے جاتے ہیں، خلاف قانون خریداریاں اور تقرریاں ہوتی ہیں۔

حکمران اور اعلیٰ افسر اپنوں کو نوازتے رہتے ہیں اور متعلقہ ادارے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہتے ہیں اور کوئی کارروائی کرتے ہیں نہ رکاوٹ ڈالتے ہیں اور سیاسی حکومتوں میں سیاسی حکمران اور وزرا من مانی کرتے رہتے ہیں مگر انھیں نہیں پوچھا جاتا کہ وہ سرکاری وسائل کا غیر قانونی استعمال کیوں کر رہے ہیں۔

سیاسی حکومتوں میں یہ بھی ہوتا آیا ہے کہ ان کی حکومت میں بھرتی کیے  گئے ملازمین کو آنے والی حکومت فارغ کر دیتی ہے جس کے بعد انھیں بھرتی کرنے والی وہی حکومت پھر اقتدار میں آ کر انھیں مکمل مراعات کے ساتھ بحال کر دیتی ہے اور انھیں برطرفی دور کی تنخواہیں اور مراعات بھی دے کر اپنے سیاسی مفادات مکمل کر لیتی ہے جس کی بات سپریم کورٹ نے بھی کی ہے کہ 15 سالوں کی مراعات دی گئی ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں کی مالی حالت خراب ہوتی رہی۔

حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو انھیں نیب کا ڈر ہوتا ہے نہ عدالتوں کا خوف۔ وہ قانون کو گھر کی لونڈی سمجھ کر کھل کر من مانیاں، اقربا پروری کر کے سرکاری خزانہ ضایع کرتے رہتے ہیں اگر حکمرانوں اور افسروں کی بر وقت گرفت ممکن بنا دی جائے تو بعد میں یہ حالت نہ ہو اور وہ محتاج بھی رہیں مگر اقتدار کے دوران متعلقہ ادارے کچھ نہیں کرتے اور ان کے سابق ہونے کے بعد ہوش میں آتے ہیں تو متاثرہ افراد اسے حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دے کر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔