پشتو فلمیں؟

سعد اللہ جان برق  جمعرات 12 نومبر 2020
barq@email.com

[email protected]

پشتو کا فلمی دور اگر چہ بہت ہی مختصر رہا ہے یعنی یہ ’’غنچہ‘‘ بن کھلے ہی مرجھا گیا لیکن پھر بھی اس میں بہت سارے پھول بہار جاں فزا دکھلا گئے۔

حاجی اسلم خان ریڈیو پاکستان کا ایک پروگرامر ہے، سب سے پہلے تو اس نے ریڈیو پر ایک پروگرام شروع کیا، ’’بھولی بسری آوازیں‘‘ جس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ گانے دوبارہ زندہ کر دیے جاتے تھے جو ایک زمانے میں بیسٹ سیلر ہوا کرتے تھے لیکن پھر کالے ریکارڈوں کی شکل میں گم ہو گئے۔

پشتو گانوں کے یہ کالے گراموفون ریکارڈ اس زمانے میں بنے تھے جب بجلی ابھی نہیں آئی تھی اور ریکارڈنگ کمپنیاں بیٹریوں کے ذریعے ریکارڈنگ کیا کرتیں، ہزماسٹر وائس، بانگا فون وغیرہ اس زمانے کی مشہورکمپنیاں تھیں جوکالے ریکارڈز کرتی تھیں اور پھر وہ ریکارڈ دستی یا چابی والے گراموفون سے بجائے جاتے تھے۔

یہ ایک دور تھا جس میں تفریح کا واحد ذریعہ یہی گرامو فون تھا، یہ کمپنیاں چنیدہ شاعروں اور گائکوں کو دہلی اور کلکتہ بلا کر گانے گواتیں اور ریکارڈز کرتی تھیں۔ اس زمانے کے بہت سے نایاب گانے ان ریکارڈز پر آگئے جو یہاں وہاں شوقینوں کے پاس تھے کہ پھر اچانک ریڈیو، ٹرانسسٹر اور ٹیپ ریکارڈر آ گئے اور ان گراموفون ریکارڈز کولوگ بھول گئے۔

چند پرانے شوقین ہی ان کو یاد کرتے تھے چنانچہ اس ریڈیو پروگرام میں جب ان بھولی بسری آوازوں اور گانوں کا سلسلے شروع ہوا تو کونے کونے سے یہ پرانے ریکارڈز مل گئے اور سیکڑوں ہزاروں گم شدہ گانے اور فن کار منظر عام پر آ گئے، اور اس کام میں حاجی اسلم ہی کی محنت شامل تھی۔ پھر اس نے ان پرانے فن کاروں کے حالات بھی جمع کیے اور ان پر ایک کتاب ’’تیر ہیر آوازونہ‘‘ بھولی بسری آوازوں میں بھی لکھ کر چھاپ دی یوں پشتو موسیقی کا ایک قیمتی سرمایہ ضایع ہونے سے بچ گیا۔

حاجی اسلم کا تازہ ترین کارنامہ ’’پشتو فلمیں‘‘ ہے، اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں کہاں جا کر اس نے ان گم شدہ فن کاروں، مصنفوں، ڈائرکٹروں، موسیقاروں کو کھود نکالا ہے، ان سے انٹرویو کیے ہیں اور پورے فلمی دور کا احاطہ کیاہے۔

یہ سارے اداکار اور فن کار حسب معمول آج کل گوشہ گمنامی میں پڑے کس مپرسی کی حالت میں اپنا سنہرا دور یاد کرتے ہوئے رو رو کر آہیں بھر رہے ہیں۔ پشتو فلموں کے ان فن کاروں کے ساتھ تو دہرا المیہ ہوا ہے، ایک تو وہ المیہ ہوتا ہے جوہر زبان کے فلم انڈسٹری میں ہوتا رہتا ہے کہ یہ فن کار خود بھی قصوروار ہوتے ہیں اپنے دور عروج میں یہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر…

رومیں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہیں رکاب میں

چنانچہ زوال کے ساتھ ہی کس مپرس ہو جاتے ہیں کچھ پس انداز تو کیا نہیں ہوتا، اس لیے گمنامی اور کسمپرسی میں کھانستے ہوئے مرکھپ جاتے ہیں۔

لیکن پشتو فلمی لوگوں کے ساتھ ایک اور بھی المیہ ہو گیا ہے ، اپنے دور عروج میں جب شناختی کارڈ نہیں رہے تھے تو ان میں اکثریت نے پنجاب یا لاہور کے کارڈ بنوائے تھے، اب یہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ اگر صوبے میں کچھ داد رسی فن کاروں کی ہوتی ہے تو شناختی کارڈ کے لحاظ سے تو یہ پنجاب کے ہیں اور پنجاب میںہوتی ہے تو یہ پشتون ہوتے ہیں۔

خیر یہ الگ المیہ ہے لیکن حاجی اسلم نے سعی بسیار سے کم از کم ان کو امر تو کر دیا ہے اور پشتو فلموں کی ایک باقاعدہ تاریخ آن پیپر ہو گئی ہے۔ اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہو گی کیوں کہ…

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

اکثر لوگ… ’’رات گئی بات گئی ‘‘کے قائل ہوتے ہیں اور وہ تاریخ کو بھی ایک فضول چیز سمجھتے ہیں کہ چھوڑو گڑے مردوں کے اکھاڑنے سے فائدہ کیا۔

یہ ہمارے اس جدید دور کا بہت بڑا المیہ ہے کیوں کہ انسان کی سوچ روز بروز ’’نفسی نفسی‘‘ اور ذاتی ہوتی جا رہی ہے اور ہر چیزکو ’’نقد‘‘ نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔

لیکن تاریخ قوموں کا ’’حافظہ ‘‘ ہوتی ہے جس طرح ایک فرد بغیر یادداشت کے ایک بے جان بت ہو جاتا ہے نہ اسے اپنا نام یاد رہتاہے نہ گھر نہ خاندان اور نہ اورکچھ۔ چنانچہ مکمل طور پر وہ دوسروں کے سہارے ہو جاتا ہے جس طرح جانورکو جس نے رسی ڈالی اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔

ہم بے راہ روں کا کیا ہے

ساتھ کسی کے ہو لیں گے

ایسی ہی ’’تاریخ‘‘ ایک قوم کے لیے ضروری ہوتی ہے ہر اچھی بری بات اسے یاد ہونی چاہیے تا کہ وہ دیکھ سکے کہ کہاںکہاں غلطی ہوئی ہے اور اس غلطی کا کیا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے یا کہاں کہاں کوئی اچھی بات ہوئی اور اس سے ہمیں کیا سبق لینا۔

مذکورہ کتاب بھی تاریخ کے ایک پہلو کا احاطہ کرتی ہے اور بہت کچھ یاد دلاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔