بحرانوں کاذمے دار

سعد اللہ جان برق  جمعرات 5 نومبر 2020
barq@email.com

[email protected]

ہمیں پتہ تھا، پتہ تھا ہمیں کہ وژن والی حکومت کا وژن بڑا دوربین و خورد بین ہے آخر کار پتہ لگا کر رہے گی کہ تنکا کس کی داڑھی میں ہے اور جس کی نہ داڑھی نہ مونچھ، اس کی کون پکڑے پونچھ۔ چنانچہ پتہ لگ گیا کہ اس ملک میں سب کچھ کا سب کچھ کون ہے۔

اس کا اعلان کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی نے کہاہے کہ اپوزیشن نے ذخیرہ اندوزوں سے مل کر اشیا کا بحران پیدا کیا لیکن حکومت ان دونوں بلکہ تینوں یعنی اپوزیشن ، ذخیرہ اندوزوں اور بحران پر قابو پا لے گی۔ اس کے آگے فقرہ ہم لگا دیتے ہیں کہ میرا نام ’’سورما بھوپالی‘‘ ایسے ہی نہیںہے یا پردہ ہے پردہ ، پردے کے پیچھے ، پردہ نشین ہے ۔

جناب اسد قیصر کا اپنا وژن ہے اور بہت اچھا وژن ہے کیوں کہ وہ بڑے وژن کے بڑے وژن ہیں، لیکن ہمارا بھی ایک چھوٹا ساوژن ہے اور جب ہم نے اپنے اس چھوٹے سے وژن میں دیکھا تو ان مجرمان کے پیچھے جن کا ذکر موصوف نے کیا ہے ایک ماسٹر مائنڈ کو بھی دیکھا۔ اپوزیشن ، ذخیرہ اندوز اور بحران تو محض دکھانے کے دانت ہیں، اس اصل مجرم کا یا ماسٹر مائینڈ کا پتہ آپ لگا سکتے ہیں اور اس کے لیے نہ ہینگ کی ضرورت نہ پھٹکڑی کی۔ صرف آئینہ دیکھنا کافی ہے یعنی وہ ملزم آپ ہیں۔

بلکہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو، سیدھی سی دو اور دو چار والی بات ہے کہ جن اشیا کا ذکر ہو رہا ہے اسے غائب کون کرتا ہے، اپوزیشن اور ذخیرہ اندوز تو زیادہ سے زیادہ ان اشیا کو کہیں  ایک طرف کر دیتے ہیں لیکن وہ آپ ہیں جو انھیں کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ کر غائب کر دیتے ہیں، اس کنوئیں میں جس کا نام پیٹ ہے جو نہ کبھی بھرا تھا نہ بھرتا ہے اور نہ بھر سکتا ہے۔

ان تمام اشیا کے نام ذہن میں دہرا لیجیے ،آٹا، چینی، گھی ، چاول اور نہ جانے کیا الا بلا مسلسل پیدا ہو رہا ہے اور مسلسل غائب ہو رہا ہے ،کارخانے لگے ہوئے ، کھیت کلیاں چل رہے ہیں ہمہ اقسام کی ٹرانسپورٹ لگی ہوئی ہیں ٹنوں چیزیں ادھر ادھر ہو رہی ہیں اور پھر غائب ہو رہی ہیں … کہاں؟

ذرا ہلکا سا حساب لگا لیجیے۔گندم کے اس پہلے دانے سے جو اپنے جد محترم نے کھایا تھا۔ اس سے لے کر آج تک کتنی گندم پیدا ہوئی ہو گی؟ اسی طرح ہر چیز کا حساب لیجیے کہ ہماری یہ ’’ماں‘‘ جسے زمین کہتے ہیں  مسلسل پیدا کر رہی ہے ۔ وہ سب کچھ کہاں گیا کہاں جاتا ہے کہاں جا رہا ہے؟ اور جہاں بھی جا رہا ہے وہی اصل مجرم ہے یہ باقی تو صرف اس کے مددگار ہیں۔

مطلب ہے کہ سیدھی سادھی زبان میں کہیے تو ان سارے ’’بحرانوں‘‘ کی جڑ یہ کم بخت ’’عوام کالانعام‘‘ ہی ہیں، زمانوں زمانوں کی حکومتیں تھک گئیں، بھانت بھانت کے ’’نظام‘‘ آئے اور گئے لیکن ان کم بختوں کا یہ ’’کنواں‘‘ نہ بھر سکے ، ہمیں تو لگتا ہے ان کم بختوں نے کہیں پرانے زمانے میں ایسی کوئی غلط چیز کھائی ہے جس نے ان کے پیٹ میں یہ نہ بجھنے والی آگ لگائی ہے جسے ’’بھوک‘‘ کہتے ہیں۔

اگر آپ کو یاد ہو تو ہم نے کہیں ایک سائنس فکشن کہانی آپ کو سنائی تھی جس میں ایک شخص بازار میں جاتے ہوئے ایک ’’کیپسول ‘‘ زمین پر پڑا دیکھتا ہے تو اسے کھا لیتا ہے کہ دوا ہے کچھ اندر ٹھیک کر دے گی لیکن کیپسول کھاتے ہی اس کی بھوک چمک گئی اور پھر وہ کھاتا گیا اور بھوک بڑھتی گئی… ، منوں ٹنوں خوراک اس نے ہڑپ لی لیکن پھر کچھ اور… جب پہلے گھر پھر محلے پھر شہر کی ساری خوراک اس نے ہڑپ کر لی تو بھوک بھوک چلاتا ہوا بے ہوش ہو گیا۔

پیٹ کا آپریشن کیا گیا لیکن پیٹ میں کچھ بھی نہ تھا، اس ایک کیپسول  کے سوا۔ کیپسول کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ کوئی کیپسول نہیں بلکہ ایک الگ قسم کا ٹرانسمیٹر تھا جو کسی ’’خلائی مخلوق‘‘ نے پھینکا تھا تا کہ اس کے ذریعے  غذائی  اشیا اپنے سیارے پر ٹرانسفر کریں۔

اب یہاں ہم کسی خلائی مخلوق یاٹرانسمیٹر کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے حالاں کہ لوگ ایسی کسی مخلوق کے بارے میں کہتے رہتے ہیں۔

شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم

لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہے‘‘ پر مجھے منظور نہیں

عوام کے ساتھ ’’پیٹ‘‘ نام کی بلا لگی ہوئی ہے یہ سب کچھ اسی کا کیا دھرا ہے صاف صاف کہیے تو تمام بحرانوں اور خاص طور پر اشیاء صرف کی قلت کے ذمے دار یہی عوام ہے جو خود کو بڑی معصومیت سے کالانعام کہتے رہتے ہیں۔

فرض کیجیے اگر آج کوئی اچھی سی ’’وبا‘‘ (سیاست کے علاوہ)آ جائے اور عوام کوفنا کر دے، چلیے سب کے سب نہیں آدھے ہی انڈر گراؤنڈ کر دے … تو ملک میں خوراک کے ڈھیر لگ جائیں گے ۔ دکاندار دوڑ دوڑ کر خریداروں کی منت کریں گے کہ خدا کے لیے کچھ تو لے جاؤ اپنی منہ مانگی قیمت پر لے جاؤ لیکن سڑنے سے بچاؤ۔

اور غالباً موجودہ وژن والی حکومت  نے ’’یہ راز‘‘ معلوم کر لیا ہے بظاہر تو کچھ اور کہتی ہے لیکن ’’وژن‘‘ کی کہیں پر نگاہیں اور کہیں پر نشانہ ہے۔

اگر ایسے ہی براہ راست کوئی فورس بنا کر کالانعاموں کو مارنا یا نصف نصف کرنا شروع کر دے تو ’’شور‘‘ مچ سکتا ہے ۔ آخر کوئی ایری غیری عام حکومت تو نہیں ہے چنے ہوئے دانا دانشوروں، وژن والوں اور انصاف والوں کی حکومت، ایسا کیسے کر سکتی ہے۔ لیکن کرنا تو ہے اس لیے ’’ بالواسطہ‘‘ طور پرکر رہی ہے۔

مجرموں کو براہ راست گولی مارنے یا پھانسی چڑھانے  کے بجائے انھیں ایک ’’اجرتی قاتل‘‘ کے ذریعے مار رہی ہے جس کا نام ’’مہنگائی‘‘ ہے جو بڑے کمال سے دھیرے دھیرے اپنا وولٹیج بڑھا رہی ہے  اور ایک دن آپ سن لیں گے کہ نہ رہا بانس اور نہ رہی بانسری لیکن آپ کہاں سے سنیں گے اورکیسے سنیں گے کہ آپ تو ’’کیفرکردار‘‘ تک پہنچ چکے ہوں گے، مہنگائی سے یہ کہتے ہوئے کہ

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خوابِِ عدم میں شب ہجراں ہوں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔