پاکستان اور بھارت کی ’’باسمتی‘‘ جنگ

سید عاصم محمود  اتوار 8 نومبر 2020
سرزمین پنجاب کے عالمی شہرت یافتہ غذائی تحفے پر مودی سرکار اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرنے لگی،خصوصی رپورٹ۔ فوٹو : فائل

سرزمین پنجاب کے عالمی شہرت یافتہ غذائی تحفے پر مودی سرکار اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرنے لگی،خصوصی رپورٹ۔ فوٹو : فائل

بھارت کی مودی سرکار پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کرتی اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان کو معاشی‘ عسکری‘ سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے کمزور مملکت بنا دیا جائے۔

اسی منفی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ستمبر 2020ء میں مودی حکومت نے یورپی یونین سے مطالبہ کر دیا کہ بھارت کے باسمتی چاول کو ’’جغرافیائی شناخت‘‘ (Geographical indication) سے نوازا جائے۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمد کو ضرب پہنچائی جا سکے۔ایک طرف  بعض پاکستانی سیاسی رہنما اقتدار و ذاتی انا کی خاطر پستی کی انتہا تک پہنچ کر مادر وطن کا سودا کر رہے ہیں، دوسری سمت مودی سرکار نے پوری قوت سے پاکستان کے خلاف ہائبرڈ جنگ چھیڑ رکھی ہے جس کا مقابلہ صرف متحد قوم  ہی کر سکتی ہے۔

بین الاقوامی تجارت میں جغرافیائی شناخت ایک نئی قسم کا ٹریڈ مارک بن چکا ۔ جب کسی شے یا مصنوعہ کو یہ ٹریڈ مارک دیا جائے تو مطلب یہ کہ وہ شے مخصوص جغرافیائی علاقے میں روایتی طریقوں کی مدد سے تیار ہوتی ہے۔ اور یہ کہ وہ ایسی خصوصیات رکھتی ہے جو اس جیسی دیگر اشیا میں نہیں ملتیں۔ اپنی خصوصیات کے باعث وہ شے عالمی سطح پر شہرت رکھتی اور مہنگی قیمت پر بھی ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے۔ چنانچہ مودی حکومت کی کوشش ہے کہ باسمتی چاول کو بھارت سے مخصوص جغرافیائی شناخت کا ٹریڈ مارک مل جائے۔ مگر یہ سفید جھوٹ اور تاریخی حقائق جھٹلانے کی بھارتی سازش ہے۔ مکاری اور عیاری مودی حکومت پر ختم ہے۔

2000ء میں بھارت کے تین زرعی سائنس دانوں ‘ آر کے سنگھ‘ یو ایس سنگھ اور جی ایس خوش نے ’’Aromatic Rices‘‘ (خوشبودار چاول) کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی۔ اس میں باسمتی چاول کی تاریخ تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔بھارتی دانشور لکھتے ہیں کہ ماہرین آثار قدیمہ نے کھوج لگایا ہے‘ ہڑپہ کے مکین خوشبو دار چاولوں کی کاشت کرتے تھے۔ اس شہادت سے عیاں ہے کہ خوشبو دار چاول سب سے پہلے پاکستانی پنجاب کے علاقے میں اگائے گئے۔ باسمتی بھی خوشبودار چاولوں کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔

کتب ِتاریخ سے پتا چلتا ہے کہ وارث شاہ نے اپنی ہیر رانجھا میں باسمتی کا ذکر کیا ۔ اس زمانے میں دریائے چناب سے لے کر دریائے راوی تک کے علاقے باسمتی چاول اگانے کا مرکز بن چکے تھے۔ یہ علاقے ’’کالر‘‘ کہلاتے ہیں۔ آج گوجرانوالہ ‘ حافظ آباد‘ گجرات‘ سیالکوٹ‘ نارووال‘ شیخوپورہ‘ منڈی بہاوالدین ‘ ننکانہ صاحب اور قصور میں باسمتی چاول اگایا جاتا ہے۔باسمتی کی کئی اقسام یا ورائٹیاں ہیں۔ بیسویں صدی میں اس کی مشہور ترین قسم ’’باسمتی 370‘‘ تھی۔ یہ ورائٹی 1933ء میں رائس ریسرچ سینٹر‘ کالا شاہ کاکو، لاہور کے زرعی سائنس دانوں نے تیار کی تھی۔ یہ ہندوستان میں ’’ڈیرہ دونی باسمتی‘‘ اور ’’امرتسری باسمتی‘‘ کے ناموں سے مشہور ہوئی۔

باسمتی چاول چاولوں کی دیگر اقسام کی نسبت لمبے ہوتے ہیں۔ پک کر مزید لمبے ہو جاتے ہیں اور ان سے سحر انگیز مہک آتی ہے۔ پک کر آپس میں نہیں چپکتے ۔ ان میں غذائیت بھی دیگر اقسام سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے عالمی مارکیٹ میں چاولوں کی تمام اقسام میں باسمتی چاول سب سے زیادہ مہنگے ہیں۔ اس کو ’’خوشبودار چاولوں کی ملکہ‘‘ کہا جاتا ہے۔سرزمین پنجاب سے باسمتی چاول کے بیج دیگر علاقوں میں بھی لے جائے گئے۔ آج بھارت کے علاقوں جموں و کشمیر‘ ہماچل پردیش‘ ہریانہ دہلی‘ اتر کھنڈ اور اتر پردیش میں بھی باسمتی چاول اگائے جاتے ہیں۔ لیکن بیشتر عالمی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی پنجاب میں کاشت کردہ باسمتی چاول اپنی خوشبو‘ ذائقے اور غذائیت کے لحاظ سے بے مثال ہیں۔

باسمتی 370قسم کے بیج کی ایک خامی یہ تھی کہ وہ پیداوار کم دیتا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں پاکستانی سائنس دانوں نے باسمتی کی نئی ورائٹی ’’سپر باسمتی‘‘ تیار کر لی۔ پچھلے بیس سال سے پاکستانی کسان اسی ورائٹی کے باسمتی چاول زیادہ اگا رہے ہیں۔ نیز نئی اقسام بنانے پر بھی تحقیق جاری ہے۔ پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر اس ضمن میں سائنسی تحقیق و تجربات ہو رہے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے زیادہ بہتر بیج سامنے آ چکے۔فلپائن میں چاولوں کی اقسام پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے’’ انٹرنیشنل رائس ریسرچ سینٹر‘‘ نے ایک جینوم بینک بھی قائم کر رکھا ہے۔ اس میں دنیا بھر سے جمع کردہ چاولوں کے بیج جمع ہیں۔ درج بالا بھارتی کتاب میں درج ہے کہ بینک میں ’’باسمتی‘‘ کے نام سے 86 بیج محفوظ ہیں۔ ان میں سے ’’67‘‘ پاکستان ’’9‘‘ بھارت‘ ’’7‘‘ نیپال‘ ’’2‘‘ بنگلہ دیش اور ’’1‘‘ بیج سری لنکا سے تعلق رکھتا ہے۔

درج بالاحقائق سے عیاں ہے کہ باسمتی لفظ یقتا ً سنسکرت زبان کے الفاظ سے نکلا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ باسمتی چاول کو بھارت کی جغرافیائی شناخت سے مخصوص کر دیا جائے۔ سچ یہ ہے کہ باسمتی چاول نے پاکستانی و بھارتی پنجاب کے علاقوں میں جنم لیا‘ وہیں وہ ارتقا و نشوونما کے مراحل سے گزرا اور پھر برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔

دلچسپ بات یہ کہ ماضی میں بھارتی حکومت نے تسلیم کر لیا تھا کہ بھارت اور پاکستان مشترکہ طور پر باسمتی چاول کی جغرافیائی شناخت رکھتے ہیں۔ ہوا کہ 1997ء میں ایک امریکی کمپنی‘ رائس ٹیک نے لمبے امریکی چاول کی ایک قسم اور باسمتی چاول کے ادغام سے ایک نئی ورائٹی تیار کر لی۔ اسی سال امریکا کے پیٹنٹ آفس نے اس نئی ورائٹی کو ’’باسمتی چاول‘‘ کے نام سے منظور کر لیا۔ مطلب یہ کہ اب امریکا میں صرف رائس ٹیک کمپنی کے بیجوں سے تیار کردہ باسمتی چاول ہی فروخت ہو سکتے تھے۔

اس نئی پیش رفت سے بھارتی و پاکستانی باسمتی چاول کی امریکا میں فروخت خطرے میں پڑ گئی۔ مزید براں بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے ٹریڈ مارک کی چوری کا الزام بھی امریکی کمپنی پر لگا دیا۔ دونوں حکومتوں نے پھر رائس ٹیک کو امریکی عدالتوں میں گھسیٹ لیا۔ امریکی عدالتوں نے تسلیم کیا کہ باسمتی چاول ہندو پاک کے علاقوں سے مخصوص ہے۔ اسی بنا پر 2002ء میں امریکی پیٹنٹ آفس نے رائس ٹیک کو باسمتی چاول کا دیا گیا پیٹنٹ منسوخ کر دیا۔ یوں بھارت اور پاکستان کی مشترکہ کوشش سے ایک چور ا مریکی کمپنی کو عدالتی شکست ہو گئی۔

بھارت اور پاکستان کا استدلال تھا کہ باسمتی چاول ان کے مخصوص علاقوں میں اگتے اور منفرد خصوصیات رکھتے ہیں۔ ان کی کاشت میں آب و ہوا‘ مٹی‘ موسم اور مقامی حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے‘ باسمتی چاول اگر امریکی ٹیکساس یا فلپائن میں اگائے جائیں تو وہ خوشبو ‘ لمبائی ذائقے میں کبھی برصغیر کے باسمتی چاول کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

امریکا میں عدالتی فتح کے بعد بین الاقوامی طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ باسمتی چاول پاکستان اور بھارت کی مخصوص جغرافیائی ساخت و شناخت رکھتے ہیں۔ یورپی یونین اور امریکا کے قوانین میں یہی درج ہے کہ باسمتی چاول پاکستان و بھارت کی مشترکہ پیداوار ہیں ۔ مگر اب بغض و تعصب کے زہر میں شرابور مودی سرکار باسمتی چاول کو بھارت کی جغرافیائی شناخت دلوانا چاہتی ہے۔یہ اس کی پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی چال و سازش ہے۔پاکستان ہر سال پانچ سے سات لاکھ ٹن باسمتی چاول برآمد کرتا ہے۔ عالمی منڈی میں اس کی مالیت 80کروڑسے سوا ارب ڈالر تک ہے۔ یوں باسمتی فروخت کر کے پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ مگر بھارت کو باسمتی چاول کا ٹریڈ مارک مل گیا تو پاکستانی باسمتی کی برآمد میں بیس پچیس فیصد کمی آ سکتی ہے۔

اہم ترین بات یہ کہ باسمتی چاول پاکستان کی تہذیب و ثقافت کی ایک عالمی شہرت یافتہ نشانی ہے۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی یہی تہذیبی شناخت اور پہچان چھیننا چاہتا ہے۔ اگر بھارت کو باسمتی کی جغرافیائی شناخت مل گئی‘ تو یہ چاول رفتہ رفتہ عالمی سطح پر بھارت سے مخصوص ہو جائے گا۔ تب بھارت ہی باسمتی چاول کا وطن قرار پائے گا۔

حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔یورپین کمیشن میں بھارت کی درخواست برائے جغرافیائی شناخت پر 30 دسمبر تک اعتراض داخل کیا جا سکتا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے‘ یورپین کمیشن میں بھارتی درخواست کے خلاف بھرپور اور دلائل سے اعتراضات پیش کیے جائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ باسمتی چاول پاکستان و بھارت کی مشترکہ پیداوار ہے اور اسے کسی ایک ملک کی جغرافیائی شناخت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے کہ بعض لالچی برآمد کنندگان باستمی چاول میں دیگر عام چاول ملا کر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ اس دھوکے بازی سے بیرون ممالک پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے ۔ یہی نہیں‘ پاکستانی باسمتی چاول کو گھٹیا کوالٹی کا بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لالچی افراد کو اپنی روش بدلنا ہو گی تاکہ وہ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے اوربدنام کرنے سے باز رہیں۔بھارت ’’ملتانی مٹی‘‘ اور ’’سرخ نمک‘‘ کو بھی اپنی جغرافیائی شناخت دینے کی کوششیں کر رہا ہے۔ سرخ نمک ہمالیائی نمک بھی کہلاتا ہے۔

یہ دونوںاشیا بھی پاکستان کی عالمی سطح پر پہچان ہیں۔ مگر بھارت انہیں اپنا ٹریڈمارک دے کر اپنے ’’برانڈ‘‘ کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرانے کا خواہش مند ہے۔ حکومت ہی نہیں پاکستانی قوم کو بھی چاہیے کہ وہ اتحاد و یک جہتی سے مودی سرکار کی پاکستان دشمن سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

خطہ ِکشمیر پر قبضے کا بھارتی پلان
بیسویں صدی کے آغاز میں فلسطین کی مسلم آبادی94فیصد تھی۔اس دوران امریکا و یورپ میں مقیم یہود کے لیڈر ایک خفیہ منصوبے کے تحت فلسطین میں زمینیں خریدنا شروع کر چکے تھے۔منصوبہ یہ تھا کہ فلسطینی مسلمانوں کو بھاری قیمت دے کر ان سے زمینیں خرید لی جائیں۔وہاں پھر دنیا بھر سے یہودی لا کر بسانے کا پروگرام تھا۔چناں چہ 1900ء کے بعد فلسطین میں یہود کی مسلسل آمد سے وہاں ان کی آبادی بڑھنے لگی۔1914ء میں یہود کی تعداد بیس ہزار سے بڑھ کر ساٹھ ہزار جا پہنچی۔

1922ء میں چوراسی ہزار پہنچ گئی جبکہ 1944ئتک فلسطین میں ساڑھے پانچ لاکھ یہودی آباد ہو چکے تھے۔یوں یہود کے لیڈروں نے فلسطین میں بے دریغ زمینیں خریدنے کے طریق واردات سے فلسطینی مسلمانوں کو وسیع علاقوں سے محروم کر ڈالا۔انہی علاقوں پر آج یہود کی مملکت اسرائیل قائم ہے جس کی ظالم حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔زمین خریدنے کی پالیسی کے تحت آج بھی اسرائیل یہودی بستیاں بسا کرمجوزہ مملکت فلسطین کے علاقوں پہ قبضہ کر رہا ہے۔

یہود کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ہندو لیڈروں نے بھی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں زمینیں خریدنے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے۔اب کوئی بھی بھارتی شہری ریاست میں زمین خرید سکتا ہے۔اس منصوبے کا عیاں مقصد یہ ہے کہ خصوصاً وادی کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندو بسا دئیے جائیں تاکہ وہاں مسلم آبادی کی شرح کم ہو سکے۔اس طرح وادی کو ہندو علاقہ قرار دینا مقصود ہے تاکہ وہاں مستقبل میں رائے شماری نہ ہو سکے۔

وائے افسوس کہ معاشی،سیاسی اور ذاتی مفادات نے اُمت ِمسلمہ کو تقسیم کر دیا ہے۔عالم اسلام میں عوام پھر خصوصاً حرمت ِرسول ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے متحد ہو جاتے ہیں مگراسلامی ممالک کی حکومتوں کے ہاتھ مفادات کی رسی سے بندھ چکے۔اس خرابی سے اسرائیل اور بھارت کے حکمران طبقے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔وہ علی اعلان فلسطینی وکشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔اسلامی حکومتیں شاذونادر دونوں عالمی غنڈوں کے خلاف بیان داغ دیتی ہیں اور ان کا ظلم روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتیں۔دنیاوی فوائد پانے کے لیے انھوں نے گویا اپنی دینی وقومی حمیت اور غیرت کا جنازہ نکال دیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔